• صفحہ اول
  • /
  • خبریں
  • /
  • پانچ دہائیاں پہلے ہی متنبہ کیا تھا کہ آزادی کی راہ آسان نہیں ۔ صابِر علی حیدر

پانچ دہائیاں پہلے ہی متنبہ کیا تھا کہ آزادی کی راہ آسان نہیں ۔ صابِر علی حیدر

مشعال خان شہید کی برسی ان کی رہائش گاہ پر منائی گئی، جِس میں این ایس ایف پاکستان کے سابِق صدر اور پی ڈی ایف پاکستان کے رہنما، صابِر علی حیدر نے خصوصی شرکت کی۔ اِجتماع کے دوران پی ڈی ایف کے رہنما اپنے مخصوص انداز میں سامراج مخالف نعرے لگوا کر حاضرین کے دِلوں کو گرماتے رہے۔
اپنے خِطاب کے دوران صابِر علی حیدر نے کہا کہ شہید مشعال خان کا خون رائگاں نہیں گیا بلکہ اِس نے دنیا بھر میں ترقی پسند دوستوں کے ضمیر کو جھنجوڑا ہے اور شہید کی بے مثال قُربانی سے پہلے جو ساتھی اپنی اپنی آرام دہ زندگیوں میں مگن تھے، آج اپنا سب کُچھ چھوڑ کر انقلاب کی راہ پر چل نکلے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آج جو ریاست مخالف تحریکیں سر اٹھاتی نظر آ رہی ہیں، یہ اچانک نہیں اُگ آیئں بلکہ معروضی حالات کی پیداوار ہیں اور اِن معروضی حالات کی تشکیل میں مشعال خان شہید جیسے کئی دوستوں کا لہو شامِل ہے اور لہو کی یہ لکیر عوامی جمہوری انقلاب پر ختم ہوتی ہے۔
رہنما کا کہنا تھا کہ آج ان کو اپنے سینیئرز کی باتیں یاد آ رہی ہیں۔ این ایس ایف پاکستان کے ترجمان ’جِدوجُہد‘ میں ڈاکٹر رشید حسن خان نے لِکھا تھا کہ آزادی کی راہ اتنی آسان بھی نہیں ہوتی کیونکہ ایک انقلابی پارٹی کو نہ صرف سامراج کے ٹکڑوں پر پلنے والی ریاست کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے بلکہ اپنی صفوں میں بیٹھے ہوئے ترمیم پسند اور آزاد خیال عناصِر سے بھی لڑنا پڑتا ہے۔
رہنما نے کہا کہ آج پی ڈی ایف پاکستان دونوں محاذوں پر پوری ثابت قدمی سے ڈٹی ہوئی ہے۔ ایک طرف ہم سامراج کے پروردہ جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور ملاؤں سے لڑ رہے ہیں بلکہ اندرونی سطح پر ہم ترمیم پسندی اور آزاد خیالی کے خِلاف بھی نبرد آزما ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ماؤ زے تنگ کے افکار پر چلتے ہوئے سامراج کے خِلاف ہم نظریاتی ہتھیار سے لیس جدوجہد بھی کر رہے ہیں، عوامی سطح پر موبلائزیشن بھی کر رہے ہیں اور ہر اس تحریک کے ساتھ ایک سٹریٹیجک الائینس بنائے ہوئے بھی ہم ہی نظر آئیں گے جو سامراج اور اس کی پروردہ ظالم ریاست کے خِلاف بنیادی انسانی حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ کیا مشعال خان شہید این ایس ایف پاکستان کا رکن تھا؟ نہیں۔ وہ این ایس ایف پاکستان کا رکن نہیں تھا مگر وہ تعلیمی اداروں میں ہونے والے ظُلم و اِستحصال کے خلاف کھڑا ہوا اور اسے دہشت گرد ملاؤں نے بے رحمی سے شہید کر دیا۔ ان کی یہ قربانی انہیں این ایس ایف پاکستان کا اتحادی بناتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ فاٹا کے مظلوم جو ایک عوامی تحریک چلا رہے ہیں، کیا وہ پی ڈی ایف کے ارکان ہیں کہ ہم نے ان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی میں اتنی قربانیاں دیں؟ نہیں، وہ پی ڈی ایف پاکستان کے ارکان نہیں ہیں مگر غیر قانونی گمشدگیاں، ماورائے عدالت قتال، ان کے گھروں کے ارد گرد بِچھی ہوئی خاردار تاریں، ان کے احتجاج پر نافذ ہونے والے کرفیو انہیں پی ڈی ایف کا اتحادی بناتے ہیں اور اگر ضرورت پڑی تو پی ڈی ایف پاکستان ماؤ کے طریقہء کار کو اپناتے ہوئے ان کے ساتھ سٹریٹیجِک اتحاد بھی بنائے گی۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کی عظیم ماؤسٹ جدوجہد میں روسی سوشل سامراج فنڈ پھینک کر نکسل وادیوں میں ترمیم پسند اور آزاد خیال عناصرکو پروان چڑھاتا رہا ہے اور آج بھی وہاں وہ یہی کر رہا ہے۔ مگر پاکستان کی انقلابی جدوجہد میں کِس امر کا کردار ہے، میں نہیں کہہ سکتا کیونکہ میں وجہ جانتا ہی نہیں۔ مگر ہماری صفوں میں بھی آج ترمیم پسندی اور آذاد خیالی جڑ پکڑ رہی ہے اور یہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب کئی دہایوں کی جدوجہد کے بعد آج این ایس ایف پاکستان کے نوجوان اور پی ڈی ایف پاکستان کے منجھے ہوئےکارکنان اپنے واضح انقلابی پروگرام کو مزدوروں اور کسانوں تک لے آئے ہیں۔ اور اب ترمیم پسند اور آذاد خیال عناصر نِت نئی اکتسابی تھیوریاں پیش کر کے ایک طرف نوجوان کیڈر کو انقلابی عمل سے بد ظن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو دوسری طرف انقلابی عمل کو سست روی کا شکار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مگر ایسا ہو تو نہیں سکتا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ این ایس ایف پاکستان اپنے طلبہ یونین کی بحالی کے نعرے سے دست بردار ہو جائے، جِس کی عملی جدوجہد کا آغاز این ایس ایف پاکستان کے صدر ساحر آذاد پلیجو نے یکم جنوری ۲۰۱۸ سے شروع کیا؟ اسی وقت پر جب پی ڈی ایف پاکستان نے ٹھیکیداری نظام کے خاتمے کی تحریک کا آغاز کر ہی دیا تو کیا ہماری تاریخ میں یہ کہیں لِکھا ہے کہ ہم ڈر جائیں، یا جھک جائیں یا اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹ جائیں۔ انہوں نے کہا کہ کِسی کے بھی بد ظن کرنے سے، یا سیدھی سادھی انقلابی جِدوجہد کو اکتسابی گتھیوں میں الجھانے سے یا ہمارے ۲۰۱۸ کے پروگراموں میں رکاوٹیں ڈالنے سے ہم اسٹالن کا، ماؤ کا اور ڈاکٹر رشیدحسن خان کا رستہ ترک نہیں کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج حاسدین بنیادی طبقات اور پیٹی بورژوازی کی روایتی تعریف کے نام پر پاکستان کے درمیانے طبقے کے وائٹ کالر مزدوروں کی تمام جدوجہد کو پاکستان کی انقلابی تاریخ سے حذف کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا سوال تھا کہ اگر انقلاب کے لیئے بنیادی طبقات یعنی مزدوروں اور کِسانوں کے سِوا درمیانے طبقے کی جدوجہد کوئی اہمیت  ہی نہیں رکھتی تو کیاداؤ د میڈیکل کالج کی این ایس ایف نے پاکستان کی انقلابی جدوجہد میں کوئی کردار ہی ادا نہیں کیا؟ کیا لاہور میں جن متوسط طبقے کے انقلابی کارکنان نے عالمِ نزع میں این ایس ایف کے نام کو ذندہ رکھا، ان کی قربانیوں کو ہم بھوُل جائیں؟
انہوں نے کہا کہ ہم جدوجہد جاری رکھیں گے اور ہماری یہی جدوجہد شہید مشعال خان کے خون کے ساتھ وفا ہوگی۔ ہماری یہی ثابت قدمی اسٹالن اور ماؤ کی سوچ کے ساتھ وفاداری ہو گی اور ہمارا یہی طرزِ عمل ڈاکٹر رشید حسن خان کی راہِ عمل پر چلنا ہو گا۔

Facebook Comments

فہیم عامِر
ایک عرصے سے صحافت سے منسلک ہیں اردو اور انگریزی زبانوں میں کالم نگاری کرتے ہیں۔ بقیہ تعارف تو ہماری تحریریں ہی ہیں، جِن میں سے کچھ ہماری فیس بُک پر موجود ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply