سی پیک منصوبہ اور دو تہذیبوں کا تصادم

میرے ایک بہت ہی عزیز اور بچپن کے دوست نے ابھی ایک خبر کا لنک مجھے ٹیگ کیا۔جو کہ اس بارے میں تھی کہ چائنہ کے نوجوانوں میں اردو سیکھنے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور اسی طرح پاکستان میں چینیوں کی سی پیک کی مد میں آمد کے پیش نظر روزگار اور باہمی میل جول کی خاطر پاکستانی نوجوانوں میں چینی زبان سیکھنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔اس نے ان الفاظ کے ساتھ مجھے ٹیگ کیا کہ آنے والے سالوں میں شاید چائنستان اور پکائنہ میں پاکستان کہیں نظر نہ آئے۔
دیکھا جائے تو میرے قابل دوست نے بہت ہی مختصر مگر جامع ترین تبصر ہ کردیا ہے ،پاک چائنہ دوستی کے مستقبل پر۔جب سے پاکستان میں اقتصادی راہداری کا ایک عالی شان منصوبہ شروع ہوا ہے تب سے لے کر اب تک جتنے منہ اتنی باتیں سننے کو مل چکی ہیں۔

پاکستانی ترقی کی منازل طے کررہے ہیں اور سی پیک منصوبہ بیشک ایک گیم چینجر منصوبہ ہے مگر اس کے ساتھ جڑے چند نقصانات کو ہر کوئی نظر انداز کررہا ہے فقط دوستی اور محبت کے نعرے لگا کر۔اس میں کسی طرح کا شک نہیں کہ دونوں ملکوں کی دوستی کے-ٹو سے بلند اور مضبوط ہے لیکن ایک بات یاد رکھنے اور سمجھنے کی ہے کہ دو قومی نظریہ صرف ہندوؤں اور دیگر غیر مسلم ہندوستانیوں اور پاکستانیوں پر فٹ نہیں ہوتا-بلکہ یہ نظریہ آفاقی اور ایک الہامی نظریے, نظریہ و عقیدہ توحید کا سب سیکشن نظریہ ہے جو ہر ایک پر مساوی لاگو ہوتا ہے۔مطلب ایک طرح سے غیر مسلم بدھ مت چائینز اور پاکستانی مسلمان دو الگ قومیں ،دو الگ تہذیبیں اور دو الگ ثقافتیں ہیں۔دونوں کی زبان, رہن سہن, کھانا پینا, مذاہب, روایات, آداب معاشرت و سماجیات, قوانین, چال ڈھال, عمومی نظریات, تاریخ اور علم و فن میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

بھلے وقتوں کی ا ن کی دوستی قابل ستائش, قابل تقلید اور کسی حد تک قابل قبول ہے، مگر دوستی دوستی میں تہذیبوں اور مذاہب کا تصادم نہ ہو تو یہ بہتر رہے گا اور اس کی کوشش کو اولین مقصد رکھنا ہوگا۔ان میں مشترک کیا ہے پھر جس کی وجہ سے یہ دوستی ہوئی اور اب تک یہ قائم ہی نہیں بلکہ دن دگنی اور رات چوگنی پھل پھول رہی ہے؟چائنہ کٹر کمیونسٹ اور بدھ مت ریاست جبکہ پاکستان ٹھہرا اسلامی جمہوریہ۔شاید کچھ خاص مفادات اور مقاصد جن سے دونوں ملکوں کی سیاسی و سفارتی ضروریات پوری ہوں ،ہمیں تحقیق پر مل جائیں مگر دراصل میرے نزدیک یہ کوئی وجہ نہیں اٹوٹ دوستی کی۔ایسی دوستی تو پھر بھارت, افغانستان اور ایران سے بھی ہوتی پاکستان کی لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔۔۔وجہ ،یہاں وہی ہے جو دو عام لوگوں کی دوستی میں مروجہ ہے یعنی عزت, محبت, اعتماد, خلوص اور احترام۔دو عام لوگ انہی باتوں کی یکسانیت دیکھ کر دوستی کے مقدس بندھن میں بندھتے ہیں اسی طرح یہ دو ملکوں کی دوستی وجود میں آئی۔

کوئی گھڑی ہو کوئی واقعہ، خواہ غمی کا یا خوشی کا ،یہ دو ہمسائے اور گہرے دوست ایک دوسرے کی مدد کو لازمی موجود ہوتے ہیں۔اب وہ مدد خواہ زبانی کلامی ہو یا عملی, وقت اور حکمت کو مد نظر رکھ کر کردی جاتی ہے اور لے لی جاتی ہے لیکن دوستی میں بھی کچھ حدود و قیود ہوتی ہیں۔دوستی جب تک ذات کے گرد محور رہے تب تک کوئی مسئلہ کوئی نقصان نہیں ہوتا لیکن اگر ذات سے بڑھ کر چار دیواری میں دوستی کا رشتہ داخل ہوجائے تو عام انسانوں کی دوستی کی طرح کافی عائلی قباحتیں اور مسائل پیدا ہونے کا خطرہ موجود رہتا ہے یہاں تک کہ دوستی کسی رشتہ داری میں نہ بدل جائے۔دوستی میں انفرادیت کا عنصر موجود رہتا ہے لیکن رشتہ داری اجتماعیت کا تقاضہ کرتی ہے۔اور یہی وہ ڈر ہے جو اب پاکستانی سوجھ بوجھ رکھنے والے چند فیصد عوام کو ستا رہا ہے کہ دوستی اب رشتہ داری میں بدلنے جارہی ہے، سی پیک منصوبے کی بدولت تو اس کے اثرات بھگتنے کو ہم تیار ہیں؟اور تیاری تو رہ گئی ایک طرف کیا ہم ان اثرات کو قبول کرنے کو تیار ہیں؟

پہلے سمجھ لیں کہ کیا برے اثرات پیدا ہوسکتے ہیں اگر اس دوستی نما رشتہ داری یا سانجھے داری کی محبت میں ہم اندھے ہوکر غرق ہو رہے ہیں تو؟۔۔۔نقصان یا فائدہ طرفین کا برابر نہیں ہوگا کیونکہ ہم چائنہ کی نسبت قدرے چھوٹے ہیں۔اثر چائنیز پر بھی ہوگا وہی جو ہم پر ہوگا لیکن تعداد میں وہ ہم پر غالب رہیں گے۔
اول تہذیبی و تمدنی ارتقاء و تبدیلی سے گزرنا پڑے گا۔دوئم مذاہب اور روایات کا تصادم ہوگا۔رہن سہن کا ٹکراؤ۔کھانے پینے اور طہارت جیسے عمومی معاملات میں فرق۔بول چال اور رویوں کا ٹکراؤ۔جنسی بے راہ روی اور بے حیائی کا ایک نہ تھمنے والا طوفان بلا خیز آئے گا۔مذہبی و معاشرتی فرق اور ایک دوسرے کے لیئے منافرت کا جذبہ۔فرداً فرداً رویوں اور جذبوں کا ٹکراؤ اور عدم اعتماد۔زبان کا فرق اور طرفین کا تمسخرانہ رویہ۔جس لبرل ازم اور کمیونزم و سوشلزم کے نظریہ کی صرف تھوڑی مقدار نے پاکستان میں مذہبی نفرت کو پروان چڑھا دیا ہے سوچیں جب اس نظریے کے مبلغ ساک شات یہاں درشن دینے موجود ہوں گے تو کیا اثرات مرتب ہوں گے معاشرے پر۔

اور اسی طرح کے کافی پیچیدہ و پوشیدہ مسائل اور قباحتیں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہیں جن سے واسطہ دونوں اقوام دونوں ملکوں کو بہت جلد پڑنے والا ہے۔ایسا ضرور ہوگا کیونکہ میرا اولین تین سالہ پیشہ ورانہ تجربہ چائنیز کے ساتھ بطور سیفٹی آفیسر ایک فرٹیلائزر کمپنی کےتعمیری منصوبے پر تھا۔
یہ لوگ بہت محنتی اور صاف گو ہیں مگر مذہبی و نظریاتی جنونی اور انتہا پسند بھی بلا کے ہیں۔جبکہ محنت اور صاف گوئی کس چڑیا کا نام ہے اس سے پاکستانیوں کی اکثریت نابلد اور جان بوجھ کر انجان ہے۔وہ لوگ حق تلفی اور دو نمبری سے واقف مگر ان سے پرہیز پر ہیں۔جبکہ الباکستانیوں کا تو روز کا مشغلہ ہی حق تلفی اور دو نمبری ہے ۔میں نے دوران ملازمت تین سالہ دور میں کوئی دن ایسا نہیں دیکھا جب براہ راست کسی چائنیز نے کسی پاکستانی کا حق مارا ہو یا ناانصافی کی ہو۔لیکن ان بیچارے چائنیز کو معمولی نوعیت کے کاموں کی خاطر الباکستانیوں سے روزانہ لٹتے اور بے وقوف بنتے دیکھا ہے میں نے۔

لیکن ٹھہریئے صاحبان یہ اتنے بھی بیچارے نہیں۔۔۔۔انہی چائنیز کی بدولت میرے علاقے کی چاروں سمتوں میں کم ازکم تیس کلو میٹر دائرے میں کتے اور بلیاں ناپید جبکہ کچھوئے, خرگوش, بطخوں, دیسی مرغوں اور گدھوں کا ریٹ آسمان سے باتیں کرنے لگ گیا تھا اور ان کی آپس کی ذاتی لڑائیاں بھی ہلاکو خان اور چنگیز خان کی یاد تازہ کروانے کو کافی تھیں۔آزادانہ جنسی اختلاط اور شراب و کباب کی محفلیں آئےروز کی بات تھی۔ان کا سارا مزدور طبقہ جرائم پیشہ اور سزا یافتہ افراد پر مشتمل تھا اور اب بھی ایسا ہی ہوگا جبکہ اعلی عہدیدار اور انجینئرز اچھے خاندانی لوگ تھے اور یقیناً اب بھی ایسے ہی ہوں گے۔بہرحال صوتحال کافی نازک رہتی تھی تب بھی اور اب اندیشہ ہے کہ اب بھی شاید وہی حالات رہیں گےلیکن ہاں آئندہ مستقبل چائنستان اور پکائنہ کا ہی نظر آتا ہے تا آنکہ حکومت وقت پاکستان اور چائنہ ایسے ملکی و قومی تصادم سے بچنے کی کوئی تدبیر کوئی متوازی پالیسی نہ اخذ کرلیں دوستی کو گہری رشتہ داری میں بدلنے کے دوران۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بات صرف لاکھوں چائنیز کے پاکستان آنے اور زبان سیکھنے تک محدود نہیں بلکہ وہ یہاں کس حیثیت اور نظریے کے ساتھ رہیں گے اور ان کا یہاں رہنا کتنا فائدہ مند یا نقصان دہ ہوگا یہ بات اہم ہے اور قابل غور بھی ۔مورخ ہی لکھے گا آنے والے وقت میں کہ یہ دونوں ملک چائنہ اور پاکستان ہی رہتے ہیں یا پھر تصادم و ارتقاء کے مراحل سے گزر کر چائنستان اور پکائنہ بنتے ہیں۔اردو سپیکنگ چائنیز کا چائنستان اور چینی سپیکنگ پاکستانیوں کا پکائنہ۔پاک چین دوستی زندہ آباد!

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply