ایون فیلڈ فیصلہ، آراء اور اثرات۔۔۔ٹی ایچ بلوچ

ایک سال قبل جولائی 2017ء کو سپریم کورٹ نے پاناما پیپرز کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ کی روشنی میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا تھا جس کے ساتھ ہی وہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے بھی نااہل قرار پائے تھے۔ مذکورہ فیصلے کی روشنی میں سپریم کورٹ نے نیب کو نواز شریف، ان کے صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز، صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیا تھا، جبکہ ان ریفرنسز پر 6 ماہ میں فیصلہ سنانے کا بھی حکم دیا تھا۔ بعد ازاں نیب کی جانب سے نوازشریف اور ان کے بچوں کے خلاف 8ستمبر2017ء کو عبوری ریفرنس دائرکیا گیا تھا۔ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب ریفرنسز پر 13 ستمبر کو پہلی مرتبہ سماعت کرتے ہوئے شریف خاندان کو 19 ستمبر کو طلب کیا تھا تاہم اس روز وہ پیش نہیں ہوئے جس کے بعد عدالتی کارروائی 26 ستمبر تک کے لیے مؤخر کردی گئی تھی جہاں نواز شریف پہلی مرتبہ عدالت میں پیش ہوئے۔

دوسری جانب احتساب عدالت نے اسی روز حسن نواز، حسین نواز، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے 2 اکتوبر کو پیش ہونے اور 10، 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔ خیال رہے کہ 2 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف عدالت میں پیش ہوئے لیکن ان پر فردِ جرم عائد نہیں کی جاسکی۔ تاہم نواز شریف کے صاحبزادوں حسن نواز، حسین نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف عدالت میں پیش نہ ہونے پر ناقابلِ ضمانت وارنٹ جبکہ مریم نواز کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔ ایون فیلڈ یفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف، مریم نواز، حسن اورحسین نوازکے علاوہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدرملزم نامزد تھے، تاہم عدالت نےعدم حاضری کی بنا پر نواز شریف کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز کو اشتہاری قرار دیا تھا۔

مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر پر 19 اکتوبر 2017ء کو براہ راست فرد جرم عائد کی گئی تھی جبکہ نوازشریف کی عدم موجودگی کی بنا پران کے نمائندے ظافرخان کے ذریعے فردجرم عائد کی گئی تاہم نواز شریف 26 ستمبر 2017ء کو پہلی بار احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوگئے تھے۔ 9 اکتوبر2017ء کو مریم نواز احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوئی تھیں جبکہ کیپٹن (ر) صفدر کو ایئر پورٹ سے گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔ 26 اکتوبر2017ء کو نوازشریف کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے،3 نومبر 2017ء کو پہلی بار نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر اکٹھے عدالت میں پیش ہوئے اور 8 نومبر2017ء کو پیشی کے موقع پر نوازشریف پربراہ راست فرد جرم عائد کی گئی۔ سپریم کورٹ کی جانب سے ان ریفرنس کا فیصلہ 6 ماہ میں کرنے کا حکم دیا تھا اور یہ مدت رواں برس مارچ میں ختم ہونی تھی تاہم سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کی درخواست پر شریف خاندان کے خلاف زیرِ سماعت نیب ریفرنسز کی ٹرائل کی مدت میں 2 ماہ تک کی توسیع کردی گئی تھی۔ نیب ریفرنسز کی توسیع شدہ مدت مئی میں اختتام پذیر ہوئی تاہم احتساب عدالت کی جانب سے سپریم کورٹ میں ٹرائل کی مدت میں مزید توسیع کے لیے درخواست دائر کی گئی جسے عدالتِ عظمیٰ نے قبول کرلیا اور ٹرائل کی مدت میں 9 جون تک توسیع کی۔

سپریم کورٹ کی توسیع شدہ مدت جون میں اختتام ہونے والی تھی، تاہم احتساب عدالت نے ٹرائل کی مدت میں توسیع کا فیصلہ کرتے ہوئے 4 جون کو ایک مرتبہ پھر عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کی گئی تھی۔ 10 جون کو سپریم کورٹ کی جانب سے حکم دیا گیا کہ شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز کا فیصلہ ایک ماہ میں سنایا جائے۔ 11 جون 2018ء کو کیس میں نیا موڑ آیا جب حتمی دلائل کی تاریخ سے ایک دن پہلے خواجہ حارث کیس سے الگ ہوگئے جس پر نوازشریف کی طرف سے ایڈووکیٹ جہانگیر جدون نے وکالت نامہ جمع کروایا تاہم 19جون کوخواجہ حارث احتساب عدالت پہنچے اوردست برداری کی درخواست واپس لے لی تھی۔ بعد ازاں کیس کی مختلف سماعتیں ہوئیں تھی، جس کے بعد 3 جولائی کو دلائل مکمل ہونے کے بعد احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ یہ بھی یاد رہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں مجموعی طور پر 18 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے جن میں پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء بھی شامل تھے۔

اس فیصلے کے اثرات کیا ہونگے؟ اس سلسلے میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے چیئرمین عمران خان کو سیاسی طور پر فائدہ ہوگا۔ سینئر صحافی اور تجزیہ نگار مظہر عباس کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے لیے آج کے فیصلے سے 25 جولائی کو انتخابات کے دن تک کا سفر انتہائی مشکل ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ اگر نواز شریف واپس آتے ہیں تو کیا مسلم لیگ (ن) کے ورکرز ایئرپورٹ جائیں گے؟ کیا وہ احتجاج کی کال دیں گے؟ کیونکہ عدلیہ نے ان کے خلاف فیصلہ دیا ہے اور اب سب کی نظریں شہباز شریف پر منحصر ہوں گی۔ 28 جولائی 2017ء سے 6 جولائی 2018ء تک کے سفر میں نواز شریف نے اپنے بیانیے کو پر زور انداز میں چلایا لیکن اب آج سے 25 جولائی تک کا سفر پچھلے ایک سال کے سفر سے زیادہ مشکل و کٹھن سفر ہے۔انہوں نے کہا کہ وطن واپسی پر مسلم لیگ (ن) کے رویے کو بھی سامنے رکھنا ہوگا، شہباز شریف کے پاس بھی اب کم آپشن رہ گئے ہیں۔

سینئر صحافی طلعت حسین کا نجی ٹی وی جیو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ فیصلہ متوقع تھا کہ نواز شریف اور مریم نواز جیل کی سزا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ لوگ اس بات پر تقسیم کا شکار ہیں کہ آیا یہ سزا ہوئی ہے یا نہیں لیکن یہاں کچھ ووٹرز ہیں، جو اب بھی ووٹ تذبذب کا شکار ہیں کہ ووٹ کسے دیں۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم 100 صفحات کا فیصلہ پڑھیں گے تو چیزیں روزانہ کی بنیاد پر ہمارے سامنے آجائیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی اطلاعات ہیں کہ نواز شریف منگل یا بدھ تک واپس آجائیں گے اور تب ہی اس بارے میں کچھ کہا جاسکے گا کہ ان کا ووٹرز پر کتنا اثر و رسوخ ہے۔ فیصلے کے حوالے سے سینئر صحافی سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف فیصلہ عمران خان کو سیاسی طور پر فائدہ پہنچائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کے بعد 20 فیصد وہ لوگ جن کے بارے میں معلوم نہیں کہ وہ کسے ووٹ دیں گے، انہیں اپنا فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی۔ سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ اگر نواز شریف وطن واپس آتے ہیں اور اس حقیقت کا سامنا کرتے ہیں تو ان کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوگا۔

اسلام آباد کی احتساب عدالت میں ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ آنے کے بعد جیو نیوز سے گفتگو میں پروگرام آج شاہ زیب خانزادہ کے میزبان شاہ زیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ یہ متوقع فیصلہ تھا اور لگ رہا تھا کہ قید اور جرمانے کی سزائیں ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ سب سے بڑا فیصلہ نواز شریف اور مریم نواز نے کرنا ہے اور وہ یہ کہ انہوں نے آکر کب گرفتاری دینی ہے، اگر انہیں اپنی سیاست بچانی ہے تو ملک آنا ہوگا۔ سینئر صحافی ارشاد بھٹی کے مطابق ہمارے ملک میں پہلی بار ایک طاقتور کو سزا ملی ہے اور اب اسمبلیوں میں جانے والے بھی سوچیں گے اور احتیاط کریں گے کہ احتساب کا عمل شروع ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف پہلے دن ہی کیس ہار گئے تھے، کیس کو قانونی طور پر نہیں لڑا، ان کے پاس اپنی بے گناہی ثابت کرنے سے متلق کوئی ثبوت نہیں تھے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے سوات میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے سے متعلق کہا کہ میری 22 سالہ جدوجہد کے باعث آج ایک طاقتور کو سزا ہوئی ہے، ان چوروں کی وجہ سے پاکستان کا بچہ بچہ مقروض ہے۔

میں اللہ کا شکر گزار ہوں، میں نے جو 22 سال پہلے جو جدوجہد کی تھی اس کی وجہ سے پہلی دفعہ ایک طاقتور کو انصاف کے نظام نے سزا سنائی ہے، پہلے صرف کمزور اور غریب لوگ جیل میں جاتے تھے۔ طاقتور لوگوں کو پاکستان کے ادارے نہیں پکڑ سکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ آج رات کو سارے پاکستانیوں کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے، نفل پڑھنا چاہیے، یہ ہمارے نئے پاکستان کی شروعات ہے، ہمارے نئے پاکستان میں بڑے بڑے ڈاکو اسمبلیوں میں نہیں جائیں گے، بڑے بڑے ڈاکو اب جیلوں میں جائیں گے۔ عمران خان نے مزید کہا کہ ضیا الحق کے زمانے میں نواز شریف اور اس کے چھوٹے بھائی نے کرپشن شروع کی، ملکی تاریخ میں پہلی بار سیاست میں پیسہ استعمال کیا گیا، سیاستدانوں کو خریدا گیا، ان دونوں بھائیوں نے پاکستان میں کرپشن کی بنیاد رکھی۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے بیرونی لابی کو خوش کرنے کے لیے ختم نبوت کے قانون میں ترمیم کی جو کی انتہائی گھٹیا حرکت تھی۔

فیصلے کے حوالے سے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا کہ اس فیصلے سے نواز شریف کوفائدہ ہوگا، یہ فیصلہ تین مہینے پہلے آنا چاہیے تھا۔ خورشید شاہ نے کہا کہ الیکشن کے وقت یہ فیصلہ کئی معنی نکالے گا،نواز شریف پارلیمنٹ کو اہمیت دیتے اور پاناما کا فیصلہ اسمبلی میں لاتے تو یہ وقت نہ دیکھتے۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا کہ تاریخ میں پہلی بار کسی بڑے کو سزا ہوئی، نواز شریف اللہ کی پکڑ میں آئے ہیں، شاہد خاقان عباسی اور شہباز شریف پر بھی مقدمات ہیں، نوازشریف نے جس عوام کو بنیادی سہولیات سے محروم رکھا ان سے چاہیں گے کہ وہ سڑکوں پر نکلیں۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ نواز شریف کیخلاف فیصلہ انتخابات پر اثر انداز نہیں ہونا چاہیے، ایک فرد کیخلاف فیصلے سے انتخابات آگے پیچھے نہیں ہونے چاہئیں، پاناما لیکس کے بعد ہم نے 436 افراد کے نام پیش کردیے تھے، ان افراد کےخلاف عدالتی کارروائی چیونٹی کی رفتار سےبھی کم ہے، قوم چاہتی ہےکہ احتساب ہو تو سب کا ہو۔ رہنما مسلم لیگ(ن)مریم اورنگزیب نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ ن اس فیصلے کو مسترد کرتی ہے، ایسے فیصلے آتے رہے ہیں، تاریخ ان کا جواب دےگی، نواز شریف کو نہ پہلے اور نہ اب اس فیصلے سے فرق پڑے گا۔

سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف نے سیالکوٹ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 25جولائی کو عوام کا فیصلہ آئے گا، اس فیصلے میں پریشانی والی کوئی بات نہیں ہے، عوام نواز شریف کے حق میں فیصلہ دے گی، عوام بھرپور محنت کرکے نواز شریف کے حق میں فیصلہ دے، فیصلے کے خلاف ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے گا۔ سینیئر سیاستدان جاوید ہاشمی کا کہنا ہے کہ شہباز شریف محنت کررہے ہیں لیکن نوازش ریف کی کمی پوری نہیں ہوسکتی، مشورہ ہے نواز شریف آئیں اور اس جنگ کو تیزی سے لڑیں، وزیر اعظم پهانسی بهی چڑهے، جیل بهی گئے، قربانیاں دینا پڑتی ہیں، انہوں نے کہا کہ نواز شریف واپس آكر عدالتوں كا سامنا كریں، فیصلے سے نواز شریف اور مریم کے لیے ہمدردی کی لہر اٹھے گی، پاكستانی قانون كے تحت سزا پر فوری ضمانت ہوجاتی ہے۔ تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلے کے پاکستانی سیاست پر مثبت اثرات پڑیں گے، ہمارا مفاد ہے کہ نواز شریف کو سزا ہو اور پیسے بھی واپس آئیں، پاکستان سے جو 3 ہزار کروڑ باہر گئے وہ واپس کیسے آئیں گے یہ اہم ہوگا، عدالتی فیصلے کے پاکستانی سیاست پر مثبت اثرات پڑیں گے، پاکستان میں طاقتور لوگوں کا احتساب شروع ہوگیا ہے، شریف فیملی کو دفاع کا بھرپور موقع ملا۔

واضح رہے کہ میاں نواز شریف بھارت سے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ قید اور جرمانے عائد کرنے کے فیصلے کو بھارتی میڈیا میں عمران خان کے لیے سازگار اور مسلم لیگ (ن) کے لیے انتخابات کے حوالے سے دھچکا قرار دے دیا۔ بھارتی نیوز چینل سی این بی سی ٹی وی 18 نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف فیصلہ 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات میں ان کی جماعت کے لیے بڑا دھچکا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس فیصلے سے تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے اور گزشتہ 4 دہائیوں سے پاکستان کے بہت بڑے سیاست دان کے کیرئر کے خاتمے کا خطرہ ہے۔ بھارتی چینل نے اپنی رپورٹ میں اس فیصلے کو عمران خان کے لیے سازگار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ 1980ء میں فوجی آمر ضیاالحق کے دور میں اپنی سیاسی تربیت حاصل کرنے والے نواز شریف کے فوج سے تنازعات کی ایک تاریخ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف جب ایک دہائی بعد 2013ء میں وزیراعظم کی حیثیت سے حکومت میں آئے تو طاقت ور جرنیلوں کے باعث باہر ہوگئے کیونکہ انہوں نے خارجہ پالیسی میں فوج کی بالادستی کو چیلنج کیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق نواز شریف نے ان کے اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے خلاف کارروائیوں کو عمران خان کو فائدہ پہنچانے کا سبب قرار دیا تھا جبکہ عمران خان نے ان کی نااہلی اور کارروائی کی تعریف کی۔ انڈین ایکسپریس نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف فیصلہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے لیے 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات میں اثر انداز ہوگا جس میں ان کا مقابلہ عمران خان کی تحریک انصاف سے ہے۔ ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف کے خلاف فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب 25 جولائی کے انتخابات کے حوالے سے فوج کی سیاست میں مبینہ مداخلت کا شبہہ کیا جارہا ہے جبکہ میڈیا کی جانب سے بھی شکایات موصول ہورہی ہیں۔ زی نیوز نے بھی رپورٹ میں اس فیصلہ کو نواز شریف اور ان کی پارٹی کے لیے بڑا دھچکا قرار دیا ہے۔ اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو 10 برس، مریم نواز کو 7 برس اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایک برس قید کی سزا سناتے ہوئے جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔ ملکی اور غیر ملکی میڈیا کی آراء اور تجزیات کے مطابق اس فیصلے کے بعد مسلم لیگ نون اور بالخصوص شریف خاندان کا سیاسی مستقبل تاریک ہو چکا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply