مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا۔۔عارف انیس

پورے قد سے جو کھڑا ہوں تو یہ تیرا ہے کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا!

آپ سب کو عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آل وسلم بہت مبارک۔
فداک امی و ابی – میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان !

برطانیہ میں امریکی سفیر لوئیس سوسمین کے چہرے پر سفارتی سنجیدگی کی دبیز تہیں پڑی ہوئی تھیں۔ میں ریجنٹ پارک کے ساتھ واقع ان کی پُرشکوہ رہائش گاہ پر موجود تھا، جو لندن کی مرکزی ریجنٹ پارک والی مسجد کے قرب وجوار میں واقع تھی۔ رومن ستونوں پر اُونچی اُٹھی ہوئی عمارت کے لان میں برطانیہ کے سرکردہ مسلمان رہنماؤں کا ہجوم تھا۔ بین الاقوامی طور پر معروف بے شمار شناسا چہرے نظر آرہے تھے۔ وہیں ترکی، انڈونیشیا اور افغانستان کے سفراء سے بھی ملاقات ہوئی۔ قدرے دانشورانہ خدوخال والے افغانی سفیر داؤد یار تعارف کے شروع میں ہی بولے ”یار تم پاکستانی اپنی فوج کو کیوں نہیں سمجھاتے کہ افغانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دے؟“ میں چپ رہا۔ شاید وہ خود بھی اپنی بات کا جواب جانتے تھے کہ اب ہم کمبل کو چھوڑتے ہیں اور کمبل ہمیں نہیں چھوڑتا۔ ہم سب وہاں امریکی سفیر کی دعوت پر عیدملن تقریب کے لیے پہنچے ہوئے تھے۔
”میرے اور میری اہلیہ کے لیے اعزاز کی بات ہے کہ ہم تیسری سالانہ عیدملن تقریب میں آپ لوگوں کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں، جو شاید ہماری طرف سے دی گئی آخری دعوت ہو“، لوئیس سوسمین نے میزبانی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا۔
”تاہم میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ امریکی حکومت اسلام کو ایک عظیم مذہب کے طور پر تسلیم کرتی ہے اور اسلامی عقائد کا مکمل احترام کرتی ہے۔ مسلمان اور اسلام اب امریکی معاشرے میں بھی ٹھوس مقام کے حامل ہیں“۔
”لگتا ہے سوسمین جی دل چھوڑ بیٹھے ہیں کہ ڈیموکریٹس نے اگلا الیکشن نہیں جیتنا، تبھی یہاں سے جانے کی باتیں کر رہے ہیں“۔ میرے ساتھ کھڑے ہوئے بی بی سی کے ایک معروف اور باخبر صحافی نے میرا ہاتھ دبایا۔۔

ایک دلچسپ امر یہ ہے کہ جیسے جیسے مغرب اور امریکہ میں مسلمانوں کی تعداد اور معاشرے میں ان کا اثر ورسوخ بڑھتا جا رہا ہے، اور وائٹ ہاؤس اور بکنگھم پیلیس میں افطار کرایا جارہا ہے، وہاں ”دُنیا کو چلانے والا“ ایک مخصوص حلقہ 1990ء کی دہائی سے اس بارے میں سینہ کوبی کرنے پر لگا ہوا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق پچھلے دس سال میں اسلام کی یلغار اور یورپ پر مسلمانوں کے قبضہ کر لینے کے ”ڈراوے“ پر ایک ہزار سے زیادہ کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ زیادہ تر کتابوں میں قاری کے دل کو دہلانے کے لیے مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی، تارکین وطن کی آمد، انتہاپسندی، شرعی عدالتوں، مسلمانوں کی مقامی ثقافت سے لاتعلقی، حجاب، جبری شادیوں، آنرکلنگ اور اس طرح کے متنازعہ معاملات کو زیربحث لاتے ہوئے ”دائیں بازو“ سے وابستہ یورپینز کے جذبات کو اُبھارا گیا ہے کہ وہ اسلام کے خلاف ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں۔ یہ طریقہ فرانس، ڈنمارک، ہالینڈ، یونان اور ناروے میں کامیابی کے ساتھ استعمال کیا جا چکا ہے۔ ناروے میں تو ”ہربوک“ جیسے انتہاپسندوں نے درجنوں ہم وطنوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا تاکہ ”اسلام“ کے خطرے کی طرف توجہ مبذول کرائی جاسکے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ”اسلاموفوبیا“ سرعت کے ساتھ پھیل رہا ہے اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان مناقشت کو فروغ دینے کے لیے سینکڑوں ادارے سرنگ لگائے ہوئے ہیں اور تو اور میں نے کنزرویٹو پارٹی کی سابق چیئرپرسن سعیدہ وارثی کو خود کہتے سُنا کہ ”صرف عام افراد ہی نہیں بلکہ بہت پڑھے لکھے اور مؤثر افراد بھی یہاں اسلاموفوبیا کی لپیٹ میں آچکے ہیں“۔

یہاں برنارڈ لیوس نامی محقق کی 1990ء میں مسلمانوں میں پائے جانے والے اشتعال کی جڑوں پر کی گئی تحقیق کا ذکر برمحل ہو گا۔ برنارڈ نے صدیوں پُرانی تاریخ پھرولنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ موجودہ دور کا پڑھا لکھا مسلمان ایک نفسیاتی بوجھ کا شکار ہے، جس کے ہتھے بیت المقدس کے قبضے کے لیے لڑی جانے والی مقدس جنگوں، سپین سے اسلام کے خاتمے، علمی اور تحقیقی میدان میں مغرب کے ہاتھوں شکست، مغربی سامراجی طاقتوں کے غلبے، خلافت کے زوال، بیسویں صدی میں ترکی اور دیگر اسلامی مملکتوں کے پارہ پارہ ہونے کا غم ہے اور ساتھ ہی نئی پود مستقبل میں مسلمان عورتوں کے کردار اور ٹیکنالوجی کی یلغار کا اندیشہ بھی درپیش ہے۔ چنانچہ اس اندر سے بپھرے ہوئے مسلمان کے جذبات کو آگ دکھانا کوئی زیادہ پیچیدہ بات نہیں ہے تاہم سینکڑوں قومیتوں، فرقوں اور مسالک میں بٹے ہوئے مسلمان ایک امر پر پوری طرح ایمان رکھتے ہیں اور وہ یہ کہ ”توہین رسالت“ برداشت نہیں کی جائے گی۔ یہ ”ریڈلائن“ ہے۔ اس سے آگے جانے والا بھسم ہو جائے گا۔ اگر ”دُنیا کو چلانے والے“ محمدؐ کی ذات گرامی کو ”ٹیسٹ کیس“ بنانا چاہتے ہیں توانہیں معلوم ہونا چاہیے کہ چاہے اس کا انجام تیسری عالمی جنگ ہو یا قیامت برپا ہو جائے، محمدؐ کی ذات میں گستاخی برداشت نہیں کی جائے گی۔ اس معاملے میں گناہگار، نیکوکار، شدت پسند، میانہ رو سب ایک جیسے ہیں۔

یہاں شورش کاشمیری کی اختر شیرانی کے حوالے سے ایک تحریر یاد آگئی :”اختر شیرانی ایک بلانوش شرابی، محبت کا سخنور اور رُومان کا تاجور تھا۔ لاہور کے ایک مشہور ہوٹل میں چند کمیونسٹ نوجوانوں نے جو بَلا کے ذہین تھے ،اختر شیرانی سے مختلف موضوعات پر بحث چھیڑ دی۔ وہ شراب کی دو بوتلیں اپنے حلق میں انڈیل کر ہوش و حواس کھو چکے تھے ،تمام بدن پر رعشہ طاری تھا۔ حتیٰ کہ دمِ گفتار الفاظ بھی ٹوٹ ٹوٹ کر زباں سے نکل رہے تھے۔اُدھر اختر شیرانی کی انا کا شروع ہی سے یہ عالم تھا کہ اپنے سوا کسی کو مانتے نہیں تھے ۔ شاعر وہ شاذ ہی کسی کو مانتے تھے۔ ہمعصر شعرا میں جو واقعی شاعر تھے، انہیں بھی اپنے سے کمتر خیال کرتے تھے۔
کمیونسٹ نوجوانوں نے فیض کے بارے میں سوال کیا، طرح دے گئے ۔
جوش کے متعلق پوچھا، کہا : وہ ناظم ہے ۔
سردار جعفری کا نام لیا تو مسکرا دیئے ۔
فراق کا ذکر چھیڑا تو ہوں ہاں کر کے چپ ہو گئے ۔
ساحر لدھیانوی کی بات کی، سامنے بیٹھا تھا، فرمایا : مشق کرنے دو۔
ظہیر کاشمیری کے بارے میں کہا : نام سنا ہے ۔
احمد ندیم قاسمی؟ فرمایا : میرا شاگرد ہے ۔
ارسطو اور سقراط کے بارے میں سوال کیا گیا،موڈ میں تھے۔ فرمایا: اجی! یہ پوچھو کہ ہم کون ہیں؟
یہ ارسطو ،افلاطون یا سقراط آج ہوتے تو ہمارے حلقے میں بیٹھتے ۔ ہمیں ان سے کیا غرض کہ ہم ان کے بارے میں رائے دیتے پھریں۔آنکھیں مستی میں سرخ ہو رہی تھیں، نشے میں چور تھے ، زباں پر قابو نہیں تھا ۔ لڑکھڑاتی آواز سے شہ پا کر ایک ظالم کمیونسٹ نے چبھتا ہوا سوال کیا :
آپ کا حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں کیا خیال ہے ؟
اﷲ اﷲ! نشے میں چُور ،ایک شرابی۔ جیسے کوئی برق تڑپی ہو، بلور کا گلاس اٹھایا اور اس کے سر پر دے مارا ۔
اور کہا : بدبخت اک عاصی سے سوال کرتا ہے ۔
اک رُوسیاہ سے پوچھتا ہے ۔
اک فاسق سے کیا کہلوانا چاہتا ہے ؟
غصے سے تمام بدن کانپ رہا تھا،اچانک رونا شروع کر دیا۔ حتیٰ کہ ہچکیاں بندھ گئیں۔
کہا : ایسی حالت میں تم نے یہ نام کیوں لیا ؟
تمہیں جرأت کیسے ہوئی؟
گستاخ ! بے ادب۔
باخدا دیوانہ باش بامحمدﷺہوشیار
اِس شریر سوال پہ توبہ کرو ۔میں تمہارے خبث باطن کو سمجھتا ہوں۔خود قہر و غضب کی تصویر ہو گئے ۔ اس نوجوان کا حال یہ تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ اس نے بات کو موڑنا چاہا، مگر اختر کہاں سنتے تھے ۔ اسے محفل سے نکال دیا۔ پھر خود بھی اٹھ کر چل دیئے ۔
ساری رات روتے رہے ۔کہتے تھے، یہ لوگ اتنے بے باک ہو گئے ہیں کہ ہمارا آخری سہارا بھی ہم سے چھین لینا چاہتے ہیں،
میں گنہگار ضرور ہوں لیکن یہ مجھے کافر بنا دینا چاہتے ہیں۔ ”

مجھے چند سال قبل نومسلم دوست اور عمران خان کی سابقہ گرل فرینڈ کرسٹیان بیکر کی کتاب ”فرام ایم ٹی وی ٹو مکہ“ کی تقریب رونمائی میں ملنے والی ”ڈینیلا“ (Daniella) کی بات یاد آئی، جو کرسٹیان کی برٹش سہیلی تھی اور پچھلے دس سال سے اسلام کا مطالعہ کر رہی تھی۔ اس نے موجودہ دور کے مسلمانوں میں پائی جانے والی قباحتوں اور منافقتوں کا تفصیلی ذکر کیا لیکن اس امر کا اعتراف بھی کہ وہ دل سے مسلمان ہو چکی ہے اور اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں کیے جانے والا کوئی بھی پروپیگنڈا اسے روشنی سے دور نہیں رکھ سکتا۔ پھر بولتے بولتے وہ اچانک رُکی اور اس نے کہا ”میں مسلمانوں کے بارے میں سب کچھ کہہ سکتی ہوں اور سُن سکتی ہوں لیکن محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم …… کے بارے میں نہیں۔ آئی لوّ محمدﷺ…… آئی جسٹ لو ہم ۔۔ وہ دُنیا کے سب سے شاندار اور سب سے شفیق انسان ہیں ۔۔ آئی جسٹ لوّ ہِم“۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ڈینیلا بولتی جا رہی تھی، درود پڑھتی جا رہی تھی اور اس کی آواز سسکیوں میں ڈوبتی جا رہی تھی اور ٹشو پیپر کے مسلسل استعمال کے باوجود اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ کر کے گرتے جا رہے تھے۔ صرف میں ہی نہیں، کیفے میں موجود دیگر کئی لوگ بھی حیرت سے اس کی طرف دیکھتے جا رہے تھے۔ پھر میں نے سوچا، کہنے والے شاید ٹھیک کہتے ہیں، دل سے کلمہ پڑھتے ہی، یا اس کی نیت کرتے ہی مسلمان ”میوٹینٹ“ (mutant) ہو جاتا ہے اور محمدؐ کا عشق اس کی پوری زندگی کی محبتوں پر حاوی ہو جاتا ہے …… فداک امی وابی یارسول اللہﷺ!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply