اساتذہ سے بد تمیزیاں۔تربیت میں کمی

استاد معمارِ قوم ہے، نئی نسل کی ذہنی و اخلاقی تربیت میں والدین کی طرح استاد کا بھی کلیدی کردار ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مہذب معاشروں میں استاد کو بہت اعلیٰ مقام دیا جاتا ہے۔ لیکن جب استاد اور طالب علم کے درمیان تعلق میں بگاڑ پیدا ہو جائے تو قوم کی تنزلی کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ استاد کا وہ مقام جو ہمارے معاشرے کا شعار رہا ہے، ماضی میں کہیں کھو گیا ہے۔ آج طالب علم خود کو استاد اور استاد خود کو نوکر سمجھتا ہے جو اس کے پیسے پر پلتا ہے۔ شاید یہ غلط فہمی نجی تعلیمی اداروں کے نظام کی وجہ سے پیدا ہوئی جہاں طالب علم کو استاد سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے کیونکہ ادارے کی مالی حیثیت مضبوط کرنے کا بنیادی محرک طالب علم کا دیا گیا پیسہ ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دور جدید کا طالب علم استاد کا اصل مقام بھول چکا ہے۔ اسے یاد نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسی عظیم شخصیت کے نزدیک استاد کا کیا مقام تھا؟ وہ ابو حنیفہ ؒ کے اس قول کو جانتا ہی نہیں کہ وہ اپنے پیر بھی استاد کے گھر کی طرف نہیں کرتے تھے۔ اس کے مقابلے میں آج اساتذہ کے لیے جو القابات استعمال کیے جاتے ہیں اور ان کے احترام کا جذبہ جتنا مفقود نظر آتا ہے، وہ ہمارے معاشرے کا ایک سنگین المیہ ہے۔
اساتذہ سے بدتمیزی کی بنیادی وجہ گھر کا وہ ماحول ہے جہاں طالب علم کو تربیت نہیں دی جاتی۔ جیسا گھر کا ماحول ہوتا ہے بچہ اسی کردار کے مطابق ڈھلتا ہے۔ ڈاکو، چور اور کرپٹ شخصیت کی پہلی ‘درس گاہ’ بھی اصل میں گھر ہی ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سا ماحول ہوتا ہے جو بچوں کو بدتمیز اور بے شرم بنا دیتا ہے؟ جس گھر میں نماز اور روزہ اور دیگر دینی فرائض کی انجام دہی نہ ہو، جہاں والدین گھٹیا موضوعات پر مبنی ڈرامے اور فلمیں بچوں کے سامنے دیکھیں، جن گھرانوں میں بچوں کے کردار سے زیادہ ان کے لباس کو اہمیت دی جائے، جہاں حلال کمائی نہ آتی ہو، زکوٰۃ نہ دی جاتی ہو، جہاں حقوق اللہ کی باز پرس نہ ہو اور حقوق العباد پورے نہ کیے جائیں، جہاں تلاوت قرآن مجید نہ کی جاتی ہو، نہ سنی جاتی ہو، جہاں اداکار آئیڈیل ہوں وہاں فرمانبردار، باتمیز اورحیا دار اولاد پیدا نہیں ہوتی۔
“بے شک نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے”، اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس فرمان سے زیادہ سچی بات کون سی ہو سکتی ہے؟ تربیت کا یہ بنیادی حصہ جب والدین ہی میں موجود نہ ہوگا تو اولاد کیسے ان خطوط پر تربیت حاصل کرے گی۔ جب قرآن مجید کا لفظ “اقراء” قلب میں نہيں اترے گا تو پڑھانے والا استاد دل میں مقام کہاں حاصل کرے گا؟
ٹیلی وژن کبھی بچوں کی تربیت نہیں کرتا، اس کے لیے سیرت رسولﷺ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اولاد والدین اور اساتذہ کا مقام اسی وقت جانے گی جب اسے یہ معلوم ہوگا کہ میرے حضور ﷺ نے خود اپنے آپؐ کو معلم کہا ہے۔ اسے یہ بھی پتہ چلے گا کہ استاد بھی ایک باپ ہوتا ہے۔

Facebook Comments

نعیم الرحمان
کم عمر ترین لکھاری ہیں۔ روزنامہ تحریک کے لیے مستقل لکھتے ہیں ۔ اور سب سے بڑھ کر ایک طالب علم ہیں ۔ اصلاح کی غرض سے لکھتے ہیں ۔ اسلامی نظریے کو فروغ دینا مقصد ہے ۔ آزادی کو پسند کرتے ہیں لیکن حدود اسلامی کے اندر۔ لبرل ازم اور سیکولرزم سے نفرت رکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply