معاشرتی المیہ

ہمارا معاشرتی رویہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے عجیب مفلوج قسم کی مفلوک الحال ذہنیت ہے سوچنا، سمجھنا، غور و فکر کرنا جرم و گناہِ کبیرہ سمجھتے ہیں ۔ہم وہ اذیت پسند ہیں جو اپنا خون پینے والے طفیلیوں یعنی سامراجی قوتوں اور معاشرتی استحصالی طبقے کو بڑی تواضع کے ساتھ خوشی خوشی نہ صرف پالتے ہیں بلکہ اس پہ اتراتے بھی ہیں اور اسے معاشرے میں نہ صرف امتیازی وصف کے طور پہ بیان کرتے ہیں بلکہ امتیازی وصف شمار ہوتا ہے۔
کرپشن، دھوکہ دہی، بے ایمانی، رشوت و دیگر برائیاں معاشروں میں اس قدر سرایت کر چکی ہیں کہ اب ہمیں یہ معاشرتی برائیاں بالکل برائیاں محسوس ہی نہیں ہوتیں بلکہ یہ استحصال ہم استحصالی طبقے کا حق سمجھتے ہیں اور اس رویے نے ہماری معاشرتی، اخلاقی و فکری اقدار کو اس بری طرح سے پامال کیا ہے کہ جب معاشرتی بگاڑ کی بات کی جاتی ہے تو تمام معاشرتی بگاڑ کو اپنے لئے نہ صرف ایک بہترین دلیل کے طور پر جواز بنایا جاتا ہے بلکہ انتہائی دیدہ دلیری سے اعلیٰ اخلاقی اقدار کو پتھر کے دور کی باقیات تصور کیا جاتا ہے۔
کسی بھی قوم کی قسمت اس وقت تک نہیں بدل سکتی جب تک کہ اس قوم میں مروجہ تعلیمی نظام اعلیٰ اخلاقی اقدار کا آئینہ دار نہ ہو اور اس کے ساتھ جو انتہائی ضروری امر ہے کہ وہ تعلیم معاشرے میں لفظوں کی میراث کی بجائے لوگوں کی شخصیت کا حصہ ہو ۔کیونکہ اگر تعلیم شخصیت کا حصہ نہیں ہو گی تو دنیا کے بہترین سے بہترین تعلیمی نصاب سے بھی معاشرتی ابتری میں کمی نہیں آ سکتی اس کی زندہ مثال مسلمان معاشرے ہیں، جہاں ہر قسم کے وسائل و اعلیٰ تعلیمی نصاب کے ہوتے ہوئے بھی مسائل ختم نہیں ہو رہے۔ کہیں غربت ہے تو کہیں فکری غلامانہ ذہنیت ۔کہیں مار دھاڑ ہے تو کہیں سامراجی قوتوں کی جی حضوری ہے۔ الغرض ہمارے پاس وہ سب کچھ ہے جو کسی بھی قوم کو دنیا میں ممتاز کر سکتا ہے مگر غیر معیاری تعلیمی نظام ،غیر سنجیدہ معاشرتی رویوں نے ہمیں تمام عالم انسانیت میں انتہائی پستیوں میں دھکیل دیا ہے۔
بحثیت مجموعی اگر ہم اپنا وقار بحال کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں انتہائی سنجیدگی کے ساتھ ملکر تعلیم و اعلیٰ اخلاقی اقدار کو اپنی شخصیت کا حصہ بنانا ہو گا ۔انا پرستی و خودپسندی کے خول سے نکل کے حقیقی معنوں میں اپنی توانائیاں مقصد کے حصول کے لئے صرف کرنی ہونگی اپنی سوچ و فکر کو آزاد کرنا ہو گا۔ غلامانہ ذہنیت و سامراجی طاقتوں کی جی حضوری کو خیر آباد کہنا ہو گا۔ تب کہیں ہم حصول منزل کی راہ پہ آ سکتے ہیں ۔

Facebook Comments

سانول عباسی
تعارف بس اتنا ہی کہ اک عام انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply