گڑیا

اس کا نام بشیرا تھا ، غریب آدمی کے نام بھی اسکی خواہشوں کی طرح ادھورے ہی ہوتے ہیں . امیر آدمی کے کتے بلی کے نام بھی کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ پہلی بار تو سننے والا اس واہمے کا شکار ہو جاتا ہے کہ یہ شاید کسی انسان کا نام ہے . اب واقعی غلط فہمی ہے یا خوش فہمی یہ کون سمجھائے کہاں اس بلی کتے کے ٹھاٹھ باٹھ نرم بستر ، عمدہ غذا اور ڈھیر سارا لاڈ پیار اور کہاں بان کی چارپائی ، خشک روٹی اور دن بھر کی دھتکار .
میلی لال رنگ کی جیکٹ پہنے وہ صبح سے ٹرین کا منتظر تھا آج اس نے اپنی گڑیا سے وعدہ کیا تھا کہ اس کے لیے نیا اسکول بیگ لائے گا اس انتظار کے وقت میں وہ خیالی پلاؤ پکا رہا تھا کہ کتنے مسافروں کا سامان اٹھانے کے بعد اس کے پاس اتنے پیسے اکٹھے ہو جائیں گے کہ راشن کے ساتھ ساتھ وہ سکول بیگ بھی خریدسکے گا۔ وہ اپنے حسا ب کتاب میں ٹھیکیدار کا کمیشن نہیں بھولا تھا کیونکہ کمیشن نہ دینے کی صورت میں نوکری سے ہاتھ دھونا یہ تو اسے کسی صورت میں بھی گوارا نہیں تھا۔ ٹھیکیدار کوتوبہت قلی مل سکتے تھے لیکن اس کے پاس تو روزگار کا کوئی اور وسیلہ نہیں تھا۔
وہ انہی خیالات کے تانوں بانوں میں الجھا ہوا تھا کہ اچانک ٹرین کی وسل سنائی دی وہ اپنے حساب کتاب کو ادھورا چھوڑ کردوسرے قلیوں کی طرح بے ہنگم ٹرین کی طرف بھا گا۔
چشمے والے بابو کے استفسار پر اس نے کہا کہ صاحب جو آپ کو مناسب لگے آپ وہ مزدوری دے دیجئے گا۔ مول تول میں وہ بابو جی کو کھونا نہیں چاہتا تھا کیونکہ تھوڑی ہی دیر میں بیسیوں قلی اس بابو جی کے گرد منڈلانے لگتے۔دو بھاری بھر کم بیگ سر پر لادنے اور دو بیگ بغل میں لٹکا نے کے بعد ایک دفعہ تو اسکے قدم لڑکھڑا سے گئے لیکن یہ تو اسکا روز کا ہی معمول تھا۔ بڑھتی ہوئی عمر نے کمر جھکا دی تھی لیکن پیٹ کی آگ بجھا نے کے لئے وہ روز و شب جتا ہوا تھا۔ پیر ہویا منگل ، پبلک ہالیڈے ہو یا نیشنل ہالیڈے اس کے لئے تو ہر روز ایک جیسا ہی تھا۔چشمے والے بابوکے پیچھے پیچھے تیز تیز قدم چلتا آخر وہ پارکنگ میں جا پہنچا۔ مسافت کافی زیا دہ تھی لیکن اسکے لئے طمانیت کا باعث تھی کیونکہ اجرت غیر معمولی ملنے کی توقع تھی۔ ٹمٹماتی گاڑی سے باوردی ڈرائیورنے جس پرتپاک طریقے سے بابوجی کا استقبال کیا تھا اس سے تویہی لگ رہا تھا کہ بہت کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق ہو گا اور کچھ سوچ کر اسکی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ سامان ڈگی اور بیک سیٹ پر گھسیڑنے کے بعد وہ سائڈ مرر کے پاس جا کھڑا ہوا بابو جی نے شیشہ نیچے کیا اور جیب سے ایک کڑکڑاتا 20 کا نوٹ اس کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔
ایک دفعہ تو اسکی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا۔ اس نے رندھی ہوئی آواز سے کہا بابوجی ۔۔۔۔اسکی بات سنے بغیر ہی بابو جی نے سخت لہجے سے کہا میں نے تمہیں کچھ زیادہ ہی اجرت دے دی ہیں۔ تم لوگ تو بس یہ چاہتے ہو کہ ایک کو ہی لوٹ کر سارا دن ہڈ حرامی کریں۔اور اسکے ساتھ ہی گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی اسکی نگاہوں سے دور جانے لگی۔
بشیرے نے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا ،ایک نظر 20 کے نوٹ پر ڈالی اورکچھ آنسو اسکے رخساروں پر ڈھلک گئے۔۔۔۔

Facebook Comments

محمد کمیل اسدی
پروفیشن کے لحاظ سے انجنیئر اور ٹیلی کام فیلڈ سے وابستہ ہوں . کچھ لکھنے لکھانے کا شغف تھا اور امید ھے مکالمہ کے پلیٹ فارم پر یہ کوشش جاری رہے گی۔ انشا ء اللہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply