میرا ہیرو عمران خان۔۔۔۔۔حسیب حیات

اسے کپ اٹھائے ہوئے دنیا دیکھ رہی تھی ۔ اس پل میں بالکل بھول چکا تھا کہ اپنے مضبوط ہاتھوں میں نازک سا کپ اٹھانے والا یہ شخص کون ہے۔ اس لمحے کرسٹل کا وہ کپ مجھے اپنے سحر میں جکڑے ہوئے تھا۔ قصور میرا بھی نہ  تھا، پچھلے ایک ماہ سے دن رات کا سکون برباد کئے تسبیح کے منکے پھیر پھیر، رب سے اسی کپ کو پالینے کی آس، میں ہی نہیں پوری کی پوری قوم لگائے پھرتی تھی۔ رمضان کی ان راتوں میں ہماری نفلی نمازوں کے رکوع و سجود، خضوع خشوع کی انتہاؤں کو چھوئے جاتے تھے ۔ چمکتا ہو ا یہ کپ اب پوری قوم کا تھا۔ لوگ ایسے خوش تھے جیسے آسمان سے جھومنے والے حلال مشروب کی بارش ہو نے لگے گی اور جسے اس کپ میں بھر بھر پینے کو ملے گا ۔ شہرت کی انتہاؤں کو چھوتی اس اٹھان کے ساتھ عمران خان کے کرکٹ کیرئر کا اختتام ہوگیا ۔ یہ وہی عمران خان تھا جو میرا ہیرو اس آخری لمحے تک نہ  بن سکا ۔ ایک اکھڑ اور بدمزاج انسان جس کے انگ انگ سے رعونت ٹپکتی تھی۔ میرے دل کو یہ شخص کبھی بھی نہ  بھاتا تھا۔ کرکٹ کے میدان میں اپنی جیت کو امر کر لینے کے اس آخری لمحے بھی وہ میرا ہیرو  نہ  تھا۔

بات کرکٹ کی کروں تو جاوید میانداد میر  دل دا جانی ہوا کرتا تھا۔ وہ بلے باز بلکہ شہباز تھا ۔ میدان میں جان لڑانے والا ایک مرد بحران ، مخالفین پر نفسیاتی حملے کرنے والا اپنوں  کا حوصلہ بڑھانے والا کھیل میں رنگ بھر دینے والا وہ عظیم بلے باز جس کے ساتھ عمران نے ہمیشہ زیادتی کی۔ حتی کہ ورلڈ کپ ٹیم میں بھی اس کا نام اناؤنس نہ  کیا گیا تھا ،وہ بیچارا تو ہانپتا کانپتا ہوا پہنچا اور اپنے طور ٹیم   کا حصہ بنا ۔ اور پھر ذاتی رنجشیں بھول بھلا کر قوم کے لئے خوشیاں حاصل کرنے کو جت پڑا۔مگر ہر بار کی طرح اس بار بھی اس کے ساتھ وہی ہوتا آیا ،سلوک ہوا ۔ کپ اٹھانے والے نے” میں” اور “میرا کینسر ہسپتال” کی گردان کرتے کرتے جیت کا سارا کریڈٹ اپنی جیب میں ڈال لیا ۔

دنیا جسے ہیرو مانتی تھی میں اسے لٹیرا جانتا تھا۔ لٹنے کا غم کیا ہوتا  ہے یہ لٹنے والا ہی جانتا  ہے ۔ ایسے میں بھلا لوٹ لینے والے کو میں ہیرو کیسے مان لیتا۔ بچپن سے ہی میں اپنے  خوابوں کی دنیا بسائے ہوئے تھا۔ میرے خوابوں میں اکثر پریاں دستک دیتی تھیں۔ میں جنہیں اک نظر دیکھتا اور شرمائے جاتا تھا دوسری نظر ڈالنے کی ہمت ہی نہ  کر پاتا تھا ۔ اسی حالت میں سورج سر پر چڑھ آتا ۔میں اس جلن کے مارے آگ گولے سے اپنا سپنا چھپائے تکیے نیچے دبا لیتا تھا اور پھر خیال کے دھاگے میں پرو کر قسط سے قسط بنائے چلا جاتا تھا ۔ مگر افسوس جو کام سورج نہ  کر پاتا گھر پہنچی اخبار کر دیتی تھی ۔ یہ اخباری خبریں میرے سینے میں سورج جیسی آگ لگا جاتی تھیں ۔ کم بخت یہ لٹیرا ہر بار میرے ارمانوں کا خون کر جاتا تھا ۔ میرے خوابوں میں آنے والی ہر ہیروئن کا عمران سے افئیر بنا پڑا ہوتا تھا ۔۔ یہ کمینہ چالاک و ہوشیار بھی بہت تھا انگریزوں میں رہ کر انگریزی چالیں سیکھ چکا تھا۔ جیسے انگریز ڈیوائڈ اینڈ رول کی چال چلتے تھے یہ چالاک جیتنے کی خاطر ڈیوائڈ کر دیا کرتا تھا۔ اگر یقین نہیں آتا تو ٹؤر آف انڈیا یاد کر لیجئے۔ جب بھارتی مرد کپیل دیو کی سپھلتا کی خاطر رام رام پکارا کرتے تھے اور ان کی مہیلاؤں کا سانس عمران کے لئے اندر باہر ہوتا رہتا تھا۔ یہ سب اسی بندے کی چالیں۔ بس اسی لئے میرا ہیرو اسکینڈلز سے پاک “باوضو حالت میں بیٹنگ کے لئے آنے والا میانداد تھا”۔

اللہ درجات بلند کرے سنٹرل ماڈل ہائی اسکول سمن آباد لاہور کے ہمارے ہیڈ ماسٹر صاحب کے، جنہوں نے نوٹس بورڈ کے ساتھ کالے تختے پر سات سے آٹھ چیدہ چیدہ خبریں لکھنے کا سلسلہ شروع کرا رکھا تھا ۔ دن بھر کی اخباری سرخیاں پڑھنے کا مجھے ایسا چسکا لگا کہ میں آدھی چھٹی ختم ہونے سے ذرا پہلے گراؤنڈ چھوڑ  کر لمبا چکر کاٹتے ہوئے اس سیاہ تختے کے سامنے جا پہنچتا تھا ۔ ان ہیڈ لائنز میں آخری خبر کھیل کے میدان سے جڑی ہوا کرتی تھی۔ اک روز مگر عمران خان سے جڑی خبر کو پہلی رو میں جگہ دی گئی تھی ۔ خبر کے الفاظ کچھ یہ تھے۔۔
کینسر سے لڑتی عمران خان کی والدہ شوکت خانم چل بسیں ۔ عمران خان نے اپنی والدہ کے نام کینسر ہسپتال بنانے کا اعلان کیا ہے۔ان دنوں ہم موت اور بیماری کے تصور سے سینکڑوں میل دور معصومیت کی ٹھنڈی ندی میں غوطے لگایا کرتے تھے۔ وقت گزرتا گیا اور اس کرکٹ کی کتاب میں عمران کے صفحے پر آخری لکیر لگانے کا وقت آن پہنچا ۔مگر اس لگتی سیدھی لکیر کی راہ میں سلیم جعفر کی کھودی ہوئی اٹھارہ رنز کی کھائی حائل ہوگئی  ۔یوں عمران کا خواب پُھر کر کے اڑا اور حقیقت سے پانچ سال کی دوری پر میلبورن جا بیٹھا ۔ہم نے عمران کی ماں کے نام کینسر ہسپتال بنتے دیکھا ۔ اس خود پسند کو انا کے خول سے نکل کر اسکولوں کالجوں کلبوں بازاروں میں ہاتھ پھیلاتے دیکھا ۔ اور پھر ہم نے وہ دن بھی دیکھا جب ساری دنیا کے طاقتور کیمرے گولڈ سمتھ کی لڑکی کو گھیرے کھڑے تھے اور وہ لڑکی شلوار قمیض میں ملبوس اس خان کے نام سے اپنا نام جوڑے بیٹھی تھی۔یہ وہ لمحہ تھا جب عمران سے لاتعلقی برتتا میرا دل بھی بول پڑا یہ شخص میرے ملک کی پہچان کروانے والا ہے تعارف ہے یہ میرا ۔ نام ہے یہ میرا۔

اسی عمران نے انیس سو چھیانوے میں سیاست میں قدم رکھ دیا مگر اس کے عوامی اننگز شروع کرنے سے پہلے ہی سیتا وائٹ گھر گھر پہنچ چکی تھی۔ بورڈ کے امتحان کی طرح یہودی سازش لیک آؤٹ ہو کر ہر خاص و عام حفظ کر چکا تھا اور پھر کینسر ہسپتال کے نام سے دکان کھولنے کا الزام گلی گلی کا شور بن چکا تھا۔ سیاست کے شہزادوں نے پہلے ہی الیکشن میں اس سیاسی ٹٹ پونجیے کو اسکی اوقات دکھا دی ۔ کلین سویپ کا خواب دیکھنے والے اس نووارد کو کلین سویپر یعنی جما دار بنا دکھایا تھا۔ اس الیکشن کے بعد ہم نے مرکز میں بڑا اور صوبے میں چھوٹا بھائی حاکم بنتے دیکھا ۔گویا جمہوریت کی عزت سے چڑی چھکا کھیلنے کے بعد اسے گلا گھونٹ کر راتوں رات کسی نم ہوئی مٹی میں دفنا دیا گیا ۔ کہیں سے کوئی آواز اس ظلم کے خلاف نا اٹھی یوں مجھے اپنے سیاسی سفر کا ایک بڑا سبق مل گیا ۔ ذرا گرم ہو جیب تو جمہوریت گھر کی باندی ہے ساقی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس کے بعد دو ہزار دو کے الیکشن ہوئے ڈبے کھلے گنتی ہوئی ، اللہ جانے لوگ ایسے سنگدل تھے یا پھر گنتی کرنے والے بھلکڑ بار بار کی کوشش کے باوجود بھی ووٹوں کی گنتی ہزار سے اوپر نا جاتی تھی۔ دوہزار آٹھ میں مشرف کے خلاف اتحاد بنے ہاتھوں میں ہاتھ ڈلے ۔ مگر پھر اوپر والے ہاتھ نیچے والے ہاتھوں پر ایسے بھاری ہوئے کہ نچلے ہاتھوں میں جھاڑنے کو “کھے ،” بھی نصیب نہ  ہوئی ۔ دوہزار گیارہ سے آگے کی کہانی جنگلی بیل کی طرح ہے ۔ راتوں رات پھیلی ۔ پھول میں رس نہیں ۔ بیج کہاں سے اڑ کر پہنچا ۔ یہ بیج خاکی بھونڈ اڑا کر یہاں لائے ہیں ۔اس کے کانٹوں میں زہر ہے ۔جنگل کو اگ کی طرح کھا جائے گی۔ ۔غرض جتنے سائنس دان اتنی ہی تھیوریاں ۔سننے کو ملتی ہیں
مجھے کسی کی تھیوری کو رد نہیں کرنا ۔ مجھے بس اتنا کہنا ہے کہ خان نے کرکٹ کھیلی اور فنشنگ لائن تک پہنچ کر تھر کانپنے والوں کے دل سے ہار کا خوف نکال باہر پھینکا ۔ ہار کا خوف گیا تو جیت کے ہار پہننے کا فن آگیا ۔ اس خود سر اور خود پسند کپتان نے جب کرکٹ چھوڑی تو ملک کو کرکٹرز کی بہترین لاٹ تیار کر کے دی۔ آج بائیس سال کے طویل سفر کے بعد کپتان سے یہ وزیر اعظم بن گیا اور میں امیدوں کی گٹھری سر پر اٹھائے کپتان وزیراعظم کے لئے دعا گو ہوں ۔

Facebook Comments

حسیب حیات
ایک پرائیویٹ بنک میں ملازم ہوں اسلام آباد میں رہائش رکھے ہوئے ہوں اور قلم اُٹھانے پر شوق کھینچ لاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”میرا ہیرو عمران خان۔۔۔۔۔حسیب حیات

  1. بہت عمدہ ، میں بھی کبھی خان کا پرستار نہیں تھا اس کا لہجہ گفتگو اکڑ سب
    ناپسند تھیں ، پھر طویل جلاوطنی کے بعد کراچی پہنچا مشرف کا دور تھا ۲۰۵
    کراچی کی سڑکوں سے لگے فٹ پا تھوں کی دیواریں اس کے لیے مغلظات
    سے سیاہ تھیں ، شرمندگی ہوئی ایسا سلوک تو اس شہر نے کسی کے ساتھ نہیں کیا تھا دُکھ محسوس کیا خان کا ، لیکن وہ بے پرواہ مگن تھا ۔ اس کے ذات پہ جتنا کیچڑ اُچھا لا جاتا وہ اُتنا پاکیزہ باوقار ہوجاتا دل اس کے اخلاص اور
    نیک نیتی کا قائل ہوجاتا ہے ۔ یہ ملامتی فرقے سے ہے یہی ملامت اس کی راہیں روشن کررہی ہے

Leave a Reply