پرانا بدلہ۔۔۔۔۔اے وسیم خٹک

یہ تحریر  خالصتاً مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے،ادارے کا ان کی کسی بات سے اتفاق ضروری نہیں ،اگر کوئی قاری لکھاری کے الزامات کا جواب دینا چاہے تو مکالمہ حاضر ہے!
وہ کرک کے ایک غریب خاندان میں پیدا ہواـ جہاں اُس نے غربت کے سوا کچھ نہیں دیکھا ـ، اُس  کے والد کو اپنے والد کی جانب سے بھی کچھ حصے میں نہیں ملا تھا، ـ کھیتی باڑی سے گزر بسر ہوتی تھی ـ اُسکی ماں دور سے پانی بھر کر لایا کرتی تھی ،  ماں اس کو گود میں ساتھ لے جاتی تھی ـ راستے میں نوجوان بچے کرکٹ کھیلتے تھے تو یہ انہیں دیکھتا تھاـ ایک دن کوئی گھر میں شوروغل تھا سب لوگ ٹی وی کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے ـ اور ٹی وی پر وہی کھیل ہورہا تھا جو شاہد خٹک روز راستے میں دیکھتا تھاـ  وہ پاکستان کا انگلینڈ کے ساتھ فائنل میچ تھا ـ سب دعا کر رہے تھے کہ پاکستان میچ  جیت جائے۔۔ ـ شاہد کی عمر اس وقت کوئی چھ سال کے قریب ہوگی ـ وہ بھی ٹی وی کے سامنے بیٹھ گیاـ اور یوں پاکستان نے میچ جیت لیا ـ اور اس کے بعد شاہد خٹک خود کو عمران خان سمجھنے لگاـ وہ کرکٹ کھیلتاـ پڑھائی کے ساتھ ساتھ وہ عمران خان سے ملنے کے بہانے ڈھونڈتا تھاـ ۔
کالج آیا تو بھی جنون کا خاتمہ نہیں ہواـ عمران تک پہنچنے کا جنون اس کے سر پر سوار تھاـ  عمران خان کرکٹ سے ریٹائرڈ ہوکر سیاست میں آیا  ـ اور پارٹی شروع کی ـ ،شاہد خٹک اس وقت پرائمری سکول میں تھاـ پھر کالج میں آیا تو اسوقت پہلی دفعہ عمران خان کرک آیاـ  ،الیکشن ہورہے تھےـ جس میں میاں نثار گل کاکا خیل کرک سے امیدوار تھے ـ شاہد خٹک کالج سے عمران کے جلسے میں گیا اور نعرے لگائے عمران زندہ باد ـ اس دوران وہ عمران کے بہت نزدیک چلا گیاـ اور اسٹیج کے قریب عمران خان کو غلطی سے دھکا دے دیا ،ـ عمران خان نے اپنے سپوررٹر کو دیکھا اور سائیڈ پر ہوگئے ـ کیونکہ وہ بدلہ نہیں لے سکے تھے ـ عمران خان نے شاہد خٹک کو اس وقت دیکھ لیا تھاـ اور وہ چونکہ بہت کینہ باز شخص ہے اس لئے عمران خان نے اپنے دل میں بغض رکھ لیاـ کہ میں اس کا بدلہ شاہد خٹک سے لوں گاـ وہ الیکشن عمران خان ہار گئے مگر میاں نثار جیت گئےـ ،عمران خان نے شاہد خٹک کے بارے کئی دفعہ میاں نثار سے پوچھا ـ ناصر خٹک کو بھی کہا کہ اس نوجوان کا پتہ کرو جس نے مجھے کہنی ماری تھی ـ مگر چونکہ میڈیا اتنا  طاقت ور نہیں تھا ، اس لئے اُس کی کوئی تصویر سامنے نہیں آئی ـ پھر گل صاحب خان اور ناصر خان جیت گئے تب بھی وہ اس کو نہیں پا سکے، ـ ناصر خان کو پتہ چل گیا تھا کہ شاہد خٹک کون ہے اس لئے اُس نے اسے اپنے آئی ایس ایف کا صوبائی صدر تک بنا لیا ـ کیونکہ آئی ایس ایف کی آبیاری ناصر خٹک نے کی تھی ـ پھر ناصر خان کے عمران کے ساتھ حالات خراب ہوئے اور وہ پارٹی سے چلتے ہوئے ـ گل صاحب خان کو بھی ٹاسک دیا گیا تھا مگر وہ بھی ناکام ہوگئے تھے ۔اس لئے اسے بھی اس ناکامی پر پارٹی سے دور کردیا گیاـ۔
دوسری جانب نئے الیکشن سر پر آگئے ـ تو بنی گالہ میں ریحام خان کے ساتھ شادی کے ولیمے میں عمران خان کو شاہد خٹک نظر آگئے اور اُسی دن عمران خان نے بھانپ لیا کہ یہ وہی نوجوان تھا جس نے مجھے  2003  میں کہنی ماری تھی اب یہ نوجوان بن گیا ہے ـ اس لئے اس سے بدلہ لینا تو بنتا ہے۔۔۔ـ
ٹکٹوں کی تقسیم شروع ہوئی تو جہانگیر ترین نے پیسوں والے امیدوار لئے اور اربوں روپے اس مد میں امیدواروں سے بٹورے جو الکیٹیبلز تھے ان میں شاہد خٹک وہ واحد بندے تھے جس کو عمران کی ایماء پر پرویز خٹک نے منتخب کیا تھاـ کہ اس شخص کو بھرے اجتماع میں کہنی ماری جائے گی یا تھپڑ مارا جائے گاـ یوں کرک سے این اے کی سیٹ شمس الرحمان سے لے کر شاہد خٹک کو دی گئی جس سے عمران خان  نے اپنا پرانا بغض اور کینہ نکالنا تھاـ حالانکہ وہ غریب تھا اور پاکستان تحریک انصاف غریبوں کی پارٹی نہیں ہے ـ جلسے شروع کئے گئے کرک کا جلسہ شیڈول میں نہیں تھاـ خان نے زبردستی کرک کو شیڈول میں ڈال دیاـ کہ وہاں جلسہ لازمی ہوگاـ نعیم الحق کو پتہ تھا کہ خان کیوں اتنی  ضد  کر رہے ہیں ـ کیونکہ اسے خان نے بتایا تھا کہ میں نے اپنا پرانا بدلہ چکانا ہے ـ جس کے لئے اس نے پریکٹس بھی کی تھی ـ کئی جلسوں میں ساتھ والوں کو کہنیاں ماری تھیں ،ـ فضل الرحمان کی ایک ویڈیو بھی اس حوالے سے دیکھی تھی ـ جس میں وہ اپنے ایک چاہنے والے کو خود سے دور کرتے ہیں ـ مگر وہ دور نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ وہ تو تھپڑ مارناچاہتے تھے یعنی اینٹ کا جواب پتھر سے دینا مقصود تھاـ۔
پھر وہ دن بھی آگیا جب عمران خان کرک آگئے ـ حالانکہ انتظامیہ نے جلسہ کی اجازت نہیں دی تھی ـ پھر بھی سیکورٹی کو بالائے طاق رکھ کر وہ اسٹیج کے نزدیک پہنچ گئےـ جہاں پر نعیم الحق اور فواد چوہدری نے شاہد خٹک کو عمران خان کے ساتھ کنٹینر پر چڑھنے کا کہاـ جو کہ عمران خان چاہتے تھے ـ اور یوں پھر عوام نے دیکھا کہ خٹک قوم کے نوجوان سے عمران خان نے اسٹیج پر چڑھتے ہوئے اپنا پرانا بدلہ چکا لیا اور اپنا کینہ پورا کرلیا۔۔۔

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply