وی آر گرین

دنیا کو اس وقت جن بڑے مسائل کا سامنا ہے ان میں سے ایک سنگین مسئلہ ماحولیاتی آلودگی اور اس کے نتیجے میں بڑھتا ہوا درجہ حرارت ہے۔آنے والی دہائیوں میں کرہ زمین پر وہی علاقے یا ممالک رہنے کے قابل ہونگے جہاں جنگلات کی تعداد زیادہ ہوگی اور آبادیوں میں بھی وافر مقدار میں درخت موجود ہونگے ورنہ تیزی سے بڑھتا درجہ حرارت ہمارے شہروں کو ایک گرم تندور کی مانند سلگا دے گا جہاں سانس لینا ایک مشکل کام اور تازہ ہوا کا حصول ایک خواب ہو گا۔روئے زمین پر تمام جانداروں اور بالخصوص انسانی زندگی کا انحصار جن باتوں پر ہے ان میں ایک آلودگی سے پاک ماحول ہے۔ دیکھا جائے تو ہر زمانے میں کچھ ایسے عوامل ضرور موجود رہے جو بتدریج ماحولیاتی آلودگی کا باعث بنتے رہے لیکن جدید صنعتی انقلاب نے جہاں ایک طرف حضرت انسان کو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ترقیوں کی معراج بخشی وہیں دوسری طرف یہ انقلاب شدید ترین ماحولیاتی آلودگی کا باعث بنا۔
گویا ہر نئی صنعت اپنے ساتھ ماحولیاتی آلودگی پھیلانے کا کوئی نیا طریقہ لائی۔ بدقسمتی سے ہم ایجادات کے سمندر میں اس قدر گہرے غوطہ زن ہوئے کہ اس کے منفی پہلووں سے بالکل بے پرواہ ہو گئے. اور یہ تناسب بگڑتے بگڑتے اس حد تک غیرمتوازن ہو گیا کہ اب ہم تباہی کے دھانے پر کھڑے ماحولیات میں غیرفطری تبدیلیوں پر نوحہ کناں ہیں۔ بڑے شہروں کی حالت یہ ہو چکی کہ عوام غذا سے زیادہ گرد و غبار اور دھواں کھا رہے ہیں۔موجودہ دور میں کثرت امراض کی سب سے بڑی وجہ بھی آلودگی ہے،جو ہماری فضا, زمین اور پانی میں یکساں طور پر موجود ہے اور بتدریج بڑھ رہی ہے. آنکھوں, پھیپھڑوں اور جلد کے امراض اس میں سرفہرست ہیں۔
قدرت کا نظام دیکھئے کہ جہاں ایک طرف دنیا میں آلودگی پھیلانے والے عوامل موجود ہیں وہیں اللہ تعالی ٰنے ماحولیاتی آلودگی کی کثافت کو جذب کرنے والے ذرائع بھی پیدا کئے۔قدرتی طور پر زمین آلائشوں اور غلاظتوں کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہے, شہروں سے اکٹھا ہونے والا ہزاروں ٹن کوڑا کرکٹ اپنے سینے میں تحلیل کر کے ماحولیاتی آلودگی کا زبردست مقابلہ کرتی ہے۔ سمندر کا کھارا پانی حیرت انگیز طور پر ماحولیاتی آلودگی کو کنٹرول کرنے میں غیر معمولی کردار ادا کرتا ہے. اور فیکٹریوں, کارخانوں سے نکلنے والے زہریلے مواد کو تحلیل کر کے ماحول کو صاف رکھنے میں بہت مددگار ثابت ہوتا ہے۔ ان تمام قدرتی عوامل کے باوجود ماحولیاتی آلودگی جدید دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور اس کا بہترین اور موثر حل درختوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہے. ماحولیاتی آلودگی سے تحفظ اور انسان کو صاف و شفاف ہوا فراہم کرنے والے ذرائع میں سب سے اہم ذریعہ درخت اور درختوں سے بھرے گھنے جنگلات ہیں، قرآن مجید میں درختوں اور نباتات کے نظام کو اللہ نے اپنی رحمت قرار دیا ہے. ارشاد ہوتا ہے کہ
الَّذِیْ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لَّکُم مِّنْہُ شَرَابٌ وَمِنْہُ شَجَرٌ فِیْہِ تُسِیْمُونَ. یُنبِتُ لَکُم بِہِ الزَّرْعَ وَالزَّیْْتُونَ وَالنَّخِیْلَ وَالأَعْنَابَ وَمِن کُلِّ الثَّمَرَاتِ إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لآیَۃً لِّقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ.(النحل:۱۰۔۱۱)
ترجمہ: وہی (اللہ) ہے جو تمہارے فائدہ کے لئے آسمان سے پانی برساتا ہے جسے تم پیتے بھی ہو اور اس سے اگے ہوئے درختوں کو تم اپنے جانوروں کو چراتے ہو، اس سے وہ تمہارے لئے کھیتی اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل اگاتا ہے، بیشک ان لوگوں کیلئے تو اس میں نشانی ہے جو غوروفکر کرتے ہیں۔
ایک مقام پر زیتون کے درخت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: وَشَجَرَۃً تَخْرُجُ مِن طُورِ سَیْْنَاء تَنبُتُ بِالدُّہْنِ وَصِبْغٍ لِّلْآکِلِیْنَ. (المؤمنون:۲۰)
ترجمہ: اور (پیداکیا) وہ درخت جو طور سینا پہاڑ سے نکلتا ہے جو تیل نکالتا ہے اور کھانے والوں کے لئے سالن ہے. زیتون کے درخت کو مبارک درخت قرار دیا گیا، ارشاد ہے: یُوقَدُ مِن شَجَرَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ زَیْْتُونِۃٍ لَّا شَرْقِیَّۃٍ وَلَا غَرْبِیَّۃٍ .(النور:۳۵)
پودے اور درخت جہاں انسان کو پھل اور اناج مہیا کرتے ہیں, سایہ اور ایندھن فراہم کرتے ہیں وہیں جنگلات اور آبادیوں میں موجود سرسبز درخت ماحولیاتی آلودگی کی کثافتوں کو اپنے اندر جذب کرتے ہیں اس لئے اسلام نہ صرف بلا وجہ درخت کاٹنے کی مذمت کرتا ہے بلکہ شجرکاری کی ترغیب بھی دیتا ہے. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب کوئی غزوہ پیش آتا مجاہدین کو خاص طور پر یہ ہدایات دی جاتیں کہ فصلوں اور درختوں کو نقصان نہ پہچایا جائے. اسی طرح مختلف احادیث میں درخت لگانا صدقہ جاریہ بتایا گیا ہے. جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ “مسلمان کوئی درخت یا کھیتی لگائے اور اس میں سے کوئی انسان,درندہ,چرند یا پرند کھائے تو وہ اس کے لئے صدقہ ہے. (مسلم) اس حدیث سے شجر کاری کی فضیلت اور خیر و برکت کا اندازہ ہوتا ہے، لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم دین میں صرف صوم و صلوٰۃ تک محدود ہیں۔
اخلاق, سماج اور معاشرت میں ہم رسوم ورواج کے پابند اور جہالت کے ساتھی ہیں۔ ہم بھول گئے کہ اجر و ثواب ہمارے ہر فعل میں ہے بھلے ہم اچھی نیت کے ساتھ اپنی موٹر سائیکل, رکشے, ٹرک یا کار کا دھواں ہی بند کروائیں, یا اپنی گلی محلے کو صاف رکھیں, یا غیر ضروری طور پر ہارن بجانے سے گریز کریں, یا اپنے محلے کی نالی سے رکاوٹ ہٹا دیں. یا خالی جگہ پر چند پودے لگا دیں. یہ سب نیکی کے کام ہیں جن پر انشاءاللہ اسی طرح اجر و ثواب ملے گا جس طرح دوسرے دینی فرائض ادا کرنے پر ملتا ہے. بس ہمیں اس طرف غور کرنے اور اسے اپنی روٹین لائف میں لانے کی ضرورت ہے. گورے ان ہی چھوٹی چھوٹی اچھی عادات سے اپنے ممالک کو جنت نظیر بنا کر بیٹھے ہیں۔ اگر ہم اجر و ثواب کی نیت سے یہ کام کریں تو کیا وجہ ہے کہ ہم اپنی بستیاں اور شہر ان سے زیادہ خوبصورت نہ بنا سکیں.
چند روز قبل اوکاڑہ سے تعلق رکھنے واکے کچھ دوستوں نے ،we are green کے نام سے شجرکاری مہم کا پرزور آغاز کیا ہے۔ اللہ تعالی ٰان دوستوں کو اجر خیر عطا فرمائے. میں ایسے لوگوں کو قوم کامحسن سمجھتا ہوں جو قول سے زیادہ عمل پر یقین رکھیں، سب سے زیادہ حوصلہ افزاء بات یہ ہے سوشل میڈیا پر موجود پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد نے اسے سراہا اور دل کھول کر جانی اور مالی مدد کا اعلان کیا. یہ ہماری قوم کا اجتماعی شعور کی طرف ایک قدم ہے جسے جاری رہنا چاہئے اور ہر صوبے, شہر اور بستی میں اس طرز کا کام ہونا چاہئیے۔ یاد رکھیے کہ آج کی نسبت ایک ٹھنڈا اور خوبصورت ماحول اگلی نسل کا ہم پر قرض ہے جو ہمیں ہر صورت اتار کر ہی مرنا ہے. ورنہ اگلی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی. اس قرض اتارو مہم میں اپنا حصہ ضرور ڈالیں، چاہے وہ آپ کے حصے کا صرف ایک درخت ہی کیوں نہ ہو۔

Facebook Comments

احمد عمیر اختر
مکالمہ کو دنیا کے تمام مسائل کا حل اور گولی, گالی کو مسائل کی جڑ سمجھتا ہوں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply