بیٹیاں تو سانجھی ہوتی ہیں

پاکستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ مفادات ہمیشہ مقدم رہے ہیں اور مستقبل قریب و بعید میں اس روش میں کسی بھی قسم کی کوئی تبدیلی آنے کے کوئی آثار نہیں ہیں اور جس طرح عزتیں اچھالی جاتی رہی ہیں ، اُسی طرح اچھالی جا رہی ہیں، اُچھالی جاتی رہیں گی۔ ہمیشہ اپنی عزت کو عزت اور دوسرے کی عزت کو بکاؤ مال سمجھا جاتا رہا ہے اور سمجھا جاتا رہے گا۔ اور حد تو یہ ہے کہ آج آپ کسی کے ساتھ مل کر کسی کی عزت کو بیچ چوراہے نیلام کر رہے ہیں تو کل اُسی کی مخالف پارٹی سے مل کر اسی کی عزت کے بخیے ادھیڑنا فرائض میں شامل ہو جاتا ہے جسے کبھی ماتھے تک ہاتھ لے جاکر سلام کیا جانا سب سے اہم کام سمجھا جاتا تھا۔ قصہ مختصر کہ اپنے مفاد کے لیے دوسروں کی عزتوں سے کھیلنا پاکستان کی سیاست میں بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ اور شومئی قسمت کہ کل کو وہی حالات اگر اپنے ساتھ پیش آجائیں تو لہجے بھی بھرا جاتے ہیں، تقریروں میں تلخی بھی آ جاتی ہے، آنکھوں کے پپوٹے بھی نم ہونا شروع ہو جاتے ہیں، اوربہنوں بیٹیوں کی عزتیں بھی مقدم لگنے لگتی ہیں۔

محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیشی کو کچھ اس انداز میں پیش کیا گیا کہ جیسے کوئی انہونی ہو گئی ہو یا پھر جمہوریت کو کچھ ایسا خطرہ پیش آ گیا ہو کہ بساط لپٹنے کا ڈر پیدا ہو جائے۔ جس پیشی میں خود کو عوام کی نظروں میں ہیرو ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھااس کو کچھ اس انداز سے پیش کیا گیا کہ اپنا ہی مقدمہ کمزور کر لیا ۔ 73ء میں آنکھ کھولنے والی محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ تب شعور کی منازل تک بھی نہیں پہنچی تھیں جب محترمہ بینظیر بھٹو میجر اور کیپٹن رینک کے افسران کے سامنے پیش ہو رہی تھیں اور مرد حضرات ان کے ارد گرد موجود ہوتے تھے۔ ایک ایسے باپ کی بیٹی جس کی سلامتی کونسل کی تقریر کو بطور نصاب سیاست کے طالبعلموں کو سنایا جاتا ہے۔ ایک ایسے باپ کی بیٹی جو تھوڑا اپنے لہجے اور انا پہ قابو پا لیتے تو شاید اسلامی دنیا کے ایک مضبوط بلاک کی سربراہی کر رہے ہوتے۔ مریم نواز شریف صاحبہ ہرگز اپنی آواز کو اس قدر سخت نہ کرتیں اگر وہ خون میں لتھڑی ہوئی بیگم نصرت بھٹو (مرحومہ) کو دیکھ لیتیں کہ جن کو اس انداز میں پیٹا گیا تھا کہ سر سے خون رواں اور دوپٹے تک کا ہوش نہیں رہنے دیا گیا۔ نہ جانے یہ جمہوریت کی بکری تب کون سی گھاس چرنے گئی ہوئی تھی جب شہلا رضا صاحبہ کو مرد پولیس حضرات وین میں بٹھائے لے جا رہے تھے۔

اور آج تو بی بی مریم صاحبہ کو اسی تحقیقاتی ٹیم کے کہنے پر خاتون پولیس افسر بھی مہیا کر دی جاتی ہے جو انہیں گاڑی سے جوڈیشل اکیڈمی تک راہنمائی بھی کرتی ہے اور مسکراتی بھی ہے۔ اور آج تو وہ دور بھی نہیں کہ اللہ نہ کرے کسی بی بی کو شرمیلا فاروقی کی طرح سلاخوں کے پیچھے اکڑوں بیٹھنا پڑے اور چہرے پہ ایسے ہوائیاں اڑ رہی ہوں کہ چہرے کی جانب دیکھا بھی نہ جا سکے۔ وہ دور بھی اب تو بہت پرانا ہو گیا ہے جب اپنے شوہر سے ملاقات کے لیے بھی جیل کے باہر اپنے بچوں کی انگلیاں پکڑے انتظار کرنا پڑتا تھا۔ آج تو ماشاء اللہ سے دو بھائیوں کاساتھ ہے اور اللہ کر ے بھائیوں کا ساتھ سلامت رہے ۔ کیوں کہ بھائی کو اگر پردیس میں زہر دے کر مار دیا جائے یا پھر کسی مصروف شاہراہ پر گہری سازش کے تحت گولیوں سے بھون دیا جائے تو کون اس دکھ کو سمجھ سکتا ہے، کیوں کہ دکھ کا بتانے والی تو خود منوں مٹی تلے جا سوئی ہے۔ہماری تو تہہ دل سے دعا ہے مریم نواز شریف صاحبہ کہ کسی بیٹی پہ ایسا وقت نہ آئے کہ وہ جیل سے ہسپتال میں پہنچے اور آپریشن کے بعد دوبارہ جیل میں پہنچ جائے۔ خدا ایسا وقت کسی پہ نہ لائے۔ بیٹی بھی وہ جس کے باپ نے دنیا میں اپنا آپ منوایا ہو اور ملک چھوڑنے سے انکار کر دیا ہو اور پھانسی پہ جھول گیا ہو۔

بیٹیاں یقیناًسب کی سانجھی ہوتی ہیں، سیدہ شہلا رضا ہوں یا پھر شرمیلا فاروقی، بی بی بینظیر ہوں یا پھر بی بی مریم ،بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔عاصمہ جہانگیر تو ویسے بھی وکیل ہیں اور اُن پہ لعن طعن تو یقیناًنظر میں آتی ہی نہیں ہو گی؟ جہاں محترمہ فاطمہ جناح جیسی ہستی ریشہ دوانیوں سے محفوظ نہیں رہ پائیں وہاں نہ جانے محترمہ مریم نواز کس بنیاد پہ اپنی پیشی کو سازش قراردینا شروع ہو گئی ہیں۔آپ میں ہم مستقبل کی وزیر اعظم دیکھ رہے ہیں۔ مگر کیا آپ ایک پیشی پہ ہی اتنی کمزور پڑ جائیں گی کہ اس پیشی کو سازش سے تعبیر کر دیں گی ؟ تو پھر آپ کیسے ان عورتوں میں اپنا نام لکھوا پائیں گی جن کی سیاسی جہدوجہد کی مثالیں دنیا میں دی جاتی ہیں ۔ آپ کو تو پکی پکائی سیاسی کھیر مل رہی ہے اور پھر بھی آپ اس پیشی سے گھبرا گئی ہیں۔ اس پیشی کو اپنی طاقت بنائیے اور ایسی راہنما بننے کا سفر شروع کیجیے جو کڑے وقت میں بھی اپنے ارادے کی مضبوطی زائل نہ ہونے دے ۔ یہ کیا کہ آپ سے ہم امیدیں لگائے بیٹھے ہیں اور آپ نے ایک پیشی کے بعد ہی اتنا سخت لہجہ اپنا لیا کہ الاماں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بیٹیوں کے دکھ اور سکھ بھی سانجھے ہی ہوتے ہیں۔ تو عرض بس اتنی سی ہے ہر جمہوری انسان سے کہ بیٹیاں یقیناًعدالتوں میں پیش ہوتی ہوئی اچھی نہیں لگتیں۔ نہ ہی بیٹیوں کی پیشی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ایک اچھا فعل ہے۔ مگر نہ جانے یہ کون سی جمہوریت ہے جو صرف اپنی ہی بیٹیوں کا سوچنے کی توفیق دیتی ہے۔بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں چاہے وہ میاں نواز شریف صاحب کی دختر نیک اختر مریم نواز شریف صاحبہ ہوں یا بھٹو کی بیٹی، چاہے وہ سیدہ شہلا رضا ہوں یا کسی وقت میں اپنی ماں کے ساتھ سلاخوں کے پیچھے بیٹھی شرمیلا فاروقی صاحبہ، بیٹیوں کے دکھ تو سانجھے ہوتے ہیں۔ بس تمام بیٹیوں کو وہی رتبہ دیجیے جو آپ اپنی بیٹی کو دیتے ہیں۔ تمام بیٹیوں کا دکھ اتنا ہی سمجھیے جتنا دکھ آپ اپنی بیٹی کا سمجھتے ہیں۔ بیٹیاں سانجھی سمجھی جائیں گی تو نہ وہ عدالتوں میں گھسیٹی جائیں گی، نہ اُن کے سروں سے بہنے والے خون سے سیاسی محل تعمیر ہوں گے۔

Facebook Comments

سید شاہد عباس
مکتب صحافت کی پہلی سیڑھی پہ قدم رکھنے کی کوشش ہے۔ "الف" کو پڑھ پایا نہیں" ی" پہ نظر ہے۔ www.facebook.com/100lafz www.twitter.com/ssakmashadi

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply