سرل المیڈا کی طلسم ہوشربا ۔۔۔۔۔ کہانی یا خبر؟

“پانچ چوہے گھر سے نکلے کرنے چلے شکار ۔۔۔۔۔۔۔ ایک چوہا پیچھے رہ گیا باقی رہ گئے چار”۔

آج ایک عرصہ بعد نہ جانے کیوں صوفی غلام مصطفی تبسم کی یہ بچوں کیلئے لکھی گئی نظم ذہن میں بار بار گونج رہی ہے۔ خیر مکمل نظم تو ہم آپ کو بعد میں سناتے ہیں، پہلے بات ہو جائے کل کی تازہ خبر پر۔ پریشانیوں میں گھرے، بلکہ گردن تک دلدل میں دھنسے، وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے کل کا دن بہت مصروف گزارا۔ انکی کل کی واحد مصروفیت وزیر داخلہ چوہدری نثار ، وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف تھے جو کل سارا دن انکے ساتھ رہے، کہا جا رہا ہے کہ چاروں اہم ترین قومی امور پر مشاورت کرتے رہے ۔ مشرق مغرب شمال و جنوب کے اس ملاپ سے قوم کو تو کوئی نئی سمت ملنے کی توقع نہیں تھی تاہم رات گئے اس مصروفیت کے بطن سے جو ” قومی سلامتی ” کا ضامن انڈا برآمد ہوا وہ ایک سات رکنی کمیٹی کی صورت جی ایچ کیو بھجوا دیا گیا ۔

قصہ اسی طلسم ہوشربا کا ہے جسے دور جدید میں سرل المینڈا نے رقم کیا ہے ۔ اس قوم کا حافظہ اتنا کمزور ہے کہ یہ چند گھنٹوں میں بڑی سے بڑی خبر پڑھنے اور سننے کے بعد بھول جاتی ہے اور اپنی روزی روٹی کی فکر میں لگ جاتی ہے۔ مگر نہ جانے وہ کون سی قوت ہے جو اس خبر کو پرانا نہیں ہونے دے رہی ، اسے زندہ رکھنے پر اصرار تو خود جمہوریت پسندوں کے حق میں ہے کہ بین السطور میں یہ خبر جو سب سے زیادہ اور قوی تاثر قائم کر رہی تھی وہ یہی تھا کہ مملکت خداداد پاکستان کے جمہوری اور عوامی حکمران بالغ ہو گئے ہیں اور نوکر شاھی سے جواب طلب کرنے لگے ہیں ۔ مگر عسکری قیادت اس خبر پر قومی سلامتی کے تحفظ کے حوالے سے خبر کی اشاعت کے پہلے دن سے متعرض ہے ۔ کور کمانڈرز کے اجلاس میں بھی اس خبر کا نہیں خبر کی اشاعت کا جائزہ لیا گیا اور کہا گیا کہ باہر کی دنیا جو الزام پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر لگا رہی ہے حکومت نے بھی اسی الزام کو دہرا کر قومی سلامتی کیلئے خطرات پیدا کر دیئے ہیں ۔ عسکری قیادت شروع دن سے خبر کو لیک کرنے والے ذرائع میں دلچسپی کا اظہار اس دھمکی کے ساتھ کر رہی ہے کہ قومی سلامتی کے رازوں کو لیک کرنے والے کو نشان عبرت بنا دیا جائے ۔

اس بحث سے ایک بات تو واضع ہو جاتی ہے کہ خبر کے مندرجات پر کسی کو اعتراض نہیں، یعنی خبر درست ہے۔ اعتراض ہے تو فقظ اتنا کہ ایک سول حکومت کے نمایندوں نے اگر بند کمرے میں آئی ایس آئی کے سربراہ سے یہ کہہ ہی دیا تھا کہ ہم جس عالمی تنہائی کا شکار ہو رہے ہیں اسکا سبب کالعدم تنطیموں کا وہ نیٹ ورک ہے جس کے خلاف باہر کی دنیا موثر کاروائی کا مطالبہ کر رہی ہے اور ہم اگر لشکر طیبہ ، جیش محمدﷺ ، لشکرجھنگوی سپاہ صحابہ مسعود اظہر ، حافظ سعید ، احمد لدھیانوی اورنگزیب فاروقی کے خلاف کاروائی کرتے ہیں تو ملٹری اسٹیبلشمنٹ حرکت میں آ جاتی ہے اور انھیں بچا کر لے جاتی ہے ۔ یا پھر یہ کہ جنرل رضوان اختر نے اگر یقین دہانی کروا ہی دی تھی کہ آپ کاروائی کریں کوئی مداخلت نہیں ہوگی، تو اس بند کمرے کی باتیں ایک صحافی تک کس نے پہنچائیں ۔ سوال اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے مگر جواب حاصل کرنے کے طریقہ کو الجھا دیا گیا ہے ۔ حکومت نے بار بار کی جواب طلبی سے نجات کیلئے ایک آسان راستے کا انتخاب کرنے کی کوشش کی تھی اور اپنے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کو قربانی کا بکرا بنا کر سبکدوش کر دیا تھا مگر عسکری قیادت نے یہ قربانی قبول کرنے سے انکار کردیا ہے جس کے بعد یہ چار رکنی اجلاس کل سارا دن جاری رہا ۔
کل کی مشاورت کے نتیجے میں حکومت نے ایک سات رکنی کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا ہے جو خبر لیک ہونے کے ذرائع کا پتہ لگائے گی۔ کمیٹی کی سربراہی ایک ریٹائرڈ جج جناب عامر رضا خان کرینگے جو 1979 سے 1991 تک لاہور ہائکورٹ کے جج رہے ہیں اور اب سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ قانون کے پروفیسر ہیں۔ کمیٹی میں ایک ایک رکن آئی ایس آئی ، ایم آئی ، آئی بی اور ایف آئی اے سے لیا جائے گا، ایف آئی اے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عثمان انور خود کمیٹی کے رکن ہونگے جبکہ سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ اور پنجاب کے محتسب اعلی بھی اس کمیٹی کے رکن ہونگے۔ یہ کمیٹی سرل المیڈا کو بھی طلب کر کے اس سے پوچھ گچھ کرے گی اور وزیر داخلہ کمیٹی کی معاونت کرینگے ۔ صحافیوں کے تحفظ کے بین الاقوامی قانون پر پاکستان نے دستخط کیئے ہیں مگر یہ قانون صحافی کو اپنے ذرائع کو پوشیدہ رکھنے کا تحفظ تو ضرور فراہم کرتا ہے لیکن اسی قانون کی ایک شق کے تحت، جب حالات غیر معمولی ہوں اور ملک کی اعلی عدالت سوال کرے، تب صحافی پابند ہے کہ وہ اپنے ذرائع کو ظاہر کر دے ۔ یہ راستہ بہت پہلے اختیار کرنا چاہئے تھا، اگر خبر کی اشاعت سے واقعی قومی سلامتی داو پر لگ گئی ہے تو سرل المیڈا کو اس ” غدار ” کا نام ضرور ظاہر کرنا چاہئے جس نے خبر اس تک پہنچائی، ممکن ہے کہ کمیٹی اس” قومی جرم ” کی پاداش میں کسی کو ٹانگنے میں کامیاب ہو جائے ۔

چار دوستوں نے مل کر ایک کمیٹی تو بنا ڈالی، نتیجہ بھی جلد سامنے آ جائے گا ۔ نتیجہ تو ان دوڑوں کا بھی بہر طور نکلنا ہے جو ان چار میں سے تین دوستوں نےایک تواتر کے ساتھ ہیڈ کوارٹر کی جانب لگائی ہیں، جب میاں صاحب درد دل میں مبتلا تھے ۔ اب ذرا صوفی صاحب کی نظم سے یاد ماضی کو روشن کریں ۔

پانچ ﭼﻮﮨﮯ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ
ﮐﺮﻧﮯ ﭼﻠﮯ ﺷﮑﺎﺭ
ﺍﯾﮏ ﭼﻮﮨﺎ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﭘﯿﭽﮭﮯ
ﺑﺎﻗﯽ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﭼﺎﺭ
ﭼﺎﺭ ﭼﻮﮨﮯ ﺟﻮﺵ ﻣﯿﮟ ﺁﮐﺮ
ﻟﮕﮯ ﺑﺠﺎﻧﮯ ﺑﯿﻦ
ﺍﯾﮏ ﭼﻮﮨﮯ ﮐﻮ ﺁﮔﺌﯽ ﮐﮭﺎﻧﺴﯽ
ﺑﺎﻗﯽ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﺗﯿﻦ
ﺗﯿﻦ ﭼﻮﮨﮯ ﮈﺭ ﮐﺮ ﺑﻮﻟﮯ
ﮔﮭﺮ ﮐﻮ ﺑﮭﺎﮒ ﭼﻠﻮ
ﺍﯾﮏ ﭼﻮﮨﮯ ﻧﮯ ﺑﺎﺕ ﻧﮧ ﻣﺎﻧﯽ
ﺑﺎﻗﯽ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﺩﻭ
ﺩﻭ ﭼﻮﮨﮯ ﭘﮭﺮ ﻣﻞ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮭﮯ
ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮨﯽ ﺗﮭﮯ ﻧﯿﮏ
ﺍﯾﮏ ﭼﻮﮨﮯ ﮐﻮ ﮐﮭﺎ ﮔﺌﯽ ﺑﻠﯽ
ﺑﺎﻗﯽ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﺍﯾﮏ
ﺍﮎ ﭼﻮﮨﺎ ﺟﻮ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﺑﺎﻗﯽ
ﮐﺮﻟﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺷﺎﺩﯼ
ﺑﯿﻮﯼ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻣﻠﯽ ﻟﮍﺍﮐﺎ
ﯾﻮﮞ ﮨﻮﺋﯽ ﺑﺮﺑﺎﺩﯼ

Advertisements
julia rana solicitors

بس اب فارغ اوقات میں جب کوئی کام نہ ہو تو بیٹھ کر یہ سوچیں کے وہ جو ایک باقی رہ گیا تھا وہ ان چار میں موجود ہے یا نہیں ؟ اگلے منگل کو پھر ملیں گے کسی تازہ خبر کے پوسٹ مارٹم کے ساتھ ۔

Facebook Comments

کاشف رفیق محسن
اسلام انسانیت کا مذہب ہے ،انسانیت ہی میرا مذہب ہے اور انسانیت ہی اسلام کا اصل چہرہ ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply