JEREMY CORBYN, THE HOPE OF WORKING CLASS

JEREMY CORBYN, THE HOPE OF WORKING CLASS ، سبط حسن گیلانی
وزیراعظم تھریسامے نے وسط مدتی انتخابات کا اعلان کر کے دراصل ایک تیر سے دو نہیں چار پانچ شکار کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ مثلاً تھریسامے کو اس کی اپنی پارٹی والے ایک لیڈر کے طور پر تسلیم نہیں کر رہے تھے۔ وہ اسے ایک وزیر سمجھتے تھے اور ایک حادثاتی لیڈر۔ اسے اس بات کا یقین تھا کہ ٹوری سیاست کی بساط بہت مضبوط بنیادوں پر بچھی ہے۔ وہ اس بنیاد پر ایک نئے الیکشن کے بعد ایک حقیقی لیڈر کے طور پر سامنے آئے گی۔ اس طرح وہ دوسری برطانوی مارگریٹ تھیچر بن سکیں گی۔ دوسرا حزب مخالف لیبر کااتنے کم وقت میں سنبھلنا بہت مشکل ہو گا۔اور اسی کے ساتھ ساتھ لیبر کے اندر جیرمی کی صورت میں ایک حقیقی بائیں بازو کی قیادت کو بھی ٹھکانے لگا دیا جائے گا۔ بدقسمتی سے لیبر کے اندر ایک طاقتور دھڑے کی اس منصوبے کو خاموش حمایت حاصل تھی۔ جس نے بائیں بازو کے پرچم تلے ہمیشہ دائیں بازو کی سیاست کی ہے۔ اس منافقانہ طرزسیاست کے طویل دئور نے دائیں اور با ئیںبازو کے درمیان فرق تقریباًً مٹا کر رکھ دیا تھا۔ محنت کش طبقہ پریشان تھا کہ ہر بار اُن سے دھوکہ ہوتا ہے۔ انہیں خواب بائیں بازو کی عوام دوست سیاست کے دکھائے جاتے ہیں لیکن تعبیر ہمیشہ دائیں بازو کی عوام دشمن سیاست کی صورت میں نکلتی ہے۔خوابوں کی مسلسل ٹوٹ پھوٹ کے ایک طویل دئور کے بعد جیرمی کوربین کی صورت میں انہیںایک اُمید نظر آئی ہے۔ جیرمی کے قیادت سنبھالنے کے دن سے ہی مسلسل محنت کی چکی میں پسنے کے باوجود اپنے بنیادی حقوق سے دن بہ دن محروم ہوتے عوام نے پھر سے لیبر کے پرچم تلے جمع ہونا شروع کر دیا تھا۔
اس لیے کہ وہ جنگ کا مخالف ہے۔خون سے ہولی کھیلنے والے سامراج سے نفرت کرتا ہے۔ محنت کش طبقے کا حقیقی نمائندہ ہے۔ کونسل کی طرف سے ملنے والے ایک چھوٹے سے گھر میں رہتا ہے۔ وہ امن کا متلاشی ہے۔ امن سے محبت کرنے والا ہے۔اُس کی آنکھوں میں بنی نوع انسان کے ساتھ محبت صاف دکھتی ہے۔جوں ہی تھریسامے نے نئے جنرل الیکشن کا اعلان کیا۔ اور دو ماہ سے بھی کم کا وقت دیا۔ برطانوی سیاست کے ایوانوں میں ہلچل مچ گئی۔لیکن جیرمی نے ایک انقلابی منشور کے ساتھ اس میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے انقلابی نعروں،عوام دوست وعدوں، جیت کی صورت میں حقیقی فلاحی ریاست کی طرف پھر سے ایک نئے سفر کے اعلان نے روایتی ٹوری سیاست کے ایوانوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ اس حد تک کہ تھریسامے نے اس کے ساتھ آمنے سامنے ٹی وی پر بیٹھ کر مذاکرہ کرنے سے دامن بچاتے ہوے تقریباً بھاگ جانا مناسب سمجھا۔ دائیں بازو کی روایتی سرمایہ دارانہ عوام دشمن سیاست کے پاس اب کوئی منشور ہے ہی نہیں ، سوائے اسلحے کی فیکٹریوں کی چمنیوں سے مسلسل دوھواں اُگلنے۔ انسانیت کُش ہتھیاروں کی ڈھیر لگانے۔ دنیا کے طول و عرض میں جنگ کے بادل گہرے کرنے۔بے گناہ انسانوں کے خون سے ہولی کھیلنے۔ بچوں کے نرم و نازک جسموں کے بھی پرخچے اُڑانے۔
آبادیوں کو دھول مٹی میں ملانے۔ فوجوں کے حجم میں اضافے۔جنگی بحری بیڑوں سے سمندروں کے سینے چھلنی کرنے۔سپر سانک جدید لڑاکا طیاروں کی صورت میں فضائوں کا بھی امن تہہ و بالا کرنے۔ دنیا کی ہر چیز کے دام لگانے۔بارود سستا اور روٹی کو مہنگا کرنے۔ عوام کے منہ کے نوالے اُن کی پہنچ سے دور ہٹانے کے سوا انہیں آتا ہی کیا ہے؟۔برطانوی ریاست پوری دنیا میں فلاحی ریاست کا ایک شاندار نمونہ تھی۔ یہاں بے گھر کو گھر، مریض کو دوا۔ درد سے تڑپتے کو شفا۔طالب علم کو علم ، مظلوم کوانصاف ۔بھوکے کو روٹی۔ بے روزگار کو روزگار، سب کچھ اُس کا حق سمجھ کر مہیا کیا جاتا تھا، لیکن ٹوریوں نے پے درپے ان حقوق پر پہرے بٹھانے شروع کیے۔ بچوں کے الاونس سے لیکر بوڑھوں کی پنشن تک کٹ لگانے شروع کیے۔ ریٹائرمنٹ کی حد بڑھا کر بوڑھی ہڈیوں سے بچا کھچا رس بھی نچوڑنے جیسے اقدامات کیے۔ یہاں تک کہ اب NHSجیسے بنیادی صحت کے پروگرام کے پیچھے بھی ہاتھ دھو کر پڑ چکے ہیں۔ دنیا کے اس بہترین پروگرام کو جس کی بدولت مریضوں کو بے دام دوا ملتی تھی، پرائیویٹ انشورنس جیسی انسان دشمن کمپنیوں کے حوالے کرنے کا منصوبہ بنائے بیٹھے ہیں۔ طالب علموں کی ٹیوشن فیسوں میں آے روز کے اضافے سے یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے والا ہر طالب علم پچاس سے ستر ہزار پونڈ کا مقروض ہو کر نکلتا ہے۔ جس کا براہ راست فائدہ ان کے زیر سایہ پھلنے پھولنے والے بینکوں کو ملتا ہے۔ جیرمی نے اس ظلم کو جڑ سے اُکھاڑنے کا اعلان کیا ہے۔ صحت کو انشورنس ایجنٹوں کے چنگل سے بچانے کا وعدہ کیا ہے۔مزدور کی مزدوری 10پونڈ فی گھنٹہ کرنے کی نوید سُنائی ہے۔ بڑے بڑے اداروں کو قومیانے کا عندیہ دیا ہے۔ جیسے ریلوے جیسے پانی و بجلی۔یہ ادارے عوام کا خون چوس چوس کر سرمائے کے پہاڑ کھڑے کر رہے ہیں۔
اب برصغیر پاک و ہند اور دوسرے ممالک سے آکر یہاں بسنے والے اس طبقے کا حال بھی سُن لیں۔ جو اپنے اپنے ممالک سے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہوکر یہاں اپنے حالات بدلنے آئے تھے، جنہوں نے یہاں کے فلاحی نظام سے فائدہ اٹھا کر اپنے بدتر معاشی حالات کو بہتر کیا ، آج وہ بھی ٹوریوں کے سنگ دکھتے ہیں۔ وہ بھی اس فلاحی نظام سے نالاں دکھتے ہیں۔ کیا کوئی اتنی جلدی اپنے ماضی کو بھول جاتا ہے۔کیا انہیں اپنے ہی بھائی بندوں کے خراب حالات کو دیکھ کر کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی؟۔ٹوری بنیادی طور پر اُس سرمایہ دار طبقے کے نمائندہ لوگ ہیں ، جو قلیل ہونے کے باوجود کثرت کے حقوق پر قابض ہے۔ جیرمی کوربین جیسے لوگ انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ ایسے حقیقی عوامی نمائندوں کو سیاست میں ناکام کروانے کی خاطر یہ اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیتے ہیں۔ بڑے بڑے میڈیا ہاوسز اور بھاڑے کے ٹٹو صحافیوں کی خدمات حاصل کر کے عوام کو دھوکہ دیتے ہیں، انہیں تقسیم کرتے ہیں۔ صبح سے شام تک محنت کی چکی میں پس کر ، سر سے پائوں تک پسینے میں نہاکر اپنے بچوں کی روزی روٹی تلاش کرنے والے برطانوی محنت کشو جیرمی کے پرچم تلے اکٹھے ہو جائو۔ یہ بندہ ہی تمہارے خوابوں کو تعبیر بخشنے والا ہے۔ یہی تمہاری اُمید ہے۔

Facebook Comments

سبطِ حسن گیلانی
سبط حسن برطانیہ میں مقیم ہیں مگر دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ آپ روزنامہ جنگ لندن سے بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply