ڈاکٹر نیتو، مظلوم اقوام کا جری راہنما

جیل میں تاریکی ہے… خوف کا احساس بھی عیاں ہے.. مگر پتہ نہیں کیوں اسیر بے فکر بیٹھا ہے شاید وہ کچھ لکھ رہا ہے… جیل کا عملہ اسے ایسا کرنے سے روک رہا ہے لیکن وہ پھر بھی چھپ چھپ کے کچھ لکھ رہا ہے… اسیر خانے میں مکمل سکوت ہے.. اس اندھیرے گوشے میں ایک تاریک الوطن شخص بیٹھا ہے.. زمین یخ بستہ ہے… شاید اس قیدی کو گھر کی یاد بھی آتی ہے مگر کیا وجہ ہے کہ جب بھی گھر کی یاد آتی ہے اسے وہ سرزمین یاد آجاتی ہے جہاں اس کے بھائی، اس کے وطن کے لوگ استحصال کی چکی میں پس پس کر زندہ لاشوں کی طرح افق کی جانب دیکھے جاتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ کوئی آئے گا اور ان کو اس ظلم کے جنہم سے آزاد کرائے.

یہ افریقہ کا سپوت ہے جسے صرف احتجاج کرنے کی پاداش میں سات سال قید کی سزا ملی ہے… یہ صرف ایک طالبعلم ہے.. جوانی کی عمر اور یہ سات سال کی اذیت ناک تنہائی کی سزا… مگر میں دیکھ سکتا ہوں کہ اس کے حوصلے ناقابلِ شکست ہیں.. وہ ان ادنیٰ سزاوں کو اہمیت نہیں دے رہا.. اس کی منزل بہت آگے ہے.. یہ سزا تو چھوٹی سی رکاوٹ کے سوا کچھ بھی تو نہیں ہے.

افریقہ ایک لاوارث خطہِ زمین تھا جس کا کوئی والی وارث نہیں تھا. جس یورپی سامراجی کا دل کرتا وہ آکر اپنی مرضی سے جس جگہ چاہتا قابض ہوجاتا. اور فرزندانِ وطن غلاموں کی طرح بلکہ غلام بن کر ان کے لیے کام کرتے. گورا سامراج اس قدر بھیانک تھا کہ الجزائر میں دس لاکھ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا، کانگو میں پندرہ ملین لوگوں کو صفحہ ہستی سے نسیت و نابود کردیا گیا یہ صرف چند مثالیں ہیں ورنہ گنی بساو، موزمیبق کا قتل عام بھی مادرِ وطن کے بچوں کو بھلا نہیں. وطن مجبور تھا بے کس تھا، ظلم و جبر بے تحاشا تھا، بیسویں صدی کے وسط تک افریقہ کا کوئی علاقہ بھی خود مختار نہ تھا. وسطی افریقہ اور شمال پہ فرانس قابض تھا، مصر اور جنوب کا تمام کا تمام علاقہ برطانوی زیرِ اثر تھا، جنوب مشرق اور جنوب مغرب میں پرتگیز سامراج منہ کھولے غلاموں کا خون پی رہا تھا، ایتھوپیا اٹلی کے قبضے میں تھا، کانگو بیلجئیم، کیمرون جرمنی اور فرانس کے زیرِ جبر تھا اور گنی استوائی ہسپانیہ کے قبضے میں تھا۔ پورے براعظم میں ایک قدم زمین بھی ایسی نہ تھی جس پر سامراجیوں کا طوطی نہ بولتا ہو.

جیسے کہتے ہیں نا کہ کسی نظام میں یا چیز میں تباہی کے آثار اس کے اندر کے تضادات کی صورت میں ظاہر ہوتے اور پھر وہ شکست و ریخت کا شکار ہوکر مٹ جاتی ہے، ویسے ہی انگولہ میں ہوا۔ پرتگیزی سامراج نے انگولائی اور اپنے افریقی مقبوضات سے طلبہ کو سکالر شپس پہ پڑھنے کے لیے بلایا۔ ان طلبہ میں ہمارے بڑے کماندار بھی شامل تھے، سامراج کا مقصد اس نسل کو اپنا مطیع اور نظریاتی طور پہ اپنا باجگزار بنانا تھا. مغرب سے مرعوب لوگوں کی کھیپ جو مادرِ وطن کو طویل عرصے تک سامراج کا غلام رہنے کا جواز مہیا کرے. ایملکار کیبرال جوناس دوس سانتوس اور آگستو نیتو بھی ایسے ہی لوگوں میں تھے جو اصل حقیقت سے روشناس پرتگال میں جاکر ہوئے کہ ایسا ملک جو وسائل کے لحاظ سے بانجھ ہے مگر اتنا ترقی یافتہ کیوں ہے؟ پھر آشکار ہوا کہ یہ دولت کی فراوانی اور دیو قامت عمارتیں نوآبادیات سے حآصل کیے گئے وسائل سے تعمیر ہوئی ہیں.
جیسے فینن لکھتا ہے ” دیسی دانشور جب مغرب میں ہوتا ہے اور تعلیم حاصل کررہا ہوتا ہے تو اسے انسانی اقدار اور مغربی تہزیب کے بہترین پہلووں سے روشناس کرایا جاتا ہے اور لاشعوری طور پر باور کرایا جاتا ہے کہ سامراج بہت مہزب اور شائستہ ہے اور ہمارا دیسی انسان مرعوب بھی ہوجاتا ہے مگر جب وہ اپنے مادرِ وطن میں آتا ہے تو اسے حقائق کا تب سامنا کرنا پڑتا ہے. بدحالی۔ غیر انسانی سامراجی طریقے اسے منہ چڑا رہے ہوتے ہیں. اس کا لوگوں سے تعلق قائم ہوتا ہے تو انفرادیت پسندی کا سارا اثر ختم ہونے لگتا ہے. اب دانشور کو اصل زندگی کا سامنا ہوتا ہے اور ایک نیا انسان وجود میں آتا ہے جو منافقت کا شدید مخالف ہوتا ہے”۔

ایسا ہی ہمارے لیڈر آگستو نیتو کے ساتھ ہوا۔ 17اگست 1922 کو بنگو صوبے میں پیدا ہونے والا بچہ ایک پادری اور پرائمری سکول کی استانی کا فرزند تھا. بچپن سے دکھی انسانیت کی خدمت کا جذبہ دل میں موج زن تھا، پس ڈاکٹر بننے کو زندگی کا مقصد جانا۔ انگولہ میں کوئی میڈیکل کالج نہیں تھا اسی لیے ثانوی تعلیم لوانڈا سے حاصل کی اور پرتگیز انگولین صحت کے محکمے کا ملازم ہوگیا. چرچ کی جانب سے 1948 میں سکالر شپ ملی تو طب کی مزید تعلیم کے لیے جامعہ لزبن کا رخ کیا. وہاں ہمارے راہنما کی ملاقات ایملکار کیبرال( گنی بساو) اور جوناس دوس سانتوس( موزمبیق) سے ہوئی اور پھر یہ ملاقات دوستی اور نظریاتی رفاقت میں بدل گئی. نوآبادیات کے طلبہ نے سالازار کی مطلق العنان حکومت کے خلاف مظاہرہ کیا تو ہمارے راہنما کو گرفتار کرلیا گیا، یہ پہلی گرفتاری تھی. اس کے بعد شاعری کا پہلا مجموعہ 1948 میں ہی شائع ہوا. افریقی پرتگیز نوابادیات کے طلبہ کے ساتھ مل کر افریقی ثقافتی سوسائٹی برائے ردِ سامراج بنائی۔ اس کی پاداش میں ہمارا راہنما سات سال کے لیے سلاخوں کے پیچھے چلا گیا، مگر وہاں سے بھی جدوجہد کا سلسلہ جاری رکھا. 1956 میں پاپولر موومنٹ فار لیبریشن آف انگولہ میں شمولیت اختیار کی، یہ تنظیم کمیونسٹ پارٹی آف انگولہ اور پارٹی فار یونائٹیڈ سٹرگل آف افریقن پیپل ان انگولہ کے انضمام سے وجود میں آئی اور حقیقی آزادی کے راستے کی راہی تھی، ایسی آزادی جو سامراجی گماشتگی جیسی غلاظت سے پاک ہو.

1958 میں ڈاکٹری مکمل کی اور وطن واپسی کی راہ اختیار کی. دارالحکومت لوانڈا میں ایک ہسپتال قائم کیا اور لوگوں کو مفت طبی سہولیات مہیا کرنے لگے. اس دوران لوگوں جو مریضوں کی صورت آتے تھے ان کو آزادی کا شعور دیتے اور ان کو روشن دنیا کا خواب دکھاتے جہاں کمپنیاں ان مظلوم پیارے لوگوں سے زبردستی محنت وصول نہ کریں، جہاں پرتگیزی ان کے ملک پہ قابض نہ ہوں. ایسی دنیا جس میں کوئی ان کا استحصال نہ کرے۔ لوگ ان کے گرویدہ ہوتے جاتے تھے. پھر ایسا ہوا کہ سرکار نے ان کے ہسپتال پہ چھاپا مارا اور ان کی گرفتاری کی کوشش کی. ہمارے راہنما گرفتاری سے کسی صورت خوف زدہ نہ ہوئے لیکن لوگوں کی محبت تھی کہ وہ اس گرفتاری کے خلاف سینہ سپر ہوگئے. طیش میں آکر پرتگیزی پولیس نے ان مریضوں پہ فائرنگ کردی جس سے تیس لوگوں کی موقع پہ شہادت ہوگئی اور دو سو سے زائد شدید زخمی ہوئے. ہمارے راہنما پہ پرتگیز سرکار کے خلاف لوگوں کو اکسانے کا الزام تھا. پس گرفتاری کی اور مقدمہ درج ہوگیا، انگولہ میں مظاہرے شروع ہوگئے، دوسری جانب پرتگال کی کمیونسٹ پارٹی نے پہیہ جام ہڑتال کی کال دے دی جس سے سامراج نے سنگین سزا دینے سے تو توبہ کرلی مگر جزائر کیپ ورڈی میں جلاوطن کردیا اور پھر وہاں سے لزبن کی جیل میں قید کرلیا۔ لیکن شدید عوامی دباو اور سوویت یونین کی انسان دوست پالیسیوں اور دباو کی وجہ سے جیل کی سزا کے بجائے گھریلو نظربندی میں تبدیل کردی گئی.

ہمارا کماندار 1962 میں وہاں سے فرار ہوکر مراکش آگیا. جہاں سے لیوپولڈویلی عوامی جمہوریہ کانگو کا قصد کیا. وہاں ایک انقلابی حکومت قائم تھی جس کے سربراہ شہید پیٹرس لوممبا تھے. لوممبا نے مکمل حمایت اور سپورٹ کا یقین دلایا اور پھر یہی لیوپولڈویلی ایم پی ایل اے کی گوریلا کاروائیاں کا مرکز بن گیا. سامراج نے جب دیکھا کہ لوممبا کی موجودگی خطے میں اس کے مفادات کے لیے شدید نقصان دہ ہے تو ایک گماشتے کی مدد سے پیٹرس لوممبا کو شہید کروا دیا. وہ ایک عظیم انسان اور انقلاب کی راہ میں شہادت کا درجہ حاصل کرنے والا انسانیت دوست انسان تھا. کانگو پہ مابوتو نامی سامراجی عفریت کو بیٹھا دیا گیا، جو سوامبی کا سالا تھا، یہ سوامبی انگولہ کی آزادی کی تحریک میں ردِ انقلابی کردار تھا جس نے ایم پی ایل اے اور آزادی کی تحریک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا.

اب مرکز لیوپولڈویلی سے بدل کر گھانا کو بنایا گیا، یہ نکرومہ کا گھانا مجبوروں، ناداروں، غلاموں اور پسماندہ اقوام کی آزادی کی تحریک کا حامی.
اسی دران امریکی سامراج نے پرتگیزی سامراج کو 432 ملین ڈالرز دیے تاکہ آزادی کی تحریک کو کچلا جائے. اس امداد کے پیچھے دراصل گلف آئل کے تیل کے کنوئیں تھے، جن سے سامراج خوب تیل نکال کر مہنگے داموں بیچ رہا تھا. امریکی اور پرتگیزی طیاروں نے جنگلات پہ فضائی حملے کیے اور بڑی تعداد میں آزادی کے مجاہدوں کو شہید کیا. اب پورے انگولہ میں سب سے بڑا راہنما کامریڈ آگستو نیتو کو مانا جاتا تھا. ایم پی ایل اے واحد تنظیم تھی جو قبائلیت اور مذہبی تعصب سے پرے تھی اور عوامی مسائل کا حل اور آزادی اس کا واحد مطمعِ نظر تھی. ورنہ ایف ایس این اے اور یونیٹا قبائلیت، مذہبی تعصب اور سرمایہ دارانہ موقف پہ سیاست کرتی تھیں.

جب ڈاکٹر نیتو صاحب نے دیکھا کہ سامراج کی گرفت کسی صورت کم نہیں ہورہی تو انھوں نے مختلف ممالک کے دورے کیے، مشرقی یورپ یو این او اور امریکہ کا بھی، مگر صدر کینیڈی نے ان کو دھتکار دیا۔ وجہ صاف تھی کہ پرتگیزی قبضے میں تیل اور سونا تقریباً مفت ہی مل رہا ہے بعد میں شاید ایسا نہ ہو۔ پھر ڈاکٹر صاحب کیوبا گئے۔ کیوبا اور سوویت یونین تو ہمیشہ ہی پسماندہ نوآبادیاتی اقوام کی آزادی کی تحریک کی مالی اور اخلاقی کرتے تھے. اس بار بھی سوویت یونین اور کیوبا نے اپنے سکھانے والے لوگ انگولہ بھیجے اور گوریلوں کو تربیت دی اور منظم انقلابی نظریات سے لیس کیڈر تشکیل دیا گیا. بیان کرتا جاؤں کہ ایم پی ایل اے وہ واحد تنظیم تھی جس کے گوریلوں کی سیاسی تربیت ہر صورت لازم تھی.

آخر طویل جدوجہد کے بعد انگولہ سالازار کی آمریت کے ہٹتے ہی آزاد ہوگیا، یہ سال تھا 1975 کا۔ ڈاکٹر آگستو نیتو عوامی جمہوریہ انگولا کے پہلے صدر بنے. حالات بڑے شکستہ تھے، شرح ناخواندگی 85% تک تھا، ملک میں انفراسٹرکچر نہ ہونے کے برابر تھا اور تربیت یافتہ پرتگیزی ملک چھوڑ کے جاچکے تھے۔ ان حالات میں ڈاکٹر صاحب نے ملک کو سنبھالا دیا اور انقلابی اصلاحات نافذ کردیں. بے روزگاری کا ساٹھ فیصد تک خاتمہ کیا اور اپنی وفات تک ملک میں شرح خواندگی ساٹھ فیصد تک ہوچکا تھا. گلف آئل قومیاہ لی گئی اور یہی سامراج کی دکھتی رگ تھی، سامراج بلبلا اٹھا اور مکار لومڑی کی طرح حملے کرنا شروع کردئیے۔ پہلے جنوبی افریقہ کی ردِ انقلابی حکومت نے خانہ جنگی شروع کروانے کی کوشش کی اور پھر سوامبی اور ہوڈن روبٹرو نے مابوتو کے زیر سایہ ملک کو خانہ جنگی میں دھکیلنے کی کوشش کی جسے لوگوں نے مسترد کردیا۔ جنوبی افریقہ اور مابوتو آف کانگو نے سوامبی اور روبرٹو ہولڈن کو بھاری معاوضہ دیا کہ ایم پی ایل اے سرکار کو گرا کر ایف این ایل اے اور یونیٹا کو اقتدار میں لایا جائے۔ اسی مقصد کے تحت جنوبی افریقی فوج نے انگولہ پہ حملہ کردیا. اس وقت میں کیوبا اور سوویت یونین نے انقلاب کا انگولن گوریلوں کے شانہ بشانہ دفاع کیا۔ اس کے بعد امریکی صدر فورڈ اور سکڑٹری داخلہ کسنجر نے بھی سی آئی اے کے منصوبے کے تحت ملک میں خانہ جنگی کروائی اور پھر جنگ کا سلسلہ چل نکلا، جس کا اختتام 1992 میں ایف این ایل اے اور یونیٹا کے ہتھیار ڈالنے سے ہوا.

10 ستمبر 1979 کو ڈاکٹر نیتو کی ماسکو میں وفات ہوگئی۔ ان کو پروسٹیٹ کینسر کا عارضہ لاحق تھا۔ ملک کا پرچم چالیس دن تک سرنگوں رہا اور سوگ کا سما چھایا رہا.

ڈاکٹر صاحب نے تین کتابیں لکھیں جو انقلابی ترانوں اور سامراجی مظالم پہ ہیں. ڈاکٹر صاحب انگولہ حلقہِ مصنفین کے ممبر بنے اور پھر 1970 میں ادب کا لوٹس پرائز جیتا اور بعد میں انکی عوامی خدمات کے صلے میں 1976 میں لینن پرائز ملا. انکی کتابوں کا بے شمار زبانوں میں ترجمہ ہوا. جدید انگولہ کا بانی ڈاکٹر آگستو نیتو کو تسلیم کیا جاتا ہے اور ان کے نام پر لوانڈا میں آگستو نیتو یونیورسٹی موجود ہے. ڈاکٹر صاحب بار بار عوامی طاقت کا اظہار ایک جملے سے کرتے تھے کہ “بارش کو کوئی برسنے سے نہیں روک سکتا”.

Advertisements
julia rana solicitors london

تحریر کا مقصد ان عظیم لوگوں کا تذکرہ کرنا ہے جنہوں نے عوامی فلاح کو اپنا شعار بنایا اور سامراج کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اسے نکال باہر کیا، جبکہ وہ جانتے تھے کہ سامراج کبھی بخشے گا نہیں۔ لیکن ان کا مقصد اپنی قوم کو آزادی دلانے اور اس خواب کو پورا کرنا تھا کہ جس میں کوئی کسی کا استحصال نہ کرے، کوئی بھوک سے نہ مرے اور زندگی ایک خوشگواریت پہ مبنی کتاب کی مانند ہو جسے پڑھ کے خوشی محسوس ہو نا کہ ایسی کہ جس میں سامراج کے بعد اس کے متعین کردہ ہرکاروں کی غلامی۔

Facebook Comments

ہمایوں احتشام
مارکسزم کی آفاقیت پہ یقین رکھنے والا، مارکسزم لینن ازم کا طالب علم، اور گلی محلوں کی درسگاہوں سے حصولِ علم کا متلاشی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply