ٹریفک قوانین کی پابندی، اخلاقی ذمہ داری ۔۔۔۔ توقیر ماگرے

ایک محتاط اندازے کے مطابق پونے دو کروڑ کی آبادی کے شہر، شہر قائد میں ہر وقت چالیس سے پچاس لاکھ گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں سڑکوں پر رواں ہوتی ہیں اور اگر یہ کہا جائے کے رات کے وقت یہی گاڑیاں اس شہر کو روشنیوں کا شہر بناتی ہیں تو شاید غلط نہ ہوگا۔ چونکہ اس مضمون میں سڑک ہر پیش آنے والی مشکلات اور مسائل کا ذکر کرونگا جو بعض دفعہ بڑے جانی نقصان کا باعث بن سکتے ہیں اس لئے یہ بھی آپ پہلے ہی جان لیں کہ اب وہ زمانہ گیا جب منی بسیں ٹوکن کا چکر چلاکر مسافروں کو ذہنی اور جسمانی اذیت کا شکار کرتی تھیں۔ غلط انداز میںاوور ٹیکنگ یا چھوٹے موٹے سگنل توڑنا بھی اب اس شہر کی سڑکوں پر معیوب نہیں سمجھا جاتا۔

نئی مصیبتوں میں ایک مصیبت رکشے ہیں، انکے ڈرائیوروں کا جب اور جہاں دل چاہتا ہے بریک لگا دیتے ہیں پھر چاہے کوئی بھی گاڑی پیچھے سے کتنی ہی رفتار سے آرہی ہو ان کی بلا سے، رکشہ ڈرائیوروں کا دل چاہے تو چالیس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے فاسٹ ٹریک پر چلتے ہیں اور دل کرے تو اپنے رکشے کو ہوائی جہاز سمجھ کر سلو ٹریک کی طرف آجاتے ہیں۔ رکشوں کے ایکسیڈنٹ بھی اب معمول کی بات ہیں۔

موٹر سائیکل سواروں کو تو فسادی مخلوق کہنا بھی غلط نہ ہوگا۔ وہ اس طرح کہ صرف سال 2015ء میں کراچی شہر میں موٹر سائیکل سواروں نے 14000 حادثات میں کلیدی کردار ادا کیا جن میں تقریبا 2 ہزار کے قریب لوگ اپنی جان سے گئے، زیادہ تر حادثات ان موٹر سائیکل سواروں نے کئے جن کی عمریں  پچیس سال سے کم تھیں۔

نوجوانوں میں ون ویلنگ کا بڑھتا ہوا رجحان بھی انتہائی خطرناک ہے، اس ضمن میں طارق عزیز صاحب اکثر نصیحت کیا کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں:”اگر اس سواری نے ایک ٹائر پر چلنا ہوتا تو اسکا موجد دوسرا ٹائر لگاتا ہی نہ۔”

عموما ًدیکھنے میں آیا ہے خوبصورت اور بڑی گاڑیوں میں اکثر تہذیب سے خالی لوگ بیٹھے ہوتے ہیں، چلتی گاڑی سے کوڑا باہر پھینک دینا یا شیشہ نیچے کرکے پان کی پچکاری مار دینا اس کے نزدیک ’’مسافرانہ اخلاق‘‘ ہے۔ جب عین سڑک پر انہیں کسی گندے نالے یا گٹر کا پانی نظر آجائے، تب تو ان پر فرض ہوجاتا ہے کہ اس پانی کے چھینٹے دائیں بائیں موجود لوگوں پر لازماً پھینکیں۔

ٹریفک کنٹرول کرنے والوں کی قلت بھی “شریف مسافروں” کو شدید تکلیف میں مبتلا کردیتی ہے، سمجھ نہیں آتی ہر دوسرے مہینے اخباروں میں انکی بھرتی کے اشتہارات آتے ہیں مگر یہ لوگ نظر صرف چند گنی چنی شاہراہوں پر ہی آتے ہیں۔ آخر یہ لوگ جاتے کہاں ہیں؟ انکی غیر موجودگی سے فائدہ اٹھا کر “طرار ڈرائیور” حضرات (پہلے میں کے چکر میں) ٹریفک جام کردیتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر ہم ڈرائیونگ ذرا تحمل سے کریں، ٹریفک قوانین کا احترام کریں، کوئی اگر جلدی میں ہے تو اسے پہلے راستہ دے دیں، غلطی ہوجائے تو کم از کم ہاتھ کے اشارے سے ہی سہی، پر معذرت ضرور کرلیں۔ اگر ان چھوٹے چھوٹے اصولوں پر عمل کرلیا جائے تو نہ صرف ٹریفک حادثات پر قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ کئی قیمتی جانیں بھی بچائی جاسکتی ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply