عورت کی تضحیک کا کلچر

مشرقی روایات میں سے ایک روایت عورت کا احترام بھی ہے۔ عورت ماں ہویا بیٹی، بیوی ہو یا بہن ….اس کا ہر روپ قابلِ احترام ہے یہی وہ تعلیم ہے جو ہمیں قرآن اور سنت سے ملتی ہے۔ اسلامی تہذیب ہو یا مشرقی روایت، ان کا خمیر اسلامی تعلیمات ہیں جو قرآن وسنت پہ مشتمل ہے۔ قرآن مجید نے سورة الاحزاب میں بد قماش اور اوباش لوگوں کے لئے سخت سزا تجویز کی ہے وہ بھی اس پس منظر میں ہے کہ وہ عفت مآب خواتین پہ تہمت و بہتان لگاتے یا پھر گلی کوچوں میں کھڑے ہو کر نازیبا جملے کستے اور ان کے جسمانی اعضاءکا ننگی اور بھوکی نظروں سے جائزہ لیتے تھے۔
یہ بات حوصلہ افزاءاور قابلِ تحسین ہے ہمارے معاشرے میں یہ قدر زندہ ہے کہ ا گر کوئی شخص کسی عورت کو تضحیک کا نشانہ بناتا یا اسے غلط نام سے پکارتا ہے تو پاکستان کی اکثریت سراپا احتجاج بن جاتی ہے اور اس کی اس حرکت کی بالا جماع مذمت کی جاتی ہے ۔
یہ مذمت بلا تفریق جنس ، گروہ اور نسل کے ہوتی ہے ۔ پاکستان کے سیاسی کلچر میں بہت عرصے سے بعض سیاستدان اپنی بیمار ذہنیت اور پست اخلاقیات کی وجہ سے مخالف جماعت کی عورتوں کو اپنی بے ہودہ گفتگو کے ذریعے نشانہ بناتے رہے ہیں لیکن خود ان کی اپنی جماعت کے لوگوں نے ان کی اس گفتگو کو پسند نہیں کیا۔ شیخ رشید احمدنے اپنے عہد شباب میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے لئے ایسی زبان استعمال کی جس وجہ سے انہیں کلاشنکوف کیس میں کچھ سال جیل میں گزارنا پڑے جہاں انہوں نے ”فرزند پاکستان“ قلمبند فرمائی۔ یہی وہ دور تھا جب نواز شریف صاحب سیاست سیکھ رہے تھے۔ ملک میں ٹکراﺅ کی سیاست اپنے عروج پہ تھی۔ بے نظیر بھٹوملک کے لئے سکیورٹی رسک قرار دی جا چکی ۔ اس لئے نواز شریف صاحب نے بھی کبھی شیخ رشید احمد کو ایسے بیانات سے منع نہیں کیا تھا۔ خیر! وہ اب بھی منع نہیں کرتے لیکن اتنا ضرور ہے کہ اب وہ خود محتاط ہو گئے ہیں کہ کسی کے بارے میں خواہ مخواہ بیانات جاری نہیں کرتے۔
یہ بھی ایک اچھی مثال ہے جس پہ میاں صاحب کی تحسین ہونی چاہئے اگر وہ اپنی ذات کے علاوہ اپنے معزز وزراءاور اراکین کو بھی ہر حال میں شائستہ اور مہذب زبان استعمال کرنے کی تعلیم دیتے تو پاکستان کاسیاسی ماحول مزید بہتر ہو سکتا تھا۔
مسلم لیگ کے ذمہ داران عمران خان یا کسی اور سیاستدان پہ رکیک حملے کرتے ہیں تو وہ اس لئے سن لیئے جاتے ہیں کہ ان کا رویہ بھی ایسا ہی ہوتا ہے (اگر چہ یہ بھی کوئی اعلیٰ مثال نہیں ہے) لیکن خواتین پہ رکیک حملے وڈیرانہ اور جاگیردارانہ ذہنیت کی عکاس ہیں کہ معاشرے میں بس وہی خواتین قابلِ احترام ہیں جو ہماری خواتین ہیں۔ان کا احترام سب پہ لازم اور فرض ہے ۔ ان کے علاوہ خواتین جنسِ بازار ہیں جو چاہے جس وقت چاہے ان کی بولی لگا سکتا ہے۔
دورِ طالب علمی میں پروفیسر ساجد میر کی تقریر محترمہ بے نظیر بھٹو سے متعلق سنی تھی، وہ تقریر کیا تھی آپ اس سے اندازہ لگا لیں،محترمہ کی مخالف خواتین بھی اس کانفرنس میں ان کی حمایت اور پروفیسر ساجد میر کی مذمت پہ مجبور ہو گئی تھیں ۔ میں نے زندگی میں پہلی اور آخر ی بار ایک عالمِ دین اور مذہبی راہنما کو ایسی ….گفتگو کرتے سنا تھا۔ وہ تقریر تھی یا چاٹ مصالحے کی ریڑھی …. میرے دونوں کانوں سے صرف دھواں ہی نہ نکلا ، میری آنکھیںبھی آنسوﺅںسمیت زمین میں گڑ گئیں۔ شاید زمانہ جاہلیت میں ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے باپ اپنی بیٹیوں کو زمین میں زندہ درگور کرنے پر مجبور ہوئے تھے ۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جب بھی بے لگام سیاستدانوں کا ذکر ہو گا ان میں خواجہ آصف (وزیردفاع) کانام چنیدہ اسمائے گرامی میں سے ہو گا۔ سیاست کے میدان اور اقتدار کی راہداریوں میں جن کی زندگی بسر ہوئی ان میں ایک خواجہ آصف بھی ہیں ۔سنا ہے ان کے والد ایک مہذب اور شریف سیاستدان تھے۔ سیاست ان کا خاندانی ”پیشہ“ ہے، اتنے تجربہ کار سیاستدان کی زبان کے پھسلنے کا یہ عالم ہے کہ ابھی سال بھی نہیں ہوا ہو گا کہ انہوں نے شیریں مزاری کے متعلق ”اول فول“ فرمایا تھا اور اس پہ باقاعدہ ”معذرت“بھی کی تھی بلکہ معافی کے انداز میں معذرت کی تھی۔ اگر خواجہ آصف معافی اور معذرت کو اپنی عادت بنا لیں تو نواز شریف صاحب کو چاہئے کہ انہیں وزارتِ دفاع سے علیحدہ کر کے مسلم لیگ میںکہیں کھڈے لائن لگا دیں۔ ان کا جرم نہال ہاشمی سے کسی طرح بھی کم نہیں ہے۔ نہال ہاشمی کا حملہ جمہوریت اور جمہوری اداروں پہ ہے تو خواجہ آصف صاحب کا حملہ چادراور چاریواری پہ ہے ۔ اُس کے برے اثرات جلد نظر آ رہے ہیں تو اس کے اثرات دیرپا اور دوررس ہیں۔حکومت نے کرپشن اور بدعنوانی سے اپنی ساکھ کو تباہ کر ہی لیا ہے۔اب شرم و حیاءرہ گئی تھی وہ بھی رخصت ہونے لگی ہے۔کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیاءہوتی ہے۔

Facebook Comments

صاحبزادہ امانت رسول
مصنف،کالم نگار، مدیراعلیٰ ماہنامہ روحِ بلند ، سربراہ ادارہ فکرِ جدید

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply