روحانیت اور موسیقی۔۔۔۔نذر محمد چوہان

جب میں پہلی دفعہ ۲۰۰۵ میں باکو گیا تو پہلی ہی رات ایک ایسے ہوٹل میں قیام ہوا جس کے باجُو میں ایک بہت خوبصورت Jazz کیفے تھا ۔ پہلی دفعہ مجھے میوزک سننے کا واقعہ ہی میں اتنا مزہ آیا ۔ کافی دیر تک یہ احساس رہا کے شاید میں زمین پر نہیں بلکہ اس موسیقی کی دُھنوں کے سنگ کئ آسمان پار ۔ سندھ سے مشہور صوفی بزرگ شاہ لطیف بھٹائ دنبورہ سے یہ کیفیت طاری کرواتے تھے ۔ ان کا ایک دفعہ اپنے پیر بھائ کے پاس جانا ہوا تو انہوں نے کہا “شاہ صاحب آپ کلام سنائیں لیکن یہ دنبورہ ساتھ والے کمرے میں رکھ دیں “ شاہ صاحب نے ایسا ہی کیا ، جب شاہ صاحب نے کلام شروع کیا ، ساز ساتھ واے کمرے سے دنبورہ کے زریعہ خودبخود بجنا شروع ہو گیا ۔
ایک فزکس کے امریکی پروفیسر اسٹیفن الیگزینڈر نے کچھ سال پہلے ایک کتاب
The Jazz of Physics
کے نام سے لکھی ۔ آئینسٹائن کی طرح اسٹیفن خود بھی saxophone کا بہت ایکسپرٹ گو کے آئنسٹائن Violin کا ماسٹر تھا ۔ یہ کتاب بہت دلچسپ ہے ، اس میں دو احمدی اسکالرز کا بھی زکر ہے ، ایک پاکستان کے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام اور دوسرے یوسف لطیف ، امریکہ کے بہت مشہور جاز پلئیر ۔ یوسف ۱۹۲۰ میں پیدا تو ولیم ایمانوئل ہڈلٹن کے نام سے لیکن ۱۹۵۰ میں امریکی احمدیہ کمیونیٹی سے رابطہ کے بعد احمدی ہو گیا اور نام بھی تبدیل کر لیا ۔
خیر بات ہو رہی تھی ، موسیقی کے کائنات کے رقص اور دُھن پر ہونے کی ۔آئینسٹائین نے بھی اس بات پر بہت زیادہ زور دیا تھا کے پوری کائنات ایک موسیقی کی دُھن یا طرز پر قائم ہے ۔ ساری ہی قوانٹم فزکس کے گُرو ہمیشہ یہی کہتے آئے ہیں کے ؛
“There was a deep connection between music and the structure of the universe “
اسی کتاب میں سب سے زیادہ حوالہ اسٹیفن ایک بہت مشہور امریکی جاز ماسٹر جان ولیم کولٹرین کا دیتا ہے ۔ اسٹیفن کے نزدیک وہ موسیقار کم تھا اور physicist زیادہ اور اسٹیفن اپنے آپ کو موسیقار زیادہ اور فزکس کا استاد کم ۔ میں نے کولٹرین کو بہت سُنا ، خاص طور پر اس کی دو البم cosmic sound اور interstellar space میری بہت پسندیدہ رہیں ۔ آپ لوگ بھی تنہائ میں ضرور سنیں اور اس کائنات کے رقص میں کھو جائیں ۔
کولٹرین کی ایک بات جو اسٹیفن بار بار quote کرتا ہے وہ یہ تھی کے وہ کہتا تھا کے جب بھی میں solo کی پہلی تال پر جاتا اگلی ساری تالوں کی multiple options میرے دماغ میں کہکشاں کی طرح خود بخود آمد ہوتیں ۔ میں بھی جب اپنے بلاگ کا پہلا پیراگراف ہی لکھتا ہوں تو اگلے پیراگرافوَں کا بونانزا میرے دماغ میں رقص کرنا شروع کر جاتا ہے ، اور پھر ایسا محسوس ہوتا ہے کے میں نہیں کوئ اور لکھ رہا ہے ۔ جسے اسٹیفن نے ایک اور موسیقی کے ماسٹر کے الفاظ میں کچھ یوں بیان کیا ؛
“The music is already in your head “
بہت مشہور جرمن آسٹرونومر، کیپلر بھی یہی کہتا تھا اور وہ intuition کے زریعے اس کائنات کی دُھن یا rhythms تک پہنچ جاتا تھا۔یونانی فلاسفر ،پائتھوگرس جسے دنیا کا پہلا mathematician مانا جاتا ہے وہ بھی اسٹیفن کے نزدیک اس راز تک hammers and strings کے زریعے پہنچا ۔
آپ کائنات کو جتنا غور سے دیکھیں گے اور محسوس کریں گے آپ اس نتیجہ پر پہنچیں گے ہماری کائنات بلکل ایک finely tuned موسیقی کے آلہ سے مشابہت رکھتی ہے ۔ قوانٹم فزکس سے پہلے تو یہ بھی سمجھا جاتا تھا کے space کوئ inert ہے جہاں matter move کرتا ہے ۔ لیکن ایسا نہیں یونیورس مسلسل expand ہو رہی ہے ۔ کولٹرین جاز کے زریعہ اس کا expand ہونے کا کہتا ہے ۔ آئینسٹائین کی gravity کی تھیوری بھی دراصل یہی تھی ۔ اسٹیفن نے بہت اچھی مثال دی ہے کے جیسے ایک اسپیس شٹل اگر زمین پر ساکن کھڑی ہے اس میں آسٹرونوٹ کشش ثقل کی وجہ سے ساکن ہیں دوسری شٹل جو اسپیس میں ہے اگر وہ ساکن ہے تو کشش ثقل نہ ہونے کی وجہ سے آسٹرونوٹ فلوٹ کریں گے لیکن جوں ہی اس کو فورس سے چلایا یا propel کیا جائے گا وہ آسٹرونوٹ بھی ساکن ہو جائیں گے ۔ بلکل جیسے آپ کی ٹرین رکی ہوئ ہو اور ساتھ والی ٹرین چل پڑے تو ایسا لگتا ہے جیسے آپ کی والی ٹرین چل رہی ہے ۔ یہ دراصل مختلف فریم ہیں دماغی تصویر یا perception کے ۔ کو اسپیس اور ٹائم کی قید سے باہر کا معاملہ ہے ۔
اسٹیفن کے نزدیک موسیقی خاص طور پر
in jazz combos, the “gravitational” pull comes from the bass and the drums in the Rhythm section
یہ سارا کھیل ہی resonance یا گونج کا ہے جو ہر فیلڈ کو متاثر کر رہی ہے ۔ اسٹیفن نے سیارہ مرکری کی بھی مثال دی کے چونکہ وہ سورج کے قریب ترین ہے لہٰزا اس کی orbit سورج کی کشش ثقل کی وجہ سے متاثر ہوتی ہے ۔ اور اسٹیفن بہت خوبصورتی سے اس کو بھی بیان کرتا ہے ؛
“resonance is the means through which vibrational energy can get transferred from one physical entity to another with great efficiency ..”
سارا معاملہ ہی موسیقی کے کائنات کے ساتھ جوڑ کا یہ ہے اگر سمجھ آ جائے تو ۔ ہر ایک outcome دراصل ٹوٹل ہے ساری possible outcomes کا ۔ سارے string والے موسیقی آلے وہ گونج پیدا کرتے ہیں جو پوری کائنات کی گونج کا حصہ بن جاتی ہے ۔ یہ سب موسیقی کی طرح بہت اچھا ایک ترتیب سے جُڑا ہوا ہے ۔ روح چونکہ اس سلسلہ کی ہی کڑی ہے اور روشنی اور sound کا آپس میں وہی لنک ہے جو کائنات کی ہر چیز کا ایک دوسرے سے ۔
آج کے مضمون میں مجھے انگریزی کے الفاظ زیادہ استعمال کرنے پڑے معزرت خواہ ہوں ۔ پاکستان سے پروفیسر عابد خٹک ہارمونیم کے ماسٹر آجکل ماشاء اللہ فُل فارم میں ہیں ، اسی سوچ کو وہ سمجھانے میں آسان کر دیں گے ۔ ان سے درخواست ہو گی کے اپنے تجربہ کی روشنی میں اس مضمون کو مزید آسان الفاظ میں سمجھا دیں ۔ جب تک آپ سب کوئ بھی کلاسیکل موسیقی یا جاز کی دُھنیں سنیں اور پریوں کے دیس میں منتقل ہو جائیں یا مجھ تک نیوجرسی پہنچ جائیں ۔ کائنات بہت خوبصورت ہے صرف آپ کو اس کے ساز آنے چاہیے اس کی دُھنوں کا علم ہو ۔ بہت خوش رہیے ، دعاؤں میں یاد رکھیں ۔ اللہ حافظ ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply