تلنگانہ ‘ 2019 انتخابات کیلئے بی جے پی کی تیاریوں میں تیزی

بی جے پی نے سارے تلنگانہ میں اپنی بوتھ لیول کمیٹیوں کی تنظیم جدید اور دوبارہ تشکیل کا عمل پوری شدت اور جارحانہ تیور کے ساتھ شروع کردیا ہے ۔ یہ سب کچھ 2019 کے اسمبلی انتخابات سے بہت قبل کیا جا رہا ہے ۔ خاص طور پر ان تیاریوں میں بی جے پی کے قومی صدر امیت شاہ کے دورہ تلنگانہ کے بعد مزید شدت اور تیزی پیدا کردی گئی ہے ۔ تلنگانہ کے 119 اسمبلی حلقوں میں بی جے پی کو صرف پانچ پر نمائندگی حاصل ہے جبکہ ریاست کے لوک سبھا حلقوں میں اسے صرف ایک حلقہ سکندر آباد سے کامیابی مل سکی تھی جہاں سے موجودہ وزیر لیبر بنڈارو دتاتریہ منتخب ہوئے تھے ۔

پنڈت دین دیال اپادھیائے کاریہ وستار یوجنا کے تحت بی جے پی تلنگانہ کے تمام تقریبا 32,000 پولنگ بوتھس کیلئے بوتھ لیول کمیٹیوں کی تشکیل عمل میں لائی جا رہی ہے ۔ امیت شاہ کے دورہ تلنگانہ کے بعد ریاست میں بوتھ لیول کمیٹیوں کی تشکیل اور مقامی عوام سے بات چیت اور تبادلہ خیال کا عمل 29 مئی کو شروع کیا گیا تھا ۔ پارٹی کو امید ہے کہ وہ یہ کام جون کے مہینے ہی میں مکمل کرلے گی ۔ بی جے پی کے رکن اسمبلی رامچندرراو نے ان تفصیلات سے آگاہ کیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کی جانب سے اب تک 20,000 بوتھس کیلئے کام پورا کیا جاچکا ہے اور باقی بوتھس کے تعلق سے آئندہ چند دنوں میں یہ کام مکمل ہوجانے کی امید ہے ۔ رامچندر راو کا کہنا تھا کہ اس پروگرام کے تحت بی جے پی کے کارکن گھروں تک پہنچ رہے ہیں اور عوام کو مرکز کی نریندر مودی حکومت کی جانب سے شروع کی گئی مختلف اسکیموں اور پروگراموں سے بھی واقف کروایا جا رہا ہے ۔

پارٹی کے ایک ترجمان کرشنا ساگر راو کا کہنا تھا کہ سارے تلنگانہ بھر میں پارٹی کے تقریبا 80,000 کارکن پارٹی کے اس منصوبہ پر کام کر رہے ہیں تاکہ پارٹی کو بوتھ کی سطح پر مستحکم اورمضبوط کیا جاسکے ۔ ان کا کہنا تھا کہ انتہائی بڑے پیمانے پر یہ کام کیا جا رہا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ بوتھ کی سطح پر پارٹی کو مستحکم بنایا جاسکے اور مقامی یونٹوں میں نئی جان ڈالی جاسکے ۔ کرشنا ساگر راو کا کہنا تھا کہ بی جے پی کی ساری کوشش یہی ہوگی کہ آئندہ اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے آئندہ حکومت خود اپنے بل پر بنائی جاسکے ۔ پارٹی انتخابات میں تنہا مقابلہ کرے گی اور اپنی حلیف جماعت تلگودیشم پارٹی سے آئندہ تلنگانہ اسمبلی انتخابات کیلئے کوئی مفاہمت یا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا ۔ کرشنا ساگر راو کا کہنا تھا کہ بی جے پی نے تقریبا تین دہوں تک تلگودیشم پارٹی کے ساتھ اتحاد کیا تھا ( اس وقت متحدہ ریاست آندھرا پردیش تھی ) ۔ اس اتحاد کے نتیجہ میں آج تلنگانہ میں بی جے پی کو کمزور ہونا پڑا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی نے اپنی روایات کے مسائل برداشت کئے ہیں۔ تلگودیشم پارٹی کے ساتھ اتحاد کی وجہ سے بی جے پی کو سیاسی طور پر بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ تلگودیشم نے ابتداء ہی سے بی جے پی کے مفادات کو نقصان پہنچایا ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ تلگودیشم کے ساتھ اتحاد کے نتیجہ میں بی جے پی کے کارکنوں اور لیڈر میں مایوسی تھی ۔ پارٹی کے لیڈر میں جو ش و جذبہ اس سوچ کے نتیجہ میں ختم ہوگیا تھا کہ وہ کتنی بھی محنت کرلیں تمام زمروں کے انتخابات میں وہ حصہ نہیں لے سکتے ۔ چاہے یہ مجالس مقامی کے انتخابات ہوں ‘ اسمبلی انتخابات ہوں یا پھر پارلیمنٹ کے انتخابات ہوں۔بی جے پی کے قائدین کی اس رائے کے باعث تلگودیشم پارٹی کے قائدین بھی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ بی جے پی شائد اپنے حلقہ اثر کو وسعت دینا چاہتی ہے ۔تاہم پارٹی کے کچھ قائدین کا یہ احساس ہے کہ ابھی کسی بھی پارٹی کے ساتھ اتحاد یا مفاہمت کی بات کرنا قبل از وقت ہوگا کیونکہ سیاسی جماعتوں کے مابین اتحاد اور مفاہمت اسی وقت ہوتی ہے جب انتخابات کا موسم ہوتا ہے ۔ فی الحال ایسا کوئی موسم نہیں ہے ۔ پارٹی کے ایک سینئر لیڈر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ حقیقت ہے کہ تلگودیشم کے ساتھ اتحاد کے نتیجہ میں بی جے پی ہمیشہ چھوٹی پارٹی رہی ہے اور اسے مفاہمت کے نتیجہ میں معمولی حصہ داری ہی ملتی رہی ہے ۔ اب بحیثیت ایک پارٹی اس کے قائدین شاید یہ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں بھی ریاست میں مستحکم اور طاقتور ہونے کی ضرورت ہے ۔ اگر کوئی پارٹی ایسی سوچ رکھتی ہے اور اس پر کام کرتی ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ 2019 میں کیا حالات ہوتے ہیں اور اس وقت کے سیاسی حالات کے مطابق کوئی فیصلہ ہوسکتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جہاں تک ریاست میں برسر اقتدار تلنگانہ راشٹرا سمیتی کا سوال ہے لوک سبھا میں حلقہ نظام آباد کی نمائندگی کرنے والی پارٹی کی رکن و چیف منسٹر کے چندر شیکھر راو کی دختر کے کویتا کا کہنا ہے کہ ریاست کے عوام ٹی آر ایس کے ساتھ ہیں اور اگر ریاست تلنگانہ میں فوری طور پر بھی اسمبلی انتخابات کروائے جاتے ہیں تو ان کی پارٹی کو 100 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوگی ۔ کویتا کی یہ پیش قیاسی در اصل ایک حالیہ سروے کی مطابقت میں ہے ۔ یہ سروے تلنگانہ راشٹرا سمیتی کی جانب سے حال ہی میں کروایا گیا تھا ۔ کویتا کا کہنا تھا کہ ریاست کے عوام نے اس سروے میں ہمارے لئے حوصلہ افزا رد عمل ظاہر کیا ہے ۔ ریاست میں اقتدار سنبھالنے کے بعد شاید ہی کسی انتخاب میں پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہو ۔ بی جے پی کا حوالہ دئے بغیر ان کا کہنا تھا کہ عوام ہمارے ساتھ ہیں ۔ چاہے کوئی بھی پارٹی آئے اور مہم چلائے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور مہم چلانا ہر پارٹی کا حق ہے ۔

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply