نہیں گزرا ہے جو اب تک
وہ لمحہ تو گزرنا ہے
اس شعر سے آغاز کا اس مضمون سے مکمل انسلاک ہے، اور ایک ذرا بھی تعلق نہیں۔دوسری وجہ یہ کہ میں اپنے قارئین سے محض اتنا چاہتا ہوں کہ انہیں شعر سے تعارف ہو۔
کئی دنوں سے ، طبیعت زندگی کی طرف مائل تھی کہ تجربہ بھی کر کے دیکھا جائے، جس کے لیے چند ایک اقدام بھی کیے ، ناکامی یا کامیابی ، اس مقصد پر استقلال اور زندگی کرنے کی تمنا ، کب تک ہے نہیں معلوم ۔۔
میں نے درج بالا پیرے میں چند ایک الفاظ کا استعمال کیا ہے جو کہ مختلف لوگوں کے ہاں اور ان کی زبانوں میں اپنے طور پہ استعمال ہوں گے۔
وہ الفاظ ہیں
طبیعت، زندگی ، کامیابی ۔۔۔ ، ناکامی ، تمنا ، کب تک ، نہیں معلوم ۔
یہی الفاظ میرے بنیادی سوالات و دلچسپی کے موضوعات ہیں ۔
چونکہ میں زندگی کے جس تصور سے آشنا ہوں ، وہ یوں سا ہے کہ میرا ایک جسم ہے ، جو حرکت کرتا ہے ، اس میں خون ہے ، یا جملہ انسانی اعمال ، یہ سب میرے وجود کے ثبوت و دلائل ہیں۔ تو یہ کیا زندگی ہے ،؟ یا میری طبعی عمر ہے یا جو بھی نام دیجیے۔ زندگی کے متعلق جو سنا گیا ,کہا, گیا ,لکھا, پڑھا گیا۔ اگر وجود ہی زندگی کا لازما ہے ، جب تک میرا وجود ہے میں زندہ ہوں جب وجود نہ رہا تو میں زندہ نہیں ہوں۔ سب سے پہلا خیال یہی آتا ہے، اس کو ریشنل اپروچ سمجھا جائے گا۔ زندگی وجود سے مشروط ہے، لیکن ذرا ٹھہریے اور غور کیجیے تو آپ کو یہ سب سے مضحکہ خیز آپشن لگے گا۔
یہاں سے کچھ ثابت ہوتا ہے ، وہ یہ کہ زندگی بہرحال غور و فکر سے سمجھ آنے والی شئے ہے۔
٭الف
زندگی وجود کی مرہون منت نہیں ہے بلکہ وجود زندگی کے مرہون منت ہے، تاہم ، یہ بھی آپشنز ہیں کہ زندگی کا اپنا “وجود” بھی ہو۔
انسانی عقل بہرحال یہاں تک بات تسلیم کر چکی ہے کہ وجود جسم کے بغیر بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن انسانی عقل اس نتیجے پہ نہیں پہنچی کہ وجود بغیر کسی خارجی تحریک یا محرک کے بھی ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے یہ سمجھ آجائے اور بگ بینگ نامی کسی شے کا وناش ہو سکے۔
ہندومت کی ایک بات آپ احباب سے شیئر کرتا چلوں کہ نہ صرف ہندومت بلکہ پراچین تمام مذاہب میں یہ تصور تھا کہ انسان کا عروج یا معراج نروانا میں ہے۔ نروانا کا مطلب یہ ہے کہ وہ وجود جس تک حواس و عقل کی رسائی ممکن نہیں۔ دوجا یہ مطلب دکھ ، رنج ، تکلیف سے ہمیشہ کی نجات۔
اب ان کو اکھٹا پڑھ لیجیے۔
نروان کا مطلب یہ ہوا کہ دکھ تکلیف رنج سے ہمیشہ کیلئےنجات یعنی وہ جس تک عوام کی رسائی ممکن نہیں ہے۔
انسانی عقل ، محدودیت کی قائل ہے ۔ اس کو تمام چیزوں کو محدود کرکے دیکھنے کی عادت ہے لہذا کوئی لامتناہی سلسلے اس میں نہیں سماتے۔ غیر مطمئن رہنا عقل کی مجبوری ہے ، لہذا سوال اٹھتے ہیں۔
یہاں مجھے لگتا ہے کہ کہیں صناع اوّل و آخر بندوں کو پیار سے دیکھتا ہوگا۔
مذاہب نے ایک ایسا تصور زندگی پیش کیا ہے کہ مجھے عقل کی ہار کو تسلیم کرنے میں خوشی ہے۔
ہندومت کو جتنا پڑھا ۔۔
“عظیم تر روح رقص کرتی ہے!
شیو سے بڑا کوئی ہوگی نہیں۔
یہ رقص ہندوستانی جمالیات کا سب سے بڑا سر چشمہ ہے۔ اس کا ہر آہنگ کائناتی اور آفاقی ہے۔ عظیم تر روح کے رقص سے ہی کائنات کی تمام اداؤں اور آوازوں کا جادو پھیلتا ہے۔ عظیم تر روح تمام مترنم آوازوں کا سرچشمہ ہے۔”
ہر مذہب اپنا ہی ایک بہتر طریقہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہے بہتر راستہ دکھانے کی کوشش کرتا ہے کہ زندگی کے جتنے بھی راز ہیں جتنی بھی جمالیات اورجتنی جہات ہیں ان کو سمجھنے کے لئے صرف اسی کا راستہ درست ہے۔
گوتم بدھ نے دنیا کے اٹل راز نروان پانے سے تعبیر کیا ہے۔
انجیل میں کلام کو خدا کہا یا ازلی راز کہا ہے۔
قرآن نے اقراء سے آغاز کر کے اپنے رستے کا اعلان کیا۔
سائنس و فلسفہ یا آرٹ نے اپنے اپنے کیل کانٹے مستعد رکھے، ان سب سوالوں کو اگر یکجا کیا جائے ، ایک لفظ میں اس کو سمویا جائے تو لفظ بنتا ہے “حقیقت” کیا ہے۔
اس کے لیے سب کے پاس ایک لفظ ہے کہ اس کا خالق جانا جائے ۔۔ خداکون ہے؟
یہ سوال انسانی ذہن سے تخلیق ہوا سب سے خوبصورت سوال ہے۔ اور یہ انسانی عظمت کی دلیل ہے کہ انسان نے اس سوال کے لیے ممکنات سے بھی آگے کا سفر کیا ، حتٰی کہ خدا کو اپنا تعارف دینا پڑا۔
حقیقت آپ کی منتظر ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں