ماضی کا گلیمر،مستقبل کی سوچ اور ہم مسلمان ۔۔۔ ضغیم قدیر

پرانے وقتوں میں لوگ یہ سمجھا کرتے تھے کہ ہمارا ماضی ہمارے حال سے ہر صورت بہتر تھا جبکہ ہمارا مستقبل کیا ہوگا اس کے بارے سوچنا یا منصوبہ بندی کرنا ایک طرح سے گناہ  تصور کیا جاتا تھا۔ ہر کوئی ماضی کے گلیمر میں جینا پسند کرتا تھا  اور پسند بھی کیوں نہ کرے،؟آخر ماضی کے قصے یاد کرنے سے اسے آج اپنے مستقبل کے لیے محنت جو نہیں کرنا پڑے گی۔کیونکہ اگر ایک شخص اپنے ماضی کو حال سے بدتر سمجھے گا تو اسے اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کے واسطے محنت کرنا پڑے گی اور یہ دنیا نکھٹوؤں سے بھری پڑی ہے جوکہ محنت کرنے سے کتراتے ہیں۔ ایسے میں ہر دور کے کچھ ‘سر پھرے’ سے انسانوں نے مستقبل کا سوچنا شروع کیا گو اس دور میں مستقبل کا سوچنا کافی مضحکہ خیز سا کام تھا (اور اب بھی مسلم دنیا میں منصوبہ بندی کو ایک کار بیکار سمجھا جاتا ہے )اور انہی سرپھروں نے انسانی معاشرے کو جدید ٹیکنالوجی اور ترقی سے روشناس کرایا۔

اس سوچ کو بڑھنے سے روکنے اور بہت سے نکھٹوؤں کو کام کرنے سے بچانے کے واسطے ہمارے آباؤاجداد نے شیخ چلی جیسے تصوراتی کرداروں پہ مبنی کہانیاں بنانی شروع کردیں کہ دیکھو! وہ مستقبل کا سوچا کرتا تھا اور اسکے ساتھ کیا ہوگیا معاشرے کا مذاق بن کررہ گیا وغیرہ وغیرہ ۔ اس شیخ چلی کے کردار کو بہت سے معاشروں نے سنجیدگی سے لینا شروع کردیا جن میں برصغیر سرفہرست ہے۔ یہ شروع سے ہی قدرت کا اصول ہے کہ اس دنیا میں منصوبہ بندی کرنے والے لوگ کم اور ان پر انحصار کنے والے زیادہ پیدا ہوتے ہیں تاکہ سسٹم چلتا رہے۔ ایسے سسٹم میں سٹیریو ٹائپ /اولڈ فیشن سوچ کے حامل افراد مستقبل کا سوچنے والوں کی بات پر ہنس دیا کرتے تھےاور جو ماضی کے گلیمر کی بات کرتا تھا اسے عزت و اکرام  سے نوازا جاتا تھا اور بدقسمتی سے یہ طرز فکر تاحال موجود و برقرار ہے۔

ایسے میں ایک بہت بڑا انقلاب تب آیا جب ایک معاشرے کے لوگوں نے انفرادی طور پر مستقبل کا سوچنے کی بجاۓ اجتماعی طور پر مستقبل کا سوچنا شروع کردیا اب اس معاشرے کو ہم یورپ کے نام سے جانتے ہیں
یورپ کے افراد نے ماضی کے گلیمر کو چھوڑ کر انفرادی کی بجاۓ اجتماعی طور پر مستقبل بارے سوچنا شروع کردیا اور ترقی کرگئے ۔آج دنیا میں جتنی بھی ترقی ہو رہی ہے یا ہوچکی ہے یا مستقبل میں ہوگی وہ سب اسی مستقبل کی سوچ رکھنے کا ثمر ہی ہے۔ جبکہ اس سب کے برعکس ہم مسلمان ابھی تک اپنے ماضی کی شان و شوکت میں اٹکے ہوۓ ہیں اگر آج بھی ہمارے خاندانوں میں کوئی مستقبل کی پلاننگ کی بات کرتا آۓ تو ہم اسے شیخ چلی کا لقب دیتے ہیں کہ “دیکھو یہ ان دیکھے کل کا سوچ رہا ہے جاہل کہیں کا” جبکہ یہ سب کہنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ انکی یہ انفرادی ‘باغیانہ سوچ’ کی تحقیر کا نتیجہ انکو معاشرے کی تنزلی کی صورت میں اٹھانا پڑ رہا ہے اور مستقبل میں بھی اٹھانا پڑے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج بھی خصوصا مسلم دنیا میں آپکو ان افراد کی تعداد وافر مقدار میں مل جاۓ گی جو ماضی کے گلیمر کو سناتے تھکتے نہیں اور ان کی باتوں پہ واہ واہ کرتے ہیں جوکہ ایک اجتماعی معاشرتی المیہ ہے۔ پتا نہیں کب ہم ماضی کے گلیمر سے نکل کر مستقبل کا سوچنا شروع کریں گے اور ترقی کی راہوں پہ گامزن ہونگے؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply