شادی میں تاخیر کیوں؟

شادی ہونی چاہیئے ضرور ہونی چاہیئے اور جلدی ہونی چاہیئے تاکہ معاشرہ اسلامی روپ دھار سکے اور ایمان مکمل ہوسکے۔مسلمانوں کی بے حمیتی کہیئےیا بد نصیبی کہ انہوں نےشادی سے پہلے اور شادی کے موقع پر ایسی رسموں اور ایسی شرائط کو لازم کرلیا ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہی رسمیں اور شرائط شادی میں تاخیر کا سبب بنتی ہیں۔
جب انسان میں شرم وحیا باقی نہ رہے تو پھر اپنی بہن اور بیٹی کے سر سے آنچل کھینچ لےتو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔مغرب کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح ہمارے معاشرے میں فحاشی عریانی بے حیائی اور بے راہ روی کو عام کرے اور شرم وحیا چھین لے۔ جنسی تسکین میں حیوانوں کے برابر لا کھڑا کردے۔یہ سب کچھ ہورہا ہے
اسکی وجہ شادی میں تاخیر ہے۔شرعی نکاح جلدی نہ ہونے کی وجہ سے فلمیں دیکھ دیکھ کر خواہشات ابھرتی ہیں اور آخر کار نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ غیر شادی شدہ عورتیں مائیں بن جاتی ہیں والدین اس گناہ میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔اسکی وجہ شادی کی عمر میں شادی کو مئوخر کرنا ہے۔تاخیر کی ایک اور وجہ ڈگری کا حصول ہے،جتنی بڑی ڈگری ہوگی اتنی بڑی ملازمت ملے گی ،تعلیمی سرمایہ کاری کے اس جال میں ہماری بہنیں بیٹیاں بھی پھنس چکی ہیں۔لوگ رشتے طے کرتے وقت لڑکے کی ڈگری کو مدنظر رکھتے ہیں۔ہمارے دین کے پیش کردہ ضوابط کی رو سے معاشی بوجھ مرد کے ذمہ ہے۔لہٰذا تعلیم برائے ملازمت حاصل کرنا مرد کا حق ہے اور ضرورت بھی۔لیکن لڑکی جو معاشی بوجھ سے آزاد ہے اس پر تعلیم کا بوجھ لاد کر شادی جیسے دینی فریضے کو مئوخر کرنا درست نہیں۔
جوانی کی عمرمیں شادی کرنا خصوصاً لڑکیوں کیلیئے ضروری ہے، لیکن جوانی کے ایام حصول تعلیم میں گزر جاتے ہیں۔رشتہ ہوتے ہوتے بھی وقت لگتا ہے یوں لڑکیوں کے رشتے مشکل کا شکار ہوجاتے ہیں۔جو شادی میں تاخیر کا سبب بنتے ہیں۔
لڑکیوں کے دماغ میں TV کلچر نے مالدار شوہر کا تصور بٹھادیا ہے اور وہ کسی شہزادے کی تلاش کیلیئے اتتظار برداشت کرتی ہیں۔نہ شہزادہ صاحب ملیں اور نہ ہی شادی کی خواہش کی تکمیل ہوسکے
اور یہ بھی شادی میں تاخیر کی ایک وجہ بن جاتی ہے۔بالکل اسی طرح لڑکے والے بھی خواہش کرتے ہیں کہ لڑکی کار کوٹھی موٹر سائیکل اور دیگر لوازمات کے ساتھ ہمارے گھر کی زینت بنے۔یوں غریب لڑکیاں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے بوڑھی ہوجاتی ہیں۔اور نتیجہ شادی میں تاخیر کی شکل میں سر اٹھاتا ہے۔دور حاضر میں مادی آسائشوں کے حصول کی خواہش نے انسان کو خود غرض بنادیا ہے خاندان کے حقوق ادا کرنے سے فرار کی روش عام ہوچکی ہے ۔لڑکے والے چاہتے ہیں کہ لڑکی کے گھر والے کم ہوں تاکہ ہمارے بیٹے کو سسرال کے حوالے سے کم ذمہ داری اٹھانا پڑے ادھر لڑکی والے بھی ساس اور نندوں کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہیں۔یہ سوچ بھی شادی کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہے۔دوسری طرف معاشرے نے سمجھداری کا معیار بھی اپنا ہی بنا رکھا ہے،
کہاجاتا ہے کہ لڑکا ہو یا لڑکی دوسروں سے بے دھڑک بات کرسکے ۔
اپنے کاروبار یا معاملات میں جہاں مصلحت یا مفاد دیکھے تو فریب دھوکے اور چکنی چپڑی باتوں سے اپنا کام نکال لے حالانکہ اسلام میں سمجھداری کا معیار یہ ہے کہ انسان میں اچھے برے کی تمیز پیدا ہو جائے۔دعا گو ہوں اللہ ہم سب کو مکمل اسلام کے مطابق عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔
اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔

Facebook Comments

اعظم سلفی مغل
حافظ قرآن مطالعہ کا شوقین

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply