ایدھی بننا آسان نہیں

بہت سال پیچھے کی یاد ہے،ابا نے گھر پر اخبار،میگزین،ڈائجسٹ،لگوا رکھے تھے،بچوں کے رسالے بھی تھے دو،(نام ابھی یاد نہیں آرہا)۔۔ہمہ وقت گھر میں کوئی نہ کوئی ہاتھ میں میگزین یا رسالہ پکڑے نظر آتا،یہاں تک کہ کوئی مہمان بھی آتا تو ریک سے نئے یا پرانے شماروں میں سے کسی میگزین،ڈائجسٹ کا انتخاب کرتا اور کونے پررکھے تخت پر نیم دراز ہوکر مطالعے میں غرق ہو جاتا،استغراق ایسا کہ کھانا لگنے پر بھی مسلسل آوزیں لگانا پڑتیں۔۔۔خیر ہم بھی پڑھتے اور کبھی تصویریں دیکھنے پر ہی اکتفا ہوتا۔۔۔تب ایک شخص کی تصویر یں اخبار میں تقریباً ہر دوسرے روز لگی ہوتیں۔۔اس کی دریا د لی کے چرچے چہار سُو تھے،اخبار اور ابا بتاتے اس نے مختلف شہروں میں چھوٹے چھوٹے گھر بنا رکھے ہیں،جہاں بہت سارے بچے،بوڑھے،خواتین سب اکٹھے رہتے ہیں،یہ شخص ان کا خیال رکھتا ہے،کھانے پینے کا،تعلیم کا خرچ اٹھاتا ہے،ہنر سکھاتا ہے،شادیاں کرواتا ہے، جن بچوں کے اماں ابا نہیں ہیں ان کو اماں ابا جیسا پیار دیتا ہے،اور جن اماں ابا کے بچے نہیں ہیں ان کا بیٹا بن جاتا ہے۔۔۔

میں نے سوچا میں بھی “ایسی” بنو ں گی۔۔لیکن بہت سال گزرے میں ” ایسی” ہی رہی۔۔۔ہاں یہ ضرور ہوا کہ ایدھی بننے کی خواہش زور پکڑتی گئی۔زندگی کے درخت پر ماہ و سال کی دھوپ میں ابھی اتنی تپش نہ آئی تھی کہ سوچ کے پتوّں کو جھلساتی، سو نئی کونپلیں کِھلتی رہیں۔ سوچ کے در وا ء ہوتے رہے۔۔میں ایدھی تو نہ بن سکی،لیکن حتی المقدور کوشش کرتی کہ کہیں بھی اکیلی نہ جاؤں،پانچویں کلاس کے بعدسکول بدلا تو ایدھی بھی میرے ساتھ ہی سکول گیا۔۔

پہلے ہی روز بھوک سے دھاڑیں مار مار کر روتی ہم مکتب کو اپنا کھانے کا ڈبہ پیش کردیااور مسکرا کرساتھ کھڑے ایدھی کو دیکھا۔۔لیکن وہ پہلے ہی مجھے دیکھ رہاتھا، اور چہرے پر مسکراہٹ ایسی کہ چھٹی تک خالی پیٹ کا احساس ہی مٹ گیا۔۔پھر اکثر ایسا ہوتا مجھے ملنے والی پاکٹ منی کسی نہ کسی کی مدد میں لگ جاتی،کسی کو جیومیٹری لے دی،کسی کو پینسل شارپنر،میں اپنا کھانا لے کر جاتی تھی سو پیسے یونہی کسی نہ کسی پر لگا دیتی۔۔ ابا کی ورکشاپ کے اوپر چوبارے پر ہمارا گھر تھا،شام کو کچھ دیر ورکشاپ پر کھیلنے چلے جاتے،کاؤنٹر پر سبز رنگ کی ایک ڈبی رکھی تھی جس میں گدا گروں کے لیے چونّیاں،اٹھنّیاں ہوتیں،کوئی گداگر آتا تو میں اپنی مرضی سے اسے جتنی چاہتی ریزگاری نکال کر دے دیتی،باؤ جی،بڑے ابو،ابا کوئی کچھ نہ کہتا۔۔۔

دسویں جماعت میں پاس ہونے پر ابا نے سونے کے ٹاپس بنوا کر دئیے ۔۔کالج گئی تو ایدھی یہاں بھی ساتھ ہی گیا۔۔۔دو ہفتے بھی نہ گزرے تھے کہ کشمیر ی مجاہد فنڈ اکٹھا کرنے کے لیے کالج آئے،میں نے سنا توبیگ کی تلاشی لینے پر دو سو روپے ہاتھ میں آگئے،لیکن یہ بہت کم تھے،سمجھ نہ آیا کہ کیا مجاہدوں کی نذر کیا جائے،بس ٹاپس کانوں سے اتارے اور رش میں پاؤں رکھ دیا۔۔۔دھکم پیل میں ایک ٹاپس ہاتھ سے کہیں گر گیا،مل نہ سکا لیکن میں نے ایک ٹاپس ہی ان کے حوالے کیا اور خوشی خوشی آکر کلاس میں بیٹھ گئی۔

یونیورسٹی میں بھی یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا۔۔ پہلی نوکری پر تنخواہ بیس ہزار مقرر ہوئی،میری خوشی کی انتہا نہ رہی،میں نے پہلے سے جاننے والے کچھ گھرو ں میں جہاں کفالت کے لیے کوئی مرد نہ تھا اور خواتین بوڑھی جبکہ بچے چھوٹے تھے راشن ڈلوانا شروع کردیا،کسی کو یونیفارم لے دیا،کسی کو دوائی،کسی کو ادھار کے نام پر حسبِ استطاعت کچھ تھما دیا۔۔۔اکثر لوگ یہ بات کرتے ہیں کہ ایسے تو دوسروں کو عادت پڑ جاتی ہے بیٹھ کر کھانے کی۔۔لیکن ایسا نہیں ہے،لوگ اتنے مجبور ہوتے ہیں کہ ان کے پاس ہاتھ پھیلانے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں ہوتا، ابا کی تربیت نے یہ بات سکھائی کہ جب کوئی آپ کے سامنے مدد کے لیئے ہاتھ پھیلائے تو اس کا چہرہ نہ دیکھو، اور اس وقت اسے نصیحت نہ کرنااور دل میں اللہ سے پناہ مانگنا کہ تم پر ایسا وقت نہ آئے۔۔

ایدھی بننے کی کوشش اور خواہش پہلے دن کی مانند دل کے نہاں خانوں میں موجود رہی۔۔ نوکری کے دوران میں نے چند جاننے والو کے ساتھ مل کر ایک چھوٹی سی فری ڈسپنسری بنانے کا سوچا، جو پیسے اکٹھے ہوئے تھے وہ ناکافی تھے۔۔کچھ لوگ اس کارِ خیر میں ساتھ دینے کو تیار ہوئے،لیکن جلدہی پتا چلا وہ پیسے کھانے والے تھے،لگانے والے نہیں۔۔اس روز بہت مایوسی ہوئی،دل ٹوٹاتو رات کو ایدھی کے سامنے بیٹھ کرخوب روئی۔۔وہ چپ چاپ دیکھتا رہا، یونہی کسی پل آنکھ لگ گئی، صبح بے حد بوجھل تھی۔۔لیکن حوصلے مزید توانا ہو چکے تھے۔

پھر یوں ہواکہ چند ناگزیر وجوہات کی بنا پر نوکری سے استعفٰی دینا پڑا۔۔ کچھ عرصہ تو جمع پونچی سے راشن ڈلوانے کا سلسلہ جاری رہا،پھر اکاؤنٹ میں پیسے ختم ہونے لگے۔میں نے ایدھی بننے کے شوق کا بوجھ کبھی ابا کے کندھوں پر ڈالنے کی کوشش نہیں کی،بعد میں ایک جگہ لکھنے کا سلسلہ بنا،وہاں سے مہینے بعد پیسے آتے،اس دوران میں کسی جاننے والے سے ادھار لے کر سامنے والے کی ضرورت پوری کردیتی اور بعد میں ادھار چکا دیتی۔۔ایدھی سے سنی باتیں راہ روشن رکھتیں کہ “اپنی بے جا خواہشات کے پیچھے دوڑنا چھوڑدو،یہ تمھاری روح کو بے چین رکھتی ہیں،اور تمھیں چوری پر اکساتی ہیں،شیطان تمھیں مادیت پر لگاتا ہے اور تمھاری روح کو سکون سے عاری کر دیتا ہے”۔

Advertisements
julia rana solicitors

چھوٹی عید آئی تو میں چاند رات کو بھائی کے ساتھ بچیوں کے لیے کھانے پینے کی اشیا لے کر گھر لوٹی ہی تھی کہ ایک بچی نے اپنے والد کے ساتھ دروازہ کھٹکھٹایا۔۔۔۔۔باجی کچھ پیسے چاہییں،ہم نے آج بھی کھانا نہیں کھایا،اماں نے کہا ہے کہ صبح کے لیئے اگر تھوڑے پیسے مل جائیں،چھوٹے بہن بھائی بھی بھوکے ہیں۔۔
چند ثانیے میں اس کے پاؤں میں پڑی ٹوٹی چپل پر نظر جمائے کھڑی رہی۔۔میرے پاس اس وقت کل پونجی دو ہزارروپے تھے۔۔۔ مجھے خاموش دیکھ کر بچی بولی۔۔باجی اگر پیسے نہیں ہیں تو میں جاؤں؟
میں نے اسے روکا، بچیوں کے لیے لائی اشیاء میں سے کچھ کھانے کی اشیا ایک لفافے میں رکھیں،پیسے اسے تھمائے اورسوچا” ایدھی بننا آسان نہیں” ۔۔۔کمرے میں آئی تو ایدھی الماری سے ٹیک لگائے بیٹھا مجھے دیکھ کر مسکرا رہا تھا!

Facebook Comments

اسما مغل
خیالوں کے سمندر سے چُن کر نکالے گئے یہ کچھ الفاظ ہی میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply