عید کی نمازکہاں پڑھنی چاہیئے؟

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ماہِ رمضان المبارک کے اختتام پر ایک دینی تہوار کی حیثیت سے عید کا تحفہ دیا ہے۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ بندہ خدا نے جس ہمت و اعلیٰ صفات کا اظہار کرتے ہوئے اس ماہِ مبارک میں اپنے رب کے حضور روزہ جیسی بدنی عبادت کو بخیر وخوبی انجام دیاہے ،جس نے اس کے باطن کو ایک نئی energy فراہم کی ہے۔ اس کی جسم کے ساتھ ساتھ اس کی روح کی تطہیر کا بھی انتظام ہواہے۔ اب اسی تطہیر کی حفاظت کے لئے اسے مزید اس بات کادرس دیاہے کہ اس پُر مسرت موقع پر اپنے مسلمان بہن بھائیوں کی داد رسی اور اس خوشی میں ان کی خوشیوں کی بحالی بھی ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے۔اسی لئے اسلام نے فطرے کو لازمی قرار دے کر ہر مسلمان کو اس بات کا ضامن ٹھہرا دیا ہے کہ اپنی رعیت میں جھانک لو کہ کوئی محتاج اور تمہارے سہارے کا منتظر تو نہیں ہے۔اس لئے اپنے رب کے حضور شکرانہ ادا کرنے سے بھی قبل فطرانہ ادا کرنا لازمی ہے۔ اور اس پر اولاً غریب اقرباء کا حق ہے اور پھر دیگر مسلمان فقراء و مساکین وغیرہ کا، کسی چینل، تنظیم ،یا مسجد و مدرسہ کا حق ان کے بعد ہے۔

عید کی نماز ,مسلمانوں کے اس اجتماع عام کا نام ہے جس سے مسلمانوں کی اخوت ،اتحاد اور شیرازہ بندی ظاہر ہوتی ہے۔اسی لئے نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ عید کی نماز کو مسجد کے بجائے آبادی سے ہٹ کر ایک مقام پر مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ اسے ادا کرتے تھے اور اس عمل پر آپﷺ نے ہمیشہ عمل کیا ہے سوائے ایک مرتبہ کہ جب بارش ہوئی تھی او ر آپ نے عید کی نماز مسجد نبوی میں ہی پڑھائی۔یہی وجہ ہےکہ تمام فقہائے کرام اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ عید کی نماز کا اہتمام عام اجتماع کی صورت میں کیاجائے اور الگ الگ مساجد کے بجائے عید گاہ یا بڑی جامع مسجد میں اس کا اہتمام کیاجائے تاکہ مسلمانوں کی اجتماعیت کا اظہار ہو۔آج ہمارے ہاں اس بات کا رجحان روز بروز کم ہوتا جارہا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے پارہ ہوتے ہوئے اتحاد کو بچائے اور انتشار کے بجائے اتفاق و اتحاد کو اور نظم اجتمائی کو بحال کرنے کی کوشش کریں۔

اس ضمن میں احادیثِ نبویﷺ کے حوالے جات اور فقہائے کرام کی عبارات ذکر کیئے جارہے ہیں۔
نمازِ عید کو صحرا(کھلے میدان)میں ادا کرنا چاہئے اور بغیر کسی عذر کے مسجد میں پڑھنا مکروہ ہے۔ فقہاء کے مذاہب درج ذیل ہیں
مالکیہ کےمطابق :عید کی نماز عید گاہ میں پڑھنا مندوب ہے سنت نہیں، ہاں البتہ مسجد میں بغیر عذر کے پڑھنا مکروہ ہے۔سوائے مسجد ِ حرام کے۔اسی طرح کا موقف حنابلہ کا ہے۔ شوافع کے نزدیک مسجد میں پڑھنا افضل ہے لیکن تنگی کہ وجہ سے عید گاہ میں پڑھنی چاہئے ۔احناف کے نزدیک نمازِ عید ، عید گاہ میں پڑھنا سنت ہے ،بغیر کسی عذر کے مسجد میں پڑھنا مکروہ ہے اور اس میں مسجدِ حرام بھی شامل ہے۔
(الفقہ علی مذاہب الاربعہ،ج:۱، ص:۵۴۱، عبدالرحمن الجزیری(،)فتاویٰ الازہر،ج:۱، ص:۴۵، دار الإفتاء المصرية،موقع وزارة الأوقاف المصرية(
نبی کریم ﷺ نے عید گاہ میں نماز پڑھنے پر مواظبت اختیا ر کی ہے احادیث ِ کے حوالے درج ذیل ہیں
عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال ” كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخرج يوم الفطر والأضحى إلى المصلى ( 1 ) فأول شيء يبدأ به الصلاة ثم ينصرف فيقوم مقابل الناس والناس جلوس على صفوفهم فيعظهم ويوصيهم ويأمرهم فإن كان يريد أن يقطع بعثا قطعه ( 2 ) أو يأمر بشيء أمر به ثم ينصرف قال أبو سعيد : فلم يزل الناس على ذلك ” .
رواه البخاري ( 2 / 259 – 260 ) ومسلم ( 3 / 20 ) والنسائي ( 1 / 234 ) والمحاملي في” كتاب العيدين” ( ج 2 رقم 86 من نسختي بخطي ) وأبو نعيم في “مستخرجه &” ( 2 / 10 / 2 ) والبيهقي في سننه ( 3 / 280 )
الحديث الثاني :
عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال ” كان صلى الله عليه وسلم يغدو إلى المصلى في يوم العيد والعنزة ( 1 ) تحمل بين يديه فإذا بلغ المصلى نصبت بين يديه فيصلي إليها وذلك أن المصلى كان فضاء ليس فيه شيء يستتر به
رواه البخاري ( 1 / 354 ) ومسلم ( 2 ظ 55 ) وأبو داود ( 1 / 109 ) والنسائي ( 1 / 232 ) وابن ماجه ( 1 / 392 ) وأحمد ( رقم 6296 ) واللفظ لابن ماجه وهو أتم وسنده صحيح وكذلك رواه المحاملي في ( 2 رقم 26 – 36 ) وأبو القاسم الشحامي في” تحفة العيد ” ( رقم 14 – 16 من نسختي بخط ابني ) والبيهقي ( 3 / 284 (285 .

الحديث الثالث :
عن البراء بن عازب قال ” خرج النبي صلى الله عليه وسلم يوم أضحى إلى البقيع ( 1 ) ( وفي رواية : المصلى ) فصلى ركعتين ثم أقبل علينا بوجهه وقال ” إن أول نسكنا ( 2 ) في يومنا هذا أن نبدأ بالصلاة ثم نرجع فننحر فمن فعل ذلك . فقد وافق سنتنا ومن ذبح قبل ذلك فإنما هو شيء عجله لأهله ليس من النسك في شيء ”
)رواه البخاري ( 2 / 372 ) والسياق له وأحمد ( 4 / 282 ) والمحاملي ( 2 رقم 90 ، 96 ) والرواية الأخرى لهما بسند حسن (

الحديث الرابع:
عن ابن عباس قيل له: أشهدت العيد مع النبي صلى الله عليه وسلم قال : نعم ولولا مكاني من الصغر ما شهدته حتى أتى العلم الذي عند دار كثير بن الصلت ( 3 ) فصلى ثم خطب ثم أتى النساء ومعه بلال فوعظهن وذكرهن وأمرهن بالصدقة ( 1 ) فرأيتهن يهوين بأيديهن يقذفنه في ثوب بلال ثم انطلق هو وبلال إلى بيته ”
) أخرجه البخاري (2 / 373) والسياق له ومسلم ( 2 / 18 – 19 ) وابن أبي شيبه ( 2 / 3 / 2 ) والمحاملي ( رقم 38 ، 39 ) والفريابي ( رقم 85 ، 93 ) وأبو نعيم في” مستخرجه &” ( 2 / 8 / 2 – 9 / 1 ) وزاد مسلم في روايته عن ابن جريج : قلت : لعطاء أحقا على الإمام الآن أن يأتي النساء حين يفرغ فيذكرهن ؟ قال: إي لعمري إن ذلك لحق عليهم وما لهم لا يفعلون ذلك؟ (

” شرح السنة ” للإمام البغوي:
امام بغوی کہتے ہیں سنت یہی ہے کہ عید گاہ میں پڑھی جائے الا یہ کہ کوئی عذر ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

وقال الإمام محيي الدين النووي في” شرح مسلم”
امام نووی فرماتے ہیں کہ عید گاہ میں نمازِ عید پڑھنا مستحب ہے اور افضل یہی ہے کہ مسجد میں پڑھی جائے
صلاة العيدين في المصلى هي السنة، محمد ناصر الدين الألباني، ج:۱، ص:14-26

Facebook Comments

سید محمد کاشف
شہادۃ العالمیہ، ایم اے جامعہ کراچی، فاضل عربی، ایم فل جامعہ کراچی۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply