تنہائی ایک نعمت/سراجی تھلوی

ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کردے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
(محسن نقوی)

میں تو گم نام تھا ایک گوشہِ تنہائی میں
دل جو بیچا ہے تو اب سُرخی ِ اخبار میں ہوں
(سراجی تھلوی)

مدتوں بعد آج خود سے ملنا چاہا۔ کوئی راہ نظر نہیں آرہی تھی  کہ کس راہ سے، کس کے توسط سے خود سے ملوں۔ شاید یہ دو سطریں  پڑھ کر لوگ سوچیں گے کہ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ خود سے ملنے کےلیے بھی سوچا جائے؟  یا کسی راستے کی ضرورت پڑتی ہے؟ کسی کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے؟ لوگ سوچیں گے۔۔  اور یہ بھی پوچھیں گے کہ کس خیالی دنیا کی باتیں کر رہا ہوں،خود سے ملنا تو دنیا کا آسان ترین کام ہے لیکن لوگوں نے سوچا ہی کہاں ہے کہ خود سے ملاقات ،خود سے باتیں کرنا ،خود سے ملنا کتنا جاں گسل اور مشکل کام ہے۔دنیا میں ہزاروں دانشور ،ہزاروں اہل ِعلم ملیں گے کہ دنیا کے نامور لوگوں سے ملنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہوتے ہیں ،کیسے ملک کے صدر ،وزیراعظم ،رؤسا و امراء سے میری ملاقات ہو اور ان سے ملاقات و ملن ہی کو کامیابی سمجھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ یہ مشکل راہ طے ہوئی،ا  ور فاتح ٹھہرے۔ ۔پر سب سے مشکل اَمر سب سے سخت کام تو خود سے ملنا ہے ۔خود سے ملنے کےلیے دنیا کا کوئی شخص سفارش نہیں کرسکتا ،راہ ہموار نہیں کرسکتا ، میں سوچتا رہا فکر میں ڈوبا رہا کہ کیسے خود سے ملوں بقول غالب

کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی

اچانک کوئی صدا آئی کہ “تنہائی” سب سے بہترین نعمت ہے۔ سب سے بہترین راہ ہے،خود سے ملنے کےلیے ۔۔میں چونک گیا۔ کیسے دل و دماغ کے درمیان رابطہ استوار کر کے تفکر کی یوں آمد ہوئی  کہ کوئی ساتھ نہ ہو، نہ دوست نہ گھر کے افراد نہ کتابیں نہ موبائل سب سے الگ تنہا ہو، بس اور یہ “تنہائی” آپ کو آپ سے ملوائے  گی ۔پھر خود سے جی بھر کے ملاقات کریں ،شاید اسی ملاقات کا نام اہل عرفان نے “محاسبہ” رکھا ہے،یعنی خود کا احتساب کرنا۔  محبوب کبریاﷺ فرماتے ہیں
حاسِبُوا اَنْفُسَکُم قبلَ اَن تُحاسَبُوا و زِنُواها قبلَ اَنْ تُوزَنُوا و تَجَهَّزُوا لِلْعَرْضِ الاَْکْبَر
“اپنے نفس کا  محاسبہ کرو ، اس  سے پہلے کہ تمہارا حساب کیا جائے۔

اقبال نے بھی  کیا خوب کہا ہے۔۔

اپنے  من میں ڈوب کر پاجا سراغِ  زندگی

تو اگر میرا نہیں بنتا ،نہ بن، اپنا تو بن

ارے ناداں! خود سے پوچھو  کہ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ کیا کرنا چاہتے ہو،کہاں جارہے ہو، اب تک کیا کیا ہے،کل اور آج میں کیا تبدیلی آئی ہے خود میں ،کتنے لوگوں کو دُکھ دیا ،کتنے انسانوں کو خوشی دی ،کتنے ناداروں کی مدد کی  ،کتنے ہم عصروں کو نیچا دکھانے کی کوشش کی۔۔

کبھی خود کےلیے وقت نکالو۔کتابیں پڑھنا لفظوں سے کھیلنا کامیابی نہیں ، اگر اپنی پہچان نہ ہوئی تو “علم ظاہر راہزن است”۔ اسی لیے حکیم و دانا امیر المومنین سید المتقین فرماتے ہیں:من عرف نفسہ فقط عرف ربہ ،جس نے خود کو پہچانا اس نے رب کو پہچانا ،اب جو شخص خود  کو ہی  نہ پہچانتا   ہو، کبھی خود سے ملنے کی کوشش ہی نہ کی ہو وہ رب کی پہچان و عرفان کیسے حاصل کرے گا؟اقبال نے کیا خوب فرمایا؛

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

اور یہی تنہائی تو ہے جو انسان کو ربّ سے مربوط کرتی ہے۔یہی تنہائی تو وہ آئینہ ہے جس میں خود کی حقیقت دکھاتا ہے۔اور یہی تنہائی تو وہ میزان ہے جس پر خود کو تولا جاتا ہے،تنہائی تو وہ کسوٹی ہے جس پر خود کو پرکھا جاتا ہے،ورنہ دوست   احباب ،چاہنے والے آپکی تعریف و توصیف سے تھکتے نہیں ،آپ کو پسند نہیں کرنے والے تنقید   سے نہیں  رُکتے ،اور آپ تعریف و تنقید کے پُرپیچ  رستے پر  خود سے لاتعلق ہوکر رہ جاتے ہیں۔۔ ارے نادان خود سے ملنے کےلیے تنہائی ضروری ہے یعنی خدا تک پہنچنے کےلیے تنہائی ضروری ہے۔تنہائی تو وہ مقام ہے جہاں انسان روتا ہے تو سکون محسوس کرتا ہے،جہاں بلا شرم و حیا اپنے  مالکِ حقیقی سے باتیں کرسکتا ہے ،گناہوں کا  اعتراف کرسکتا ہے۔ ،جہاں رو رو کے معافی مانگی جا سکتی ہے۔ جہاں کسی بچے کی طرح ہزار ماؤں سے زیادہ محبت دینے والی ذات سے ضد کرسکتا ہے۔ ،مرے مالک مطلق ،اے ستار العیوب ،اے غفار الذنوب ،میرے  گناہوں کو معاف فرما،میرے عیوب کی پردہ پوشی کرنا۔میں ناداں ہوں مجھے عقل و فہم دے! میں نازک ہوں مجھے صبر دے! مجھے ضبط دے! ہم تنہائی میں اپنے محبوب سے دل کی ساری باتیں کر سکتے ہیں۔ نہ صرف کر سکتے ہیں بلکہ باتیں کرنے کے بعد کا جو احساس ہوتا ہے وہ علامہ اقبال نے یوں بیان کیا ہے!
متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی

مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی

فارسی شاعر سعدی شیرازی کے بقول؛

ای کریمی که از خزانهٔ غیب
گبر و ترسا وظیفه خور داری
دوستان را کجا کنی محروم

Advertisements
julia rana solicitors london

تو که با دشمن این نظر داری
ہائے اللہ ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں ہم خود سے کتنا دور ہیں ،ہم نے کبھی سب سے کٹ کر تنہائی میں خود سے ملاقات ہی نہیں کی ،ہم نے کبھی تنہائی میں خود کو تولا ،پرکھا ہی نہیں ،ہم تو بس کتابوں کی ورق گردانی کرتے رہے ،دوست   احباب کے  جھرمٹ میں دوسروں کے بارے باتیں کرنے سے فرصت نہیں ملی،کاش تنہائی کی نعمت کا کچھ اندازہ ہوجاتا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply