مذہبی و لبرل مولویوں میں پھنسی بہن

میرے نزدیک ہر وہ شخص مولوی ہے جو ذاتی مفاد پر مذہب و ملت سمیت ہرشے قربان کرنے کو تیار ہو۔ اس میں مذہبی بهی شامل ہیں اور نام نہاد لبرل بهی۔ یہی ہیں جو اس مذہب و ملت کے دشمن ہیں۔ ایک طبقہ مذہب کے نام پر ملک و ملت کو رسوا کررہا ہے تو دوسرا روشن خیالی کی آڑ لے کر ذاتی اہداف کے حصول کی طرف گامزن ہے۔

ان دونوں طبقات کو اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لیے نئے اشوز درکار ہوتے ہیں اور اشوز دستیاب نہ ہونے کی صورت میں یہ اشو بناتے ہیں بلکہ اشو بنانے میں ایک دوسرے کے ساتھ بهرپور تعاون بهی کرتے ہیں۔ پهر اسے لیکر اپنے اپنے مفادت کے حصول میں لگ جاتے ہیں۔ ایسے ہی بیچاری بہن کے معاملے میں ہوا۔ پہلے ان دونوں نے مل کر اشو بنایا… اب دونوں اس سے اپنا اپنا حصہ نکال رہے ہیں۔

پیپر میں بہن کے "سراپا" کے متعلق سوال پوچها گیا۔ جو لوگ اس کی وضاحتیں پیش کررہے ہیں اور مولویانہ تاویلات و تشریحات سے اسے "صحت" ثابت کررہے ہیں، وہ بهی اچهی طرح سمجهتے ہیں کہ یہ سوال کیوں پوچها گیا…

میں نے پوری کوشش کی کہ اس مولویانہ معاملے سے دور رہوں۔ کچھ مذہبی مولویوں کی تاریخی حوالوں سے مزین گالیوں پر مشتمل تحریریں پڑهیں… کچھ لبرل مولویوں کا تاویلات و تشریحات سے بهرپور ماتم دیکها….پهر گهمسان کا رن بهی دیکها … ایک دوسرے کی خوب تواضع ہوتی بهی دیکهی.. مذہبی مولویوں کے پاس تو انواع و اقسام کی گالیوں کے سوا اور کچھ ہے ہی نہیں تو ان بیچاروں نے اسی سے نوازشریف، راحیل شریف سمیت تمام لبرل مولویوں کی تواضع کی البتہ لبرل مولوی ذرا پڑهے لکهے ہوتے ہیں تو وہ گالیوں کا جواب دینے کے ساتھ ساتھ اپنا روایتی سیاپا ڈالنا بهی نہیں بهولتے۔ انهوں نے عورت کی مظلومیت کے ماتم کو سیکولرازم کے نفاذ پر پہنچا کے دم لیا۔ انهوں نے اپنے تئیں یہ ثابت کردیا کہ پاکستان میں جتنا ظلم عورت پر ہوتا ہے، اتنا تو کمہار اپنے گدهے پر بهی نہیں کرتا۔

مذہبی مولویوں نے یہاں تو لبرل مولویوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا مگر بہنوں کو حصہ دیتے وقت ان کی بهی جان جاتی ہے۔ تعلیم کے معاملے میں بهی ان کی غیرت جاگ جاتی ہے۔

سوال کیوں آیا پیپر میں؟ میرا خیال ہے کہ اب ہر شخص کو سمجھ آجانا چاہیے۔ سوال شامل کروانے والے گاہے بگاہے کوئی ایسی ویسی حرکت کرکے چیک کرتے رہتے ہیں کہ آیا کہیں یہ لوگ بدل تو نہیں گئے اور ہم پہلے سے بهی زیادہ جوش و خروش کا مظاہرہ کرکے انهیں پیغام دیتے ہیں کہ جی" سوچنا وی نہ"…. " ہم نہ بدلیں گے کبهی وقت کی رفتار کے ساتھ".. اور ایسا ہی وہ لوگ چاہتے ہیں۔

سوچنے کی بات ہے کہ ہمارے لبرل مولویوں نے ایسی بات کی حمایت میں تحریروں کے انبار لگا دیئے جو غیرمذہبی ریاستوں میں بهی غلط سمجهی جاتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس کی ایک وجہ مذہبی لوگوں کی شدت پسندی ہے، جنونیت ہے، عقل پر پڑے پردے ہیں جس کے ردعمل میں دوسرا طبقہ ان سے بهی دو ہاتھ آگے نکل چکا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

لبرل مولویوں کے لیے آخری بات یہ کہ اگر آپ پسماندہ ملک میں رہ کر ترقی یافتہ ممالک سے بهی دو ہاتھ آگے نکل کر ڈیمانڈ کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے آپ اپنا اور ملک و ملت کا مذاق بنوانے میں سنجیدہ ہیں۔

Facebook Comments

رانا تنویر عالمگیر
سوال ہونا چاہیے.... تب تک، جب تک لوگ خود کو سوال سے بالاتر سمجهنا نہیں چهوڑ دیتے....

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply