سر سید ڈے کی تقریبات کی تیاریاں اپنے عروج پر ہیں۔ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی علی گڑھ کے طلبہ اور اساتذہ موجود ہیں، وہ ان پروگراموں میں بھرپور جوش و جذبے کے ساتھ شرکت کرتے ہیں۔ علیگ برادری کے لیے سر سید صرف ایک شخصیت نہیں بلکہ ایک جذبے اور عقیدت کا استعارہ ہیں۔ مادرِ علمی سے سب کو محبت ہوتی ہے، لیکن علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ اس سے روحانی طور پر وابستہ نظر آتے ہیں۔ اگرچہ سر سید کی بعض تحریروں سے اختلافِ رائے کیا جاتا ہے، خصوصاً ان کی کتاب اسبابِ بغاوتِ ہند کے حوالے سے یہ کہا گیا کہ وہ مسلم اشرافیہ کے مفادات کی ترجمانی کر رہے تھے، تاہم اس موضوع پر بہت کچھ کہا جا چکا ہے اور آئندہ بھی کہا جاتا رہے گا، کیونکہ دنیا کا کوئی بڑا انسان تنقید سے مبرا نہیں ہوتا۔ اختلافِ رائے کا ہونا فطری امر ہے، کیونکہ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں، اس کا تجزیہ ہر دور میں مختلف زاویوں سے کیا جاتا ہے۔ البتہ سر سید کے ناقدین بھی اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ انہوں نے مغربی علوم کا گہرا مطالعہ کیا اور غور کیا کہ ہندوستان ان سے کیا سیکھ سکتا ہے۔ انہوں نے نہ صرف علم و فکر کے دروازے وا کیے بلکہ اپنے عہد کے اہم ترین سماجی و فکری مسائل پر جرات مندانہ انداز میں قلم اٹھایا۔ ایک اندازے کے مطابق سر سید کی شائع شدہ تحریریں چھ ہزار صفحات پر مشتمل ہیں، اگرچہ ان کا کچھ حصہ محفوظ نہیں رہا۔ جو کچھ دستیاب ہے، وہ بھی اس قدر وقیع ہے کہ اس پر کئی تحقیقی کتابیں مزید لکھی جا سکتی ہیں۔
سر سید احمد خان جس دور میں پیدا ہوئے وہ برصغیر میں مسلم سیاسی طاقت کے زوال کا زمانہ تھا۔ ١٧ اکتوبر ١٨١٧ کو ان کی پیدائش دہلی میں ہوئی۔ ابتدائی طور پر انہیں عربی اور روایتی تعلیم دی گئی۔ ان کے والد میر متقی دربار سے پینشن لیتے تھے، لیکن والد کے انتقال کے بعد ١٨٣٨ میں وہ پینشن بند ہوگئی، جس کے بعد سر سید نے دہلی کی ایک عدالت میں کلرک کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی نوکری کی وجہ سے وہ بعض حلقوں کی تنقید کا نشانہ بھی بنے۔ سر سید نہایت مطالعہ شوقین، علم دوست اور فعال شخصیت کے حامل تھے۔ انہوں نے دہلی کی قدیم عمارتوں کا مطالعہ کیا اور اس تحقیق کا نتیجہ آثارالصنادید کی صورت میں سامنے آیا، جو آج بھی ماہرینِ آثارِ قدیمہ کے لیے ایک اہم دستاویز سمجھی جاتی ہے۔ اس کتاب کو غیر معمولی پذیرائی ملی، یہاں تک کہ اس کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ کیا گیا اور سر سید کو رائل ایشیاٹک سوسائٹی لندن کا رکن منتخب کیا گیا۔ ١٨٥٧ میں جب ہندوستانیوں نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کی تو سر سید اس وقت بجنور میں ملازم تھے، جہاں انہوں نے کئی انگریز افسروں اور ان کے اہلِ خانہ کی جانیں بچائیں۔ بغاوت کی ناکامی کے بعد انگریزوں نے خصوصاً مسلمانوں کو نشانہ بنایا، تو سر سید نے دانش مندی سے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ محاذ آرائی کے بجائے تعلیم، معیشت اور سماجی ترقی پر توجہ دیں۔ انہوں نے اسبابِ بغاوتِ ہند تصنیف کی تاکہ انگریزوں اور ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان غلط فہمیاں دور ہوں۔ اسی مقصد کے تحت انہوں نے علی گڑھ میں کیمبرج یونیورسٹی کے طرز پر ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا اور رسالہ تہذیب الاخلاق کے ذریعے مسلمانوں میں بیداری پیدا کی۔ وہ سمجھتے تھے کہ مغربی علوم اور تہذیب کی مثبت باتوں کو اپنانا ہی ترقی کا راستہ ہے، اور انگریزوں کے ساتھ براہِ راست سیاسی محاذ آرائی نقصان دہ ہوگی۔ یہی وجہ تھی کہ جب کانگریس کی بنیاد رکھی گئی تو انہوں نے بدرالدین طیب جی کو خط لکھ کر اپنے اختلاف کا اظہار کیا۔ قومی تاریخ نگاری میں سر سید کے اس خط کو منفی طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ دُکھ کی بات یہ بھی ہے کہ پڑوسی ملک سر سید کو اپنا بانی مانتا ہے، حالانکہ وہ پاکستان کے قیام سے تقریباً نصف صدی قبل اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔ اگر سر سید کی کانگریس جماعت پر تنقید کو مثبت طور پر دیکھا جائے تو وہ دراصل اکثریت پر مبنی سیاست کے خطرات کی طرف اشارہ تھی۔ انتخابات کے ذریعے جب حکومت سازی ہوتی ہے تو اکثر اقلیتوں کے مفادات کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے، کیونکہ جس قوم یا ملت کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، وہی حکومت سازی کے امور کو طے کرتی ہے۔ اسی بات پر ڈاکٹر امبیڈکر نے بھی اپنے دور میں تنقید کی اور کہا کہ اکثریت پر مبنی حکومت سازی کا مطلب یہ نہیں کہ اقلیتوں کے مفاد کو فراموش کر دیا جائے یا حکومت مطلق العنان بن جائے۔ بابا صاحب بھی جمہوریت میں دبے، کچلے اور محکوم طبقات کے تحفظات کے خواہاں تھے۔ سر سید نے بھی اپنے دور میں اقلیتوں کے مفاد کے تحفظ کے جذبے سے طیب جی کو خط لکھا تھا۔
کئی مواقع پر سر سید کو کانگریس تحریک پر تنقید کے باعث علیحدگی پسند سمجھا جاتا ہے، حالانکہ یہ تاثر درست نہیں ہے۔ انہوں نے بار بار مذہبی ہم آہنگی اور قومی اتحاد کی بات کی۔ سر سید کے ان الفاظ پر غور کیجیے: “ہندوستان میں دو قومیں آباد ہیں — ہندو اور مسلمان۔ میرا خیال ہے کہ اگر ایک قوم ترقی کرے اور دوسری پیچھے رہ جائے تو ہندوستان کی حالت کبھی بہتر نہیں ہو سکتی، اور وہ ایک آنکھ والے انسان کی مانند ہو جائے گا۔ لیکن اگر دونوں قومیں شانہ بشانہ ترقی کریں تو ہندوستان کا نام عزت و احترام سے لیا جائے گا، اور وہ ایک آنکھ والی، بکھرے بالوں والی، بے دانت بڑھیا کہلانے کے بجائے ایک خوبصورت اور دلکش دلہن بن جائے گا۔” سر سید دراصل ہندوؤں اور مسلمانوں میں بگاڑ پیدا نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ ان کی کوشش تھی کہ اقتدار اور ترقی میں سب کو برابر کا حصہ ملے، کیونکہ سب کی ترقی ہی ملک کی ترقی ہے۔ آج کی سیاست میں یہ پیغام اور بھی اہم ہو گیا ہے، مگر افسوس کہ اقتدار میں بیٹھے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کمزوروں اور محروموں کو مزید دبا کر ملک کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ کچھ فرقہ پرستوں کی یہ خام خیالی ہے کہ نفرت کا زہر پھیلا کر اور مذہب کے نام پر ووٹ حاصل کر کے ملک کو طاقتور بنایا جا سکتا ہے، مگر اقتدار کے نشے میں چور لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر کشتی میں کہیں چھید ہو جائے اور اسے ٹھیک کرنے کی کوشش نہ کی جائے تو پوری کشتی ڈوب جاتی ہے۔ سر سید کی تحریک کا پیغام یہی ہے کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی، تعلیم کی ترقی اور سماجی و مذہبی اصلاح ہی ملک کی ترقی کا راستہ ہیں۔ کئی بار ان کے مذہبی عقیدے پر بھی سوال اٹھائے گئے ہیں، ان پر دین سے بھٹکنے کا الزام بھی لگایا گیا ہے، مگر وہ دین و مذہب کے مخالف نہیں تھے بلکہ ان کا ماننا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ مذہب میں غیر ضروری رسومات اور جمود کی دھول جم جاتی ہے، جو انسان کے ذہن کو قید کر لیتی ہے۔ سر سید چاہتے تھے کہ انسان غور و فکر کرے اور دین اور فطرت کے بیچ ہم آہنگی پیدا کرے۔ ان کا زور تھا کہ عقل و دانش کی روشنی اور عوامی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے سماجی اور دینی اصلاح کی جائے تاکہ انسانیت آگے بڑھتی رہے۔
Facebook Comments


بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں