پاکستان کی جنت نظیر وادی۔۔۔سلمی اعوان

”یہ نلت ہے۔“
ویگن ہمیں ابھی اس آہنی سٹینڈ کے قریب اُتار کر آگے بڑھ گئی ہے۔ جس پر خوبصورت انداز میں لفظ ”نلت“ لکھا ہوا ہے۔ ہمارے قدموں کے نیچے شاہراہ ریشم ہے اور داہنے ہاتھ وہ ہرا بھرا گاؤں ہے جہاں ہمیں ابھی جانا ہے۔

ڈھلوانی راستے سے اُتر کر ہم گاؤں میں داخل ہو گئے ہیں۔ سیبوں کے بارسے جُھکے درختوں نے ہمیں مسکرا کر دیکھا ہے۔ زرد خوبانیاں درختوں کے سبز پتوں میں سے لشکارے مارتی ہمیں کھانے کی دعوت  دیتی ہیں۔ ہولے ہولے چلتی ہواؤں نے خوش آمدید کہا ہے۔ تنگ تنگ سی دو گلیاں پار کرنے کے بعد ہم کھلی جگہ آگئی ہیں۔ یہاں مویشیوں کے باڑے میں بھیڑ بکریاں بول رہی ہیں۔ مرغیاں کٹ کٹ کرتی پھر رہی ہیں۔ ایک معمر مرد ہمارے آگے آگے چل رہا ہے۔

”اکبر کا گھر کہاں ہے؟“ جیسا سوال پوچھنے پر اس نے خود ہی رضاکارانہ طور پر ہمارا گائیڈ بننا پسند کر لیا ہے۔
اس وقت جب سورج کی سنہری کرنیں اکبر کے گھر کی منڈیروں سے نیچے اتر رہی تھیں ہم اس کے گھر میں داخل ہوئی تھیں۔ آراستہ پیراستہ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ ہم ایک دور افتادہ پہاڑی علاقے کی ایک وادی کے گھر میں بیٹھے ہیں۔
چھ فٹ سے بھی نکلتی قامت والا اکبر کا باپ ہم سے محو گفتگو تھا۔ انہیں اکبر سے شکایت تھی کہ وہ گاؤں چھوڑ کر شہر جا بسا ہے۔ میرے کان ان کی باتیں سنتے تھے۔ مگر نگاہیں دیوار پر آویزاں اس تصویر پر جمی تھیں جس میں اکبر حسین اکبر شنا زبان میں سیرت النبی کی کتاب پر مرحوم جنرل ضیاء الحق سے ایوارڈ وصول کر رہا تھا۔ اپنی زمینوں سے اپنے جانوروں اور اپنی اس محدود سی دنیا سے پیار کرنے والا باپ یہ نہیں جانتا تھا کہ ہیرے اگر کانوں سے نکل کر جوہریوں کے پاس نہ پہنچیں تو محض پتھر کے ٹکڑے ہوتے ہیں۔

ناشتے سے فراغت کے بعد اکبر کے خوبصورت گل گوتھنے سے بیٹوں کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ اس کی ایرانی نژاد بیوی غنچہ بانوسے باتیں ہوئیں۔ اکبر تین بہنوں کا اکلوتا بھائی ہے۔ اس کی بہنیں اور چچیرے بھائی ملنے کے لئے آئے۔
گھر کے درختوں کے رسیلے شہتوت کھانے کے فوراً بعد نلت کے ان پہاڑی مورچوں اور قلعہ نلت کو دیکھنے کا فیصلہ ہوا جہاں نگر کے حریت پسندوں نے انگریزوں کے خلاف ایسی جنگ لڑی جسے آج بھی ”جنگیڑی لٹی“ کا نام دیا جاتا ہے۔ گو اس جنگ میں انگریزفاتح رہے مگر نگر کے جیالوں کی دلیری اور شہ زوری کا خوف ہمیشہ ان پر مسلط رہا۔
اکبر اپنے چچا زاد بھائی کو ساتھ لینا چاہتا تھا۔ اس کا کزن مارٹن کنوے کی طرح کوہ پیما پارٹیوں کی قیادت کا بڑا شوقین ہے۔ کھیتوں اور پھلوں کے باغات سے گزر کر جب ہم پتھروں اور گارے کے بنے ہوئے اس گھر کے دروازے تک پہنچے ’تو سحر زدہ سی ہو کر وہیں رک گئیں۔ کیسا منظر تھا؟
سامنے پہاڑوں کا ایک سلسلہ اندر کی طرف پھیلتا نظر آتا تھا۔ ہمارے قدموں سے چار فٹ آگے وسیع و عریض جھیل کے سبزی مائل پانی کی لہریں پہاڑوں کے دامنوں سے ٹکراتی تھیں۔ جالو (مقامی کشتی) میں بیٹھے پانچ چھ مرد شنا کا ایک گیت گا رہے تھے۔ رحمت ملنگ جان کا گیت
دفتر ہن ملنگ بانٹی‘ شروع تھیوں تھی داستانئی
مئی ہونگ ہن ہرا ستائنی‘ عاشق نوش تو پورس چانئی
میری محبوبہ تیری یاد میں‘ میں نے دفتر کھول رکھا ہے اور تمہاری محبت کی کہانی لکھ رہا ہوں۔ اگر تجھے اعتبار نہیں تو میں متبرک قسم کھانے کو تیار ہوں۔

گھر کے دروازے پر رسیوں میں پروئی پالک دھوپ میں خشک ہو رہی تھی۔ زمین پر ٹماٹر سوکھتے تھے اور درمیانی عمر کا ایک مرد نیم پختہ بالکونی میں بیٹھا جھیل کے پانیوں کو دیکھتا تھا یا گانا سننے میں ڈوبا ہوا تھا۔
گھر کی عورتیں ہماری آمد کا سن کر کمرے سے باہر آئیں۔ ایک نوجوان عورت نے ایسی فصیح و بلیغ اردو میں گفتگو شروع کی کہ میں کُنگ سی رہ گئی۔ یہ اہل لکھنؤ جیسی زبان یہاں ان پہاڑوں میں کیسے؟ پتہ چلا کہ خاتون بیس سال سے کراچی میں رہ رہی ہے۔ بیوہ ہو گئی ہے اور بھائی کے گھر آئی ہوئی ہے۔

ہم لوگ کمروں میں گھومے پھرے۔ چولہے پر پکتے پھلکے دیکھے۔ پتلی سی لکڑی کے پلٹے کے ساتھ لمبے چوڑے پھلکوں کو پلٹا دینے کا ماہرانہ انداز قابل ستائش تھا۔
کمرے میں لٹکتی اس تاریخی بندوق کا دیدار کیا جس نے کئی انگریزوں کو جہنم رسید کیا تھا۔ ڈیڑھ گھنٹہ اس گھر میں گزارنے کے بعد ہم شاہراہ ریشم کے پار کے پہاڑوں پر چڑھ رہے تھے۔
سانس پھولتا تھا۔ٹانگیں ہانپتی تھیں اور جسم پسینہ پسینہ ہو رہا تھا۔ مچھلی کے جائے کو بھلا کون تیرنا سکھاتا ہے۔ اس ضرب المثل کی سچائی اکبر حسین اکبر کے چھوٹے سے بھانجے کو دیکھ کر ہوتی تھی۔ چھ سالہ بچہ کس پھرتی اور مہارت سے دائیں بائیں کا خیال کیے  بغیر چڑھتا چلا جاتا تھا۔
راستے میں پن چکی چلتی تھی۔ چھوٹے سے کمرے میں آٹے کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ چشمے کا منہ زور پانی اژدھے کی مانند پھنکارے مارتا تھا۔ انسان نے بھی عناصر فطرت کو کس طرح اپنی اغراض کے لئے نتھ ڈال دی ہے۔
اور یہاں چڑھائی رُک گئی۔ زمین کا یہ حصہ سپاٹ تھا۔ درختوں کی ٹھنڈی چھاؤں تھی۔ گھاس اور جنگلی پھلوں کی بہتات تھی۔ درخت کے نیچے بیٹھ کر دائیں طرف کے پہاڑوں کے سینوں پر جا بجا گولیوں کے نشانات دیکھنے کو ملے۔

اکبر نے انگشت شہادت سے ان چوٹیوں کی طرف اشارہ کیا۔ جو ہمارے سامنے تھیں۔
یہاں سے نگر کے جیالے انگریزی فوجوں پر پتھر اور چٹانیں پھینکتے تھے۔ میں نے نیچے جھانکا۔ خوف کی ٹھنڈی لہروں نے مجھے منجمند سا کر دیا۔ اپنی ٹانگوں میں درد کی شدید ٹیسوں کا احساس ہوا۔ نیچے خوفناک کھائیاں تھیں۔ پرلی طرف دریائے ہنزہ بہتا تھا۔
اکبر نے دُوربین مجھے تھمائی اور کہامیون قلعہ دیکھیے ۔ لڑائی کی تفصیل مجھ سے سنیے۔ اکبر کی وضاحت کے ساتھ ساتھ میں دور بین کے زوایے درست کرتی گئی۔ نلت نالہ بہت گہری خندق سے گزرتا ہے۔ اس کے عین بالمقابل بہت اونچی پہاڑی ہے۔
دوربین ایک مقام پر جیسے رُک گئی۔ میرے ہاتھ اور سارا وجود ساکت ہو گیا۔ شفقت اپنی باری کے انتظار میں تھی چلائی۔
”دم لو“
میں نے غصے سے کہا۔ راکا پوشی کے جلوؤں نے میرے اوپر جادو کر دیا ہے“۔ شفقت چھینا جھپٹی پر اتر آئی تھی۔ دور بین اس کے ہاتھوں میں پٹختے ہوئے میں اکبر کی طرف متوجہ ہوئی۔ جائے وقوع میں سمجھ بیٹھی تھی اس لئے اکبر کی باتیں میری کھوپڑی میں سما رہی تھیں۔

نگر والوں نے نلت نالہ کے دوسری طرف دریا کے کنارے سے لیکر راکا پوشی کے دامن تک پہاڑی پر مورچہ بندی کی تھی۔ انگریزوں نے نلت نالہ پار کرنے کی کئی بار کوشش کی۔ مگر ناکام رہے۔ جونہی نگر والوں کو ذرا سا شک پڑتا۔ وہ بڑے بڑے پتھر اور چٹانیں اوپر سے لڑھکا دیتے۔ رات کو روغنی لکڑی کے بڑے بڑے ٹکڑوں کو آگ لگا کر دشمن کی خندقوں میں پھنکتے۔ محاصرہ بہت طول پکڑ گیا تھا۔
بالآخر انہوں نے قاسم خان نامی ایک شخص کو خریدا اور اسے نگر والوں کے خفیہ مورچوں تک پہنچنے کا کام سونپا۔ قاسم خان  نے ایک پہاڑی پگڈنڈی تلاش کی۔ آٹے کا تھیلا لیا۔ اُس تھیلے کے نچلے حصے میں سوراخ کیا۔ اسے کمر پر لادا۔وہ جہاں جہاں سے گزرا۔ تھیلے سے آٹا نکل کر زمین پر گرتا گیا۔ راستے کی نشان دہی کے ساتھ ہی انگریز فوج کے دستے نگر والوں کے سر پر پہنچ گئے۔

ان پہاڑوں کی چوٹیوں پر اکبر نے اپنے سامنے دیکھتے ہوئے کہاتھا۔
”بہت خوفناک لڑائی لڑی گئی۔ دست بدست۔ اکثریت نہتوں کی تھی اور جب کچھ بن نہ پڑا تو وہ جیالے دشمن کے ایک ایک فوجی کو ساتھ لے کر چوٹیوں سے کھائیوں میں کُود گئے۔
دفعتاً مجھے محسوس ہوا جیسے میرے سینے میں مچلتا جذبات کا بھانپڑ مجھے پاگل سا کیے  دے رہا ہے۔ میں کھڑی ہو گئی تھی۔ میرے اندا زمیں اضطراب سا تھا۔ میری وہ نگاہیں شاکی سی تھیں جنہوں نے کوہساروں و کھائیوں اور اِن دشوار گزار راستوں کو آخری بار دیکھا۔
اور جب میں نیچے آرہی تھی میں نے اپنے آپ سے کہا تھا۔
آخر میں یہ کیوں چاہتی ہوں کہ کسی نہ کسی طرح ان سب بے حس لوگوں کو کھینچ کر یہاں لے آؤں۔ انہیں یہ سب دکھاؤں۔ انہیں جو ہماری تقدیروں کے مالک بن کر ہماری معصومیتوں سے کھیل رہے ہیں۔ انہیں کون سمجھائے کہ آزادی حاصل کرنا کس قدر مشکل تھا؟ اس کے لئے کتنی قربانیاں دی گئیں؟
تین بجے گھر پہنچے  تو معلوم ہوا’سب لوگ کھیتوں پر گئے ہوئے ہیں۔ چند روز تک گندم کی کٹائی ہونے والی تھی۔

یہاں گنونی کا تہوار نہیں منایا جاتا۔ میں نے اکبر کی طرف دیکھا۔
شاہراہ ریشم کی تعمیر نے بہت سی معاشرتی اقدار کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ یہاں زندگی اب بہت تیز ہے۔ یوں بھی نگر شیعہ مسلک سے منسلک ہے۔
کھانے میں پلاؤ اور مرغی کا شوربہ تھا۔ زمانوں بعد میں نے مرغی کو کھال سمیت کھایا تھا۔
نماز پڑھی۔چائے پی۔ذرا دم کو آنکھیں بند کیں۔
باہر کوئی بولتا تھا۔ آواز بتاتی تھی کوئی بوڑھا ہے۔ زبان سمجھ نہ آنے کے باوجود ناراضگی کے اظہار کو نمایاں کرتی تھی۔
اس وقت جب شفق پھولتی تھی۔ پچھمی ہوائیں سیبوں اور خوبانیوں کے پیڑوں کے پتوں کو گدگداتی پھرتی تھیں۔ میں اکبر کی بیوی کے پاس بیٹھی اُس سے اس اونچی اور غصیلی آواز کے بارے میں پوچھ رہی تھی۔
بڑے سے چولہے میں لکڑیاں جلتی تھیں۔ ان کی تپش غنچہ خانم کے گلابی رخساروں کو اور گلابی کیے  ہوئے تھی۔ میرے سوال پر اُس نے نگاہیں اٹھائیں۔ مجھے اداس نظروں سے دیکھا اور بولی ”میری بیٹی بیٹوں سے زیادہ دودھ پیتی ہے۔ چھوٹی ہے نا۔ سُسر جی کو غصہ ہے کہ میں اسے جلد جوان کر رہی ہوں“۔

عین اس لمحے مجھے اپنے ذہن کے کسی گوشے میں محفوظ اپنے بچپن کی یادداشتوں میں ارتعاش سا محسوس ہوا۔ یوں جیسے گھر کے کسی کونے میں پڑے خاموش ستار کے کسی تار پر کوئی اچانک انگلی پھیر دے اور وہ بج اٹھے۔
وادی نلت کے گھر کا وہ باورچی خانہ جس کے چولہے کے سامنے بیٹھی غنچہ خانم اکبر لکڑی کے بڑے سے چوکور ڈبے میں آٹے کی پنی کو خشکے میں مسل مسل کر گوندھ رہی تھی۔ میری آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ میں ایک کچے آنگن میں کھڑی تھی۔ جہاں میری خوبصورت زیتونی رنگ والی دادی دہی بلوتی تھی۔ اس کی رنگین مدھانی میں گنگھرو بجتے تھے۔ سڈول کلائیوں میں ہاتھی دانت کا چوڑا لشکارے مارتا تھا۔ مہندی رنگے بال شفق کی لالی کو مات دیتے تھے۔
مکھن کے بڑے بڑے پیڑوں کو چاٹی میں سے نکال کر ہاتھوں میں اچھال اچھال کر اس کی جذب شدہ لسی کو خارج کرتے کرتے وہ دُلا رسے اپنے پوتے کو آوازیں دیتی جاتی۔
”اٹھ جا شہزادیا۔ اٹھ جا پتر۔ اٹھ میرے چناں‘ اٹھ میرے سوہنیا۔ اٹھ میرے مکھناں“
اور یہ شہزادہ‘ یہ سوہنا کسلمندی سے کروٹیں بدلتا رہتا۔ پر آنکھیں نہ کھولتا۔ دھوپ بینروں سے نیچے آنے لگتی۔ بکائن اور ون کے درختوں میں چڑیوں کی چہکار کم ہو جاتی۔ تب کہیں وہ اوں آں کرتا پاؤں دھرتی پر رکھتا۔ منہ دھونے میں سو نخرے کرتا۔ اور جب وہ رنگین پایوں کی پیڑھی پر بیٹھا باسی روٹی پر مکھن کا پیڑا رکھے کھا رہا ہوتا۔ میں حریص نظروں سے اُسے تکتی۔ میرا جی جھپٹا مار کر اپنے بھائی کے ہاتھوں سے وہ چنگیر اڑا لینے کو چاہتا۔ پر مجھے اپنی دادی سے ڈر لگتا تھا۔ میری دادی جو ہر وقت میرا سیاپا کرتی رہتی تھی۔
میری ماں نے اگر میری آنکھیں پڑھ کر مجھے کبھی گھی مکھن دینے کی کوشش بھی کی تو یہی سنا
”پھوٹ کوئی لڑکیوں کو بھی یہ چیزیں کھانے کو دیتا ہے“۔

لہٰذا میرا بچپن بیچاری لسی میں کلوریاں کرتے گزرا۔ نہانے دھونے میں لسی’پینے میں لسی ’روٹی کھانے میں لسی ’سرد مزاج لسی جو لڑکیوں کو جلدجوان ہونے سے روکتی ہے۔ پر میں نے بھی گیارہویں سال میں ہی جوان ہو کر ان احتیاطی تدابیر پر پانی پھیر دیا تھا۔
میں نے غنچہ خانم کے شانوں پر ہاتھ رکھا۔ میری بولتی آنکھوں اوربولتے ہاتھوں نے کسی حد تک اُسے وہ سب کچھ سمجھانے کی کوشش کی تھی جو میرا تجربہ تھا۔ زبان کو زحمت اس لئے نہیں دی کہ برآمدے میں بچھی چارپائی پر اکبر کی بڑی بہن آکر بیٹھ گئی تھی۔
اس نے توا چڑھایا۔ خشکے میں گوندھے آٹے سے روٹیاں پکانی شروع کر دیں۔ آٹا گوندھنے کا یہ نیا طریقہ تھا جو میں نے یہیں دیکھا تھا۔ گاؤں میں مرگ ہو گئی تھی اور رواج کے مطابق ہر گھر سے دو آدمیوں کا کھانا وہاں جانا تھا۔ غنچہ نے   پہلے سوگ والے گھر کا کھانا نپٹایا۔
پورے گھر کے لئے روٹیاں پکنی تھیں۔ رات تیزی سے اتر آئی تھی۔ شفقت اور میں دونوں روٹیوں کی سینکائی میں جت گئیں۔

اکبر کی بڑی بہن ادھر ادھر کے چکر کاٹتی پھرتی تھی۔ میں قدرے متعجب تھی کہ وہ بھاوج کے ساتھ اس کا ہاتھ نہیں بٹا رہی ہے۔ میں نے غنچہ کی طرف دیکھا۔ میری آنکھوں میں چھلکتے سوال کو اس نے سمجھا اور دھیرے سے بولی۔
”کچھ بیمار رہتی ہے۔ کھیتوں پر کام کر آئے تو پھر گھر کا کام کرنا مشکل ہو جاتاہے“۔
دھان پان سی اکبر کی بیوی کے لئے گرمیوں کی چھٹیاں عذاب تھیں۔
”ابھی گندم کی کٹائی کرنی ہے۔ پھر اسے سمیٹنا ہے۔ سیب درختوں سے اتار کر محفوظ کرنے ہیں۔ ان تین ماہ میں جان ہلکان ہو جاتی ہے“۔
اس کی بڑبڑاہٹ بڑی مدھم تھی۔ پر مجھے یہ مدھم اور بے ربط ہونے کے باوجود پوری پوری سمجھ آرہی تھی۔ آخر کیوں نہ آتی۔کبھی میں بھی اسی کشتی کی سوار تھی۔ پانچ سال تک سسرال نے مجھے جس جس انداز میں مانجھا پھیرا اور رگڑائی کی۔ اُس نے چھٹی کا دودھ یاد آنے والے محاورے کا عملی نقشہ دکھا دیا تھا۔

رات کا کھانا ہم نے وہیں بیٹھے بیٹھے کھا لیا۔ عشاء کی نماز پڑھی۔ سونے کے لئے جس کمرے میں آئے۔ وہ بڑا فینسی ٹائپ کا تھا۔ ڈبل بیڈ جس کا اخروٹ کی لکڑی کا لشکارے مارتا کراؤن نظروں کو مسحور کرتا تھا۔ پائنتی پر دھرے ایرانی کمبل ایسے نرم گرم اور گداز کہ جونہی اوپر لئے یوں محسوس ہوا جیسے ماں کی گود میں سمٹ گئے ہیں۔ دیدہ زیب قالین نے پورے فرش کو ڈھانپا ہوا تھا۔ نیلی دیواروں پر خوبصورت پینٹنگز جلوہ افروز تھیں۔
خوابگاہ تو جیسے مہارا جہ ہری سنگھ نلوہ کی لگتی ہے۔
شفقت نے بیڈ پر تین چار پینترے بدلتے ہوئے کہا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اکبر حسین اکبر نے زندگی کی دوڑ میں جدوجہد سے نہ صرف نام اور دام کمائے۔ بلکہ زندگی کو سلیقہ سے گذارنے کا انداز بھی سیکھا۔ اچھا شوہر‘ اچھا باپ‘ ایک اچھا بیٹا اور ایک اچھا انسان اس کی شخصیت کے خوشگوار پہلو تھے۔
سونے سے قبل اکبر ہمیں بتا گیا کہ پوپھٹنے سے قبل گاڑی آجائے گی۔ کل نگر خاص چلنا ہے۔
اس کے جانے کے بعد میں نے سکون اور اطمینان کا لمبا سانس بھرا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”پاکستان کی جنت نظیر وادی۔۔۔سلمی اعوان

Leave a Reply