ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا پیپلز پارٹی چھوڑنا

انیس سو اٹھاسی میں جب محترمہ نے ایک مینیجڈ اور دھاندلی زدہ الیکشن کے باوجود معمولی اکثریت والی حکومت سنبھالی تھی تو بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ انھیں ایسی کمزور حکومت قبول کرنے کی بجائے انتظار کر لینا چاہیے تھا۔ مگر پیپلز پارٹی کے اندر ہی اکثریت کی رائے یہ بھی تھی کہ نہیں جیالوں کو ماریں کھاتے اور حکومت سے باہر بہت وقت بیت چکا ہے، انیس سو پچاسی کے غیر جماعتی انتخابات کا حوالہ بھی دیا جاتا کہ اس کا بائیکاٹ کرنا درست نہیں تھا، اس وقفے کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کو پنجاب میں متبادل قیادت بنانے کا موقع ملا، آمر کی گود میں پروان چڑھنے والی جماعت مسلم لیگ نے خود بھی کھایا اپنے لوگوں کو بھی کھلایا، دوسرے لفظوں میں اسکا مطلب آف دی ریکارڈ یہ بھی بیان کیا جاتا رہا کہ جیالے احتجاجی سیاست کرتے بھوکے مرنے لگے ہیں، اب انھیں کچھ ریلیف ملنا چاہیے۔ ملا جلا کر اس سب کا مطلب یہی تھا کہ زیادہ عرصہ بھوک کاٹ کر حکومت سے باہر نہیں رہا جا سکتا اور ایسا کرنے سے آپ سیاست میں آوٹ ڈیٹیڈ بھی ہو جاتے ہیں۔
ہمیں وہ وقت بھی یاد ہے جب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اسمبلی میں روتی نظر آئیں کہ انکی کسی بات پر توجہ نہیں دی جا رہی، وزرا انکی سننے سے انکاری ہیں۔ اور اس سب پر انکا سب سے زیادہ مذاق خود پیپلز پارٹی والوں نے ہی اڑیا۔ کچھ ایسا ہی وقت ندیم افضل چن پر بھی آیا جب وہ حکومت میں رہتے ہوئے اپنی کمیونٹی کے قتل عام پر نوحہ کناں دکھائی دیے۔ عابدہ حسین بھی آوٹ آف فوکس رہیں اور وہ ہزارہ والے ایم این اےناصر شاہ جو پارلیمنٹ کے سامنے اپنی ہی جماعت کیخلاف احتجاج کرتے نظر آئے۔ فرقہ پرستانہ اور قوم پرستانہ تعصبات سے بچنے کے لیے اسے محض حسن اتفاق کہہ لیجیے کہ یہ چاروں شخصیات اہل تشیع ہیں جن میں سے تین کا تعلق پنجاب سے ہے۔ پیپلز پارٹی کی اشرافیہ کے لیے یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ کیا پیپلز پارٹی مرحلہ وار اپنا شیعہ ووٹ بینک لوز کر کے تحریک انصاف کی جھولی میں ڈال رہی ہے؟ جبکہ عمران خان پر تو طالبان خان کا الزام بھی لگتا ہے۔ یقیناً بڑی نازک صورتحال ہے۔
خیر ان تمام یاد دہانیوں کیساتھ دو ہزار تیرہ میں پنجاب کے عام انتخابات اور پھر ضمنی انتخابات کے نتائج بھی سامنے رکھ لیں تو یہ بات واضح نظر آ رہی تھی کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی کے لیے کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں چھوڑی گئی اور اکثریت کو اپنا مستقبل تاریک ہی نظر آ رہا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اس میں مرکزی قیادت کا بہر حال عمل دخل رہا ہے کہ جس نے پنجاب کو مسلسل اگنور کیا اور چونتیس سے پچاس ہزار ووٹ لینے والے حلقوں میں پیپلز پارٹی ہزار دو ہزار ووٹ تک پہنچ گئی۔ قیادت خود اپنی کسی کوتاہی پر کان دھرنے کو تیار نہیں ہوتی اور قیادت سے جڑے رہنے والے بھی اسے لاریب ہی سمجھتے ہیں کہ وہ تو کوئی غلطی کر ہی نہیں سکتی، جو کچھ بھی کیا ہوگا جانے والوں نے ہی کیا ہوگا۔ وہی غلط ہونگے وہی مجرم ہونگے قیادت لاریب ہے قیادت فرشتہ ہے جس سے کسی قسم کی غلطی کا کوئی امکان نہیں۔ اب جب ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان صاحبہ پارٹی چھوڑ گئیں تو خورشید شاہ، اور مولا بخش چانڈیو صاحب وغیرہ کو یاد آ رہا ہے کہ وہ تو مشرف کیساتھ تھیں، وہ تو ق لیگ میں تھیں۔ اور جب پوچھا جائے کہ قیادت ق لیگیوں اور ضیا کی باقیات کو جماعت میں جگہ کیوں دیتی ہے؟ تو جواب ہوتا ہے یہ مفاہمت کی سیاست ہے، مثالیں دی جاتی ہیں کہ دنیا بھر میں الیکٹیبلز کی سیاست ہوتی ہے۔ او بھائی دنیا کی سیاست سے اپنا موازنہ کرنے سے پہلے کبھی آئینہ بھی دیکھ لیا کرو۔ دنیا میں چھانگا مانگا والی ہارس ٹریڈنگ کی روایت اسقدر عام اور مقبول نہیں ہوتی۔ وہاں سیاستدانوں کی اخلاقی اقدار مائنس میں نہیں ہوتیں، وہاں معمولی الزامات پر بھی لوگ استعفی دے کر گھر چلے جاتے ہیں، آپکے ہاں کوئی ایسی مثال ہے جو دنیا کی مثالیں دیتے ہیں؟ ایسے بات نہ بنے تو کہتے ہیں ہمارے دروازے کسی کے لیے بند نہیں ہیں۔ صاحب اگر آپکے دروازے کسی کے لیے بند نہیں ہیں تو پھر جب کوئی ویران پڑا کھلا دروازہ دیکھ کر پارٹی سے نکل جائے تو اسکا بھی برا مت مانا کریں۔ جب آپ نے خود ہی نظریاتی عمارت کا دروازہ توڑ رکھا ہے تو شکوہ کیسا؟ اگر کوئی لوٹا بنا تو آپ خود بھی تو پبلک واش روم ہی بنے ہوئے ہیں۔ لوٹا کلچر کیخلاف تو وہ بولیں جو خود انھیں قبول نہ کرتے ہوں۔ جو خود قبول کرتے ہیں وہ کیا کسی لوٹے سے کم ہیں؟ باقی اٹھاسی والی مثال بھی اسی لیے دی کہ اگر جیالا حکومت سے باہر رہ کر جدوجہد کرتے تھک گیا تھا والا عذر قبول کیا جا سکتا ہے تو پھر عام ووٹر بھی اسی کو ووٹ دیتا ہے جو اسکے کام کروا سکے، جسکے اقتدار میں آنے کی اُمید ہو۔
سیاست میں وقت بدلتے دیر بھی نہیں لگتی ممکن ہے کل کچھ ایسا ہو جائے جو پیپلز پارٹی کی پوزیشن بہتر بنا دے تاہم قیادت کی سندھ سینٹرک پولیٹکس نے وسطی، شمالی اوراپر پنجاب میں پیپلز پارٹی کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے، اب اگر کوئی اپنا سیاسی مستقبل تاریک دیکھتے پارٹی چھوڑ کر جاتا ہے تو مندرجہ بالا حقائق کا بھی خیال رکھا جانا چاہیے۔ اگر ڈاکٹر صاحبہ نے پارٹی چھوڑ کر اچھا نہیں کیا تو یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ پارٹی نے بھی انکے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں کیا تھا۔
لوٹا کلچر کے دفاع کے گناہ کبیرہ کے ممکنہ الزام کے پیش نظر پیشگی یہ وضاحت کرتا چلوں کہ، میری ناقص رائے میں لوٹے معاف ہو سکتے ہیں، انکی مختلف توجیحات پیش کی جا سکتی ہیں، پارٹی چھوڑنے کی جائز وجوہات بھی بتائی جا سکتی ہیں، مگر لوٹا قبول کرنے کی کوئی انقلابی روایتی توجیح قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ فرد کی بنیاد میں کوئی نظریہ شامل ہو نہ ہو مگر کسی بھی سیاسی جماعت کی عمارت بہر حال کسی نہ کسی نظریے پر ہی تعمیر ہوتی ہے۔

Facebook Comments

عمار کاظمی
عمار کاظمی معروف صحافی اور بلاگر ہیں۔ آپ سماجی مسائل پر شعور و آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply