گمشدہ کتاب

نوٹ!
مورخہ گیارہ مئی وزیرستان کے گمنام ترقی پسند شاعر، ادیب اور سیاست دان عارف محسود صاحب کی برسی تھی۔ میں موصوف کے ساتھ دورانِ زندگی اور بعد ازمرگ بے وفائیوں کا تذکرہ کرونگا۔
کروں نہ یاد، مگر کس طرح بھلائوں اُسے
غزل بہانہ کروں اور گنگناوں اُسے
وہ خار خار ہے شاخِ گلاب کی مانند
میں زخم زخم ہوں پھر بھی گلے لگاوں اُسے
(فراز)
تاریخ کے بیانیے میں کچھ ہو نہ ہو لیکن بعض حقیقتیں رومانوی اور حساساتی ہوجاتی ہیں۔ وہ طبعی موت مرتے ہیں لیکن اپنا جوہر اور اصل محفوظ رکھتے ہیں۔ تاریخ ادھوری ہی رہتی ہے لیکن شاید یہ نامکمل بھی ہوتی ہے۔ اکثر جو بناتے ہیں ان کی تاریخ نہیں لکھی جاتی۔ عوام کو کئی صدیوں تک تاریخ کے پرکار سے دور رکھا گیا اور یہی مقتدر قوتوں کاآلہ واردات اور طریقہِ واردات ہوتا ہے۔
ہمارے عنوان کا تقاضا صرف عارف محسود کی یاد دہانی نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر ہے۔
مختصر تعارف کے ساتھ میں مضمون کے اہم حصے کی طرف آؤں گا۔
اسمِ شریف عارف محسود، تعلق جنوبی وزیرستان لدھا، شعبہ ایجوکیشن اور سیاست۔ اپنی تعلیم پشاور جامعہ سے حاصل کی، اور وہی سے فلسفے میں گریجویشن کی۔ بعد از عمر وزیرستان کے ہم خیال ساتھیوں کے ساتھ تیمان پارٹی(لفظ تیمان پشتو کی اصطلاح ہے جس کا مطلب، پیداواری قوتیں یعنی دیہی پرولتاریہ) کی بنیاد رکھی۔ کچھ ماہ پہلے پارٹی کا منشور ایک تباہ شدہ مکان کے ملبے تلے ہاتھ لگا جس کی اتنی بُری حالت تھی جیسے آج کل محسود علاقہ مکینوں کے گھروں کی۔ اور شاید اس تشبیہہ سے سلیم صافی کے چاہنے والے اتفاق نہ کریں۔ خیر اس تنظیم اور پارٹی پر بحث کے بجائے میں آج کا مقدمہ کچھ اور لایا ہوں۔ جس کا تعلق براہ راست مضمون سے معلوم ہوتا ہے۔ جی ، عارف محسود کی تصنیف ’’ثلور میمان‘‘ یعنی ’’چار میم‘‘ جس کا پشتو میں مطلب ہے( مُلا، ملک، متابرُ اور ماسٹر) یعنی مُلا۔ ملک(حکومتی چیلے، چہیتے اور چمچے) متابر یعنی قبائیلی سماج کے وہ لوگ جو ذریعہ آمدن پر قابض ہونے کے ساتھ ساتھ بدمعاش کردار ہو اور آخر میں ماسٹر کا میم آتا جس میں کئی حوالوں سے تنقیدی زاویے سے انھیں بھی دیکھایا گیا ہے۔
اب مسئلہ کیا ہے جو میں اس کا تذکرہ کررہا ہوں وہ کچھ یوں ہے کہ ۷۰، ۹۰کی دھائی میں جب اس تنظیم پر ریاستی اور ملاگردی نے چاروں طرف سے حملہ کیا اور لدھا کے مقام پر ان کے خلاف ایک بڑا جرگہ ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ ان لوگوں کو کہیں پر بھی نہ چھوڑاجائے، ان کے گھر تباہ کئے جائیں اور حتی کہ قبائلی معاشرے کی اقدار کا گلا گھونٹتے ہوئے ان کے خلاف ایک یہ اعلان بھی کیا گیا کہ ان کی عورتیں جائز ہیں۔ یہ وقت ایک پریشانی کی گھڑی تھی اور ان پر سرخ دہریوں کے الزامات بھی لگائے گئے ساتھ میں ان لوگوں کی کتابوں، رسالوں کو سرِعام نظرِ آتش کیا گیا۔ اس سنگین صورتِحال میں جب یہ شخص اور ان کے ساتھی مقابلہ کررہے تھے تو ان حالات میں اکثر ساتھی بے وفا ہوتے چلے گئے ۔شاید یہ لمحہ اُن کے لئے انتہائی دکھ والا ہوگا۔ اور ایسا ہی ہوا کہ پھر وقت بدلتا گیا اور وہ تنہا ہوتا گیا۔ آخری سانس تک وہ پڑھنے، پڑھانے سے وابستہ رہے، ذریعہ معاش کی تنگ دستیوں نے انھیں بُری طرح کھوکھلا کردیا اور پھر اسی غربت اور دکھ میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اور آج جو ان کے پیچھے ختمِ قران کررہے ہیں انھیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیئے کہ عارف کیا کہنا چاہتا تھا، کیا کرنا چاہتا تھا کیونکہ ان کی تصینف کو انھی لوگوں نے غائب کردیا کیونکہ شاید یہ ڈر رہے ہوں ان کے نظریات کے دوبارہ زندہ ہونے سے ۔
ختم قرآن اچھا عمل ہے اور ان کی اُس جہاں کی درجات اور مغفرت کے لئے ضروری ہے لیکن عارف محسود کے بول کو کیوں چھپایا جارہا ہےکیونکہ ان کی تصنیفات اور ڈائریوں کو منظر عام پر نہیں آنے دیا جا رہا ہے۔ ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ خدارا ان کے تیمان فلسفے کو زندہ کیا جائے اور ان کی تصنیفات اور ڈائیریوں کو منظر عام پر لایا جائے تاکہ اس خطے کے عوام کو اصلی تاریخ سے، ان کے ہیرو سے ان کا تعارف ہوجائے۔ اگر آپ ہچکچاتے ہیں اس حوالے سے وہ ہمیں مہیا کیا جائے تاکہ ان کی اشاعت کی جا سکیں۔
پچھلے ادوار میں،ہم نے کیا نہیں دیکھا سرزمینِ وزیرستان پر، قبائلی پٹی پر، پورے ملک پر، جن سامراجیوں گما شتوں کی یلغار پر ہمارے اور آپ کے بھائی یاقربان یاقربان کہتے گئے۔ پشتو کا ایک مشہور ’’ٹپے کی طرز‘‘ یاقربان ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پشتون تیمان نے ہمیشہ ہر ایک کی آواز پر لبیک کہا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم ہمیشہ طاغوتی اور بربریتی قوتوں کے ہاتھوں انسانی بم بننے کے لئے تیار ہوجاتے ہیںـ؟ قوم کا یہ حافظہ اور شعور اس خالی پن کا کیوں شکار ہے؟۔ تاریخ کے گردیشی نظریے ہم پر پورا کیوں اترتے ہیں؟ یہاں ترقی پسند قوتوں کے رجحانات کو کیوں کاٹا گیا؟ یہ سوال ہم سب کے ہیں اور ان کے جوابات اور تشریحات سے بھی ہمارے کان بھر چکے ہیں ۔لیکن آخر کیا وجہ ہیں کہ ان ہی ’’چار میموں‘‘ والی سرکار کے گٹھ جوڑ سے اس سوندھی مٹھی پر کیوں خون چھڑکایا جاتا ہے؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ باہری قوتوں کو کن میڈیمز میں ہمیں انجیکٹ کیا جاتا ہے اور فاشزم کی اس انتہا کو بھی دیکھ لیجئے کہ ان ابجیکٹ سے ہمیں ڈرایا اور دھمکایا جاتا ہے لیکن ہم ان کرداروں اور ان کے پیچھے یاقربان، نغمے گاتے ہیں۔ اسے حرفِ عام میں فاشزم کہا جاتا ہے کہ دشمن آپ کو مارے بھی اور تو واہ کتنا مزہ آتا ہے، کہتے رہو۔ ہم مسلسل اس دورانیئے سے گزر رہے ہیں اس کتاب کے کرداروں کو سمجھنا ہوگا اور ان کے رشتوں کو پرکھنا ہوگا۔ ان کے چال چلن اور لین دین کی باریک بینیوں کا تجزیہ کرنا ہوگا ،اس لئے اس تحریک کے بانی کی اس کتاب کو منظر آعام پر لانا ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ اس تحریک کے جوہر میں سے اپنی تیمان فلسفہ اور سوچ کو نکالنا اور سمجھنا ہوگا۔ وقت کے ان کرداروں سے مقابلہ بھی کرنا ہوگا۔
اس گمشدہ کتاب میں عارف محسود کی روح کے پُرزے بکھرے پڑے ہیں ۔جنھیں کرید کر ہی ہم ان کو اپنا جرات مندانہ اور مطمئن سلام پیش کرسکتے ہیں۔

Facebook Comments

عمر خان تیمانی
عمر خان تیمانی،گورنمنٹ کالج لاہور میں پولیٹیکل سائنس کا طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply