جاوید نامہ

اگر ایک لکھاری اپنے قلم کو اپنے ذاتی دکھوں کے بیان کیلیے استعمال کرے تو شاید یہ قاری کے ساتھ زیادتی ہے۔ مگر کچھ دکھ سانجھے بھی تو ہوتے ہیں۔ مجھے پڑھنے والے جو مجھ سے محبت کرتے ہیں، میں انکو ایک ایسی شخصیت سے متعارف کروانا چاہتا ہوں جس کا میری زندگی اور شخصیت سازی میں اہم حصہ تھا، جسکی وفات شاید ہمارا مشترکہ دکھ ہے۔
میں شاید پانچ چھ برس کا تھا کہ میرے والد جج بنے اور پہلی پوسٹنگ سرگودھا ہوئی۔ ابھی گھر الاٹ نہیں ہوا تھا کہ سکول سیشن شروع ہو گئے اور والد مجھ اکیلے کو اپنے ساتھ سرگودھا لے گئے۔ ماں کے بغیر میں پہلی بار اتنے دن تنہا تھا اور یقینا اداس تھا۔ پھر مجھے یاد ہے اک دن ابو مجھے انکل جاوید کے گھر لے گئے جہاں آنٹی تھی جو فورا میری ماں بن گئیں اور ہمیشہ کیلیے بن گئیں۔
ہمارا قیام کسی ججز ریسٹ ہاوس میں تھا اور میرے والد اور انکل سلیم، انکل جاوید کے ساتھ مل کر بھرپور چھڑی زندگی گزار رہے تھے۔ میرے والد کے اور بھی دوست ہیں، ایسے یار جنھوں نے میرے والد کے بعد بھی یاری نبھائی اور ہمارے سر پر سایہ بن گئے۔ مگر یہ تین جیسے سہیلیاں تھیں۔ ظالم رات گئے تک تاش کھیلتے، گپیں مارتے اور میں معصوم کمرے میں اکیلا پڑا ہوتا۔ کئی بار تو میں، جو ابھی بھی اندھیرے سے ڈرتا ہوں، انکل سلیم کے پاس سو جاتا تھا کیونکہ ابو اور انکل جاوید دیر تک جاگتے مگر انکل سلیم اچھے بچے تھے، سو ان سے آدھا گھنٹہ پہلے سو جاتے تھے۔ رات کو ایک روایت دودھ جلیبیاں کھانے کی بھی تھی، اک دن رات گئے جو دودھ جلیبی کا دل کیا تو دودھ ندارد۔ انکل جاوید فورا گھر گئے اور دودھ لے آئے، دودھ جلیبی بنی اور عیاشی ہوئی۔ اب اگلی سویر سات بجے ہی انکل منہ لٹکائے ریسٹ ہاوس آئے اور کہا آج سے تم دونوں سے دوستی ختم، تمھاری وجہ سے میری بہت بے عزتی ہوئی ہے۔ پتہ چلا رات دوستوں کو دودھ جلیبی کھلانے دونوں بیٹیوں کے فیڈر کا دودھ چوری کر لائے تھے اور سویرے سویرے آنٹی نے وہی کیا جو اردو ادب میں ہر بیوی یار باش شوہر کے ساتھ کرتی ہے۔
مجھے سکول داخل کرا دیا گیا۔ میرے والد اور یہ دونوں مجھے سکول داخل کرانے گئے اور میرے والد بس اسی دن گئے۔ فیملی کے آ جانے تک پھر سکول سے لانا اور لیجانا انکل جاوید اور انکل سلیم نے اپنی ذمہ داری بنا لیا۔ سویرے کوئی میرا یونیفارم استری کرتا تو کوئی ناشتہ کراتا۔ سکول میں لینے سب سے پہلے یہ پہنچتے۔ اب کوئی کہے کہ اس اظہار محبت میں میری خوبصورت ٹیچرز کا کوئی عمل دخل تھا، تو مجھے کیا، آم کھانے چاہیے، گٹھلی سے کسے غرض۔
ایک عرصے تک جاوید انکل دہریہ تھے۔ بلکہ خدا کو ماننے پر میرے والد اور انکل سلیم کا مذاق بھی اڑاتے تھے۔ انکل کی والدہ کا نام حج میں آیا تو بطور محرم اپنے بڑے بیٹے جاوید کا نام دیا۔ اب انکل کہتے، “دیکھو تو اماں کی حرکت، بھلا میں وہاں جا کر کیا کروں گا؟” مگر پھر اسی حج سے قبل ہی کچھ ہوا کہ انکل نے اسلام پر مکمل ایمان اختیار کیا۔ کیا ہوا؟ اسکی کئی وجوہات دی جا سکتی ہیں، مگر شاید یہ والدہ کی دعا تھی جو اپنے بیٹے کو گمراہی سے لوٹا لائی۔ وہ جو کبھی دہریہ تھا، نمازی بنا، ماں کو روزانہ قرآن سنانے والا بنا اور یوں فوت ہوا کہ روزے سے تھا اور بغیر کسی درد یا تکلیف کے صوفے پر بیٹھا اپنے رب کے حضور حاضر ہو گیا۔ اللہ انکے درجات بلند کرے اور گناہوں کو معاف فرمائے۔
میں نے ابھی کہا کہ میری شخصیت سازی میں انکا اہم حصہ تھا۔ انکل جاوید بہت آرٹسٹک انسان تھے۔ میری جو پہلی یاد ہے کہ میں انکے گھر گیا اور میوزک بج رہا تھا۔ وہ والد سے بولے “جج صاب سنو اقبال بانو کیا کمال کر رہی ہے”۔ یہ اقبال بانو اور کلاسیکل میوزک سے میرا پہلا تعارف تھا۔ شاید انکی صحبت نے ہی مجھ میں میوزک کی محبت پیدا کی۔ سوشلزم کی طرف متوجہ کیا۔ کتاب بینی اب تو فقط شوق مگر کبھی جنون تھا۔ اک دن والدہ نے ان سے شکایتا کہا کہ اسے سمجھائیے ہر وقت کتابوں میں ڈوبا رہتا ہے اور پڑھائی پر توجہ نہیں دیتا۔ مسکرا کر بولے “بھابی اچھی بات تو یہ ہے کہ کتاب سے بھاگتا نہیں ہے۔ پڑھنے دیں، کورس کی کتاب تو مجبوراً بھی پڑھ لے گا”۔ میری جتنی بحثیں مذہب، تاریخ اور دیگر ایشو پر ان سے ہوئیں، شاید دوستوں سے بھی کم ہوتی ہوں۔ انھوں نے کبھی مجھ پر رعب جما کر مجھے خاموش کرنے کی کوشش نہیں کی، اسکے باوجود وہ محترم تھے۔ وہ مسلمان ہو چکے تھے اور میں تشکیک کا شکار، میں جان جان کر انکو اکساتا اور مسکرا کر طرح دیتے۔ شاید وہ جانتے تھے کہ نوجوانی کے جذبے کے ساتھ ساتھ مزاج کی شدت خودبخود کم ہوتی ہے اور انسان تنقید بھی معیاری کرتا ہے۔ وہ مذہبی ضرور ہوے مگر شدت کبھی اختیار نہیں کی اور نا ہی کبھی کسی کو یا مجھے نمازی پرہیزگار بنانے کی کوشش کی۔ وہ میرے والد کے واحد دوست تھے جن کے سامنے میں سگریٹ پیتا تھا۔ بلکہ اکثر ایک دوسرے کی ڈبیا سے بھی پی لیتے تھے۔ وہ ایک مکمل بیوروکریٹ تھے۔ کمشنر عہدے سے ریٹائرڈ مگر مکمل سوشلسٹ بیوروکریٹ، اور اسی لئیے میں انکو کہتا تھا کہ آپ “مس فٹ بیوروکریٹ” ہیں۔ شاید موجودہ دور کا واحد بیوروکریٹ جو اپنے والد کی زمینیں بڑھاتا نہیں بیچتا ہے۔
تیرہ سال ہوے انکو ہارٹ اٹیک ہوا۔ ہم باپ بیٹا انکے بستر سے لگے تھے۔ موقع ملا تو میں نے کہا، کہیے پھر ڈاکٹر کو دل سے کچھ ملا بھی؟ بولے “یار چند تصویر بتاں اور کچھ حسینوں کے خطوط کے علاوہ کیا نکلنا تھا۔ باقی سب تو میں دل سے بھی چھپا کر رکھتا ہوں”۔ میرے لکھنے اور مکالمہ شروع کرنے پر انکو اسی طرح خوشی تھی جیسے ایک باپ کو بیٹے کی کامیابی پر ہوتی ہے۔ وہ مکالمہ کانفرنس لاہور میں آئے۔ انکے اکلوتے بیٹے کی شادی تھی اور میری والدہ کے کہنے پر میں نے ٹکٹ آگے کر کے شرکت کی۔ تین دن وہ مجھے بغل سے لگائے یوں لوگوں کے سامنے میرے لکھنے، مکالمہ اور مکالمہ کانفرنس کی پزیرائی کرتے رہے کہ میں کان میں کہتا، “انکو بتائیں میں وکیل بھی ہوں، نالائق صحافی سمجھیں گے”۔ ان تین دنوں میں جیسے وہ مجھے دیکھ کر مسکراتے تھے اور متعارف کرواتے تھے، اس میں ایک فخر تھا، ایک باپ کا فخر، ایک استاد کا فخر، ایک چاچا کا فخر، اور ایک بہترین دوست کا فخر۔ ہاں جاوید اقبال میرا دوست بھی تو تھا، جس کے ساتھ مل کر میں نے سگریٹ پئیے، اپنے معاشقے سنائے، انکو چھیڑا، ادبی گفتگو کی، جنسی لطیفے سنائے اور کبھی جھڑک نہیں کھائی، انکی شاعری سنی اور اپنے کالم سنائے، زندگی سیکھی۔
میرا یار گیا ہے، میرا بچپن گیا ہے، میرے والد کا دوست گیا ہے، میرا استاد گیا ہے، ایک روحانی باپ گیا ہے۔ ایک حدیث ہے کہ “اپنے باپ کے دوستوں کا احترام کرو”۔ شاید اس لئیے کہ ان میں آپکا باپ زندہ ہوتا ہے۔ اپنے والد کی وفات کے بارہ برس بعد انکل جاوید کے انتقال سے مجھے احساس ہوا کہ باپ کے دوست کی موت کے ساتھ اپنا باپ دوبارہ مرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ شاید اسی لئیے اپنی ماں جیسی آنٹی سے بات کرتے ہوے میں انکو اور وہ مجھے حوصلہ دے رہی تھیں، کیونکہ دکھ ہمارا مشترکہ تھا۔
قارئین سے دعا ہے کہ میرے انکل جاوید کیلیے مغفرت و بلندی درجات کی دعا کر دیں۔ اجرکم اللہ

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply