تِل ۔۔۔(قسط4)نجم السحر

سلمان وہ فولڈر لے کے اپنے گھر آگیا اس نے صدف کی بنائی ہوئی پینٹنگ دیکھی تو حیران رہ گیا۔
صدف نے اپنی پینٹنگ میں دکھایا تھا کہ اس نے اپنا خول اتار کے رکھ دیا ہے۔  بے انتہا خوبصورت عورت والا خول، جو ہر طرح سے پرفیکٹ نظر آتا تھا۔ جس کی شخصیت میں کوئی کمی کوئی خامی کوئی جھول نہیں تھا۔ اس پینٹنگ میں وہ خول سرھانے پڑا تھا۔ جبکہ خود وه ایک تخت پر بہت فخر کے ساتھ بیٹھی ہے۔ اس کی کمر سیدھی ہے اور گردن اکڑی ہوئی ہے اور اس نے اپنے  دونوں ہاتھ ایک شان سے پھیلا کر تخت کے اوپر پڑے  گاؤ تکیوں پر رکھے ہوئے ہیں۔  اس کے جسم پر ایک کالے رنگ کی گہرے گلے والی، ہلکی سی نائٹی ہے جس میں سے اس کا جھلکتا جسم اور اس کے سینے کا تل دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے بازو اور ٹانگیں اس نائٹی سے آزاد ہیں ۔۔۔ اس کے جسم کا  کوئی حصہ زخم سے خالی نہیں یہاں تک کہ چہرے پر بھی وہی زخم ہیں جو کبھی بھی کسی کو دکھائی نہیں دیے۔ کچھ زخموں سے تو باقاعدہ خون ٹپک رہا ہے۔ داہنے ہاتھ کے انگوٹھے کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے اور وہ نیلا پڑ رہا ہے۔ پیروں کے تمام ناخن ٹوٹ چکے ہیں۔   اس کی ساری خامیاں ساری کمزوریاں دکھ رہی ہیں۔ مگر اس کے چہرے پر افسوس نہیں ہے آخر کو وہ انسان ہی تو ہے

آخر کو وہ انسان ہی تو ہے خدا تو نہیں کہ خامیوں سے پاک ہوتی۔ اس کے لبوں پر ہاری ہوئی مسکراہٹ ہے۔ مگر اس کی  آنکھوں کی چمک کے بتا رہی ہے کہ اس نے آخری دم تک مقابلہ کیا ہے۔ بے شک وہ زندگی کی بڑی اہم لڑائی ہار گئی ہے مگر اس کا حوصلہ ابھی سلامت ہے اور آگے بھی رہے گا ۔۔۔۔
سلمان وہ پینٹنگ دیکھنے کے بعد ایک لمحے کو کچھ کہہ ہی نہیں پایا۔ وه کافی دیر صدف کی تصویر کو دیکھتا رہا اسے چھو کر اسے محسوس کرتا رہا ۔۔۔۔
اس کے زخموں کو بھرنے کی خواہش کرتا رہا۔ یہ خواہش اس کے دل میں اتنی شدت سے اٹھی کہ جو بات وہ اتنے دنوں سے ڈھکے چھپے الفاظ میں کر رہا تھا۔ اس کا برملا اظہار کرنے کے لئے خود کو آمادہ کیا اور اپنے مارکرز اٹھا کر صدف ہی پینٹنگ کے اوپر اپنا سکیچ بنانا شروع کر دیا۔
اگلے دن اس نے صدف کی وہ پینٹنگ جس پر اس نے اپنا اسکیچ بنایا تھا میشعال کو واپس کی خاص تلقین کے ساتھ کہ وہ یہ فولڈر اپنی ماما کو ہی دے۔
صدف نے میشال کے ہاتھ میں وہ فولڈر دیکھا اور اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ وہ جلد سے جلد اس فولڈر کو کھول کے دیکھنا چاہتی تھی۔ مگر اس نے تب تک انتظار کیا جب تک وہ اپنی تمام گھریلو ذمہ داریوں سے فارغ نہیں ہو گئی۔
ہر کام سے فارغ ہونے کے بعد شام چار بجے صدف نے اس فولڈر کو کھول کے دیکھا۔ اب حیران ہونے کی باری صدف کی تھی۔ وہ جانتی تھی سلمان بہت اچھا مصور ہے۔ مگر وہ اتنی خوبصورتی سے اپنی خواہش اس کے کینوس پر ڈرا کرے گا اس کو اندازہ ہی نہیں تھا۔
سلمان نے عین صدف کی تصویر کے پیچھے ہی اپنا اسکیچ بنا دیا تھا۔ سفید شرٹ اور نیلی جینز میں وه ایک ہاتھ صدف کی طرف بڑھائے ہوئے ہے اس کی آنکھوں میں خواہش اور طلب ہے۔ مگر اس کے بکھرے بال اور کھلے گریبان سے اس کی بے چینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس بلیک فولڈر کے اندر ایک خط بھی موجود تھا۔
صدف،
وہ کینوس جس پر تم نے اپنی شخصیت بنائی تھی اس پر میں اپنی خواہش بنا چکا ہوں۔
تم بہت خوبصورت ہو اور یہ سیاہ رنگ تم پر بہت اچھا لگتا ہے ۔ میں تمھارے جسم کی خوشبو کو محسوس کرنا چاہتا ہوں مگر اس سے بھی زیادہ چاہتا ہوں کہ   تمھارے بدن کے ہر زخم پر اپنے ہونٹوں کے لمس کا مرہم رکھ دوں۔ میں تمھیں سختی سے بانہوں میں بھینچ کر تمھاری گردن کا ذائقہ اپنی زبان پر محسوس کرنا چاہتا ہوں۔ مگر اس سے بھی زیادہ چاہتا ہوں کہ تمہاری زندگی بھر کی تھکن تمہیں اپنی بانہوں میں سمیٹ کر اتار دوں اور ۔۔۔۔ اور میں وه تل بھی دیکھنا چاہتا ہوں جو تمہارے دل کے پاس ہے مگر اس سے بھی زیادہ چاہتا ہوں تمہارے دل کا وہ درد محسوس کرنا جو تم نے کبھی کسی کو دکھایا نہیں۔ میں جانتا ہوں مجھے یہ حق نہیں ہے مگر اس چاہت پر میرا بس بھی نہیں۔
۔
صدف۔۔۔!! مجھے تم سے محبت ہے۔ تم ” وہ ” جو اس تخت پر موجود ہو۔ وہ نہیں جو بے جان خول کی طرح سرہانے پڑی ہو میں تمہیں بہت خوش رکھوں گا۔ تمہیں وہاں نہیں ہونا چاہیے تمہیں یہاں ہونا چاہیے میرے پاس ۔۔۔۔
۔
Marry me …!!
سلمان
۔
عبید کی کہانی بھی یہی تک پہنچی تھی کہ چھوٹی خالہ ایکسائٹمنٹ میں چیخ اٹھیں۔
” مجھے پتا تھا، مجھے پتا تھا ۔۔۔ جب تم نے کہا تھا کہ تم ایک بولڈ کہانی لکھنے والی ہو تو میں سمجھ گئی تھی کہ یہ ایک ایکسٹرا میریٹل افیئر کے اوپر ہوگی۔ کیوں کہ صدف اور خرم کا رشتہ غالباً صرف سوشل پریشر کی وجہ سے چل رہا ہے وہ دونوں ہی اپنے جیون ساتھی سے خوش نہیں ہیں۔ دونوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ مجھے تو یہ سن کر بھی بہت اچھا لگا کہ سلمان بھی صدف سے محبت کرتا ہے۔ میں تو کہتی ہوں صدف کو سلمان سے شادی کر لینی چاہیے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ”
” خالہ آپ صدف کی کہانی کے سب سے اہم کرداروں کو نظر انداز کر رہی ہیں اور وہ ہیں صدف کے بچے ۔۔۔ ” عبیر نے زور دے کر کہا
” اوہ۔۔۔!! میرے تو ذہن سے نکل ہی گیا۔ پھر آگے کیا ہوا ؟ بتاؤ نا ۔۔۔؟ ”
” آپ پوری کہانی سنانے کہاں دے رہی ہیں ہر وقت بیچ میں بول پڑتی ہیں ۔۔۔” عبیر نے مسکراتے ہوئے کہا
” اچھا بابا سوری اب نہیں بولوں گی تم سناؤ ” چھوٹی خالہ نے ہنستے ہوئے جواب دیا
۔
سلمان کی خواہش نے صدف کو دہلا دیا وہ جیسے سکتے میں آگئی۔۔۔
” اُف خدا یہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کا گھر توڑ رہے ہیں۔ اپنے شوہر سے بے وفائی کر رہے ہیں۔ ہم اپنے درد کی دوا تلاش کرنے نکلے تھے مگر انجانے میں ایک بے قصور کا ہاتھ تھام کر اس کو اس موڑ پر لے آئے ہیں جہاں سے واپسی کا سفر بے انتہا دردناک ہے۔ یہ کیا غضب کر دیا ہم نے۔ یا اللہ ۔۔۔ !!! ” صدف اپنے چہرے پہ ہاتھ رکھ کر پریشانی میں سوچ ہی رہی تھی کہ اپنے پیچھے سے خرم کی آواز سن کر اس کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔
” اچھا تو یہ ہو رہی ہے تمہاری مصوری ۔۔۔۔”
” خرم آپ ۔۔۔!! ” اس نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا خرم آج وقت سے پہلے گھر آ گیا تھا۔ اس نے صدف کے ہاتھ میں وہ تصویر اور خط دونوں دیکھ اور پڑھ لیے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”تِل ۔۔۔(قسط4)نجم السحر

  1. زبردست پوسٹ! اس پوسٹ کو شیئر کرنے کا شکریہ۔ اس حیرت انگیز پوسٹ نے مجھے اپنے کام میں بہت متاثر کیا اور مجھے بھی اس پوسٹ سے کچھ مفید آئیڈیا ملے۔ آپ کا بہت بہت شکریہ
    Urdu Mark

Leave a Reply