ایران دھمکی کے بجائے سفارتی طریقہ اختیار کرے

ایران دھمکی کے بجائے سفارتی طریقہ اختیار کرے
طاہر یاسین طاہر
یہ عجب بات ہے کہ پاکستان بیک وقت اپنے پڑوسیوں کی در اندازیوں کا شکار ہو چکا ہے۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی پاکستان کی مشرقی سرحد غیر محفوظ تصور کی جاتی ہے،کیونکہ اس سرحد پہ بھارت ایسا چال باز اور مکار دشمن پاکستان کو سیاسی،سفارتی ،معاشی اور داخلی طور پر کمزور کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔پاکستان کی مغربی اور جنوب مغربی سرحدیں دو برادر اسلامی ممالک افغانستان اور ایران سے ملتی ہیں۔یہ دونو ں سرحدیں محفوظ تصور کی جاتی تھیں،ایران سے ملنے والی سر حد اب بھی محفوظ ہی تصور کی جاتی ہے (ایک دو واقعات کے علاوہ)مگر پاک افغان بارڈر جسے ڈیورنڈ لائن کہا جاتا ہے یہ اب محفوظ نہیں رہا۔پاکستان کے مطلوب دہشت گردوں کے ٹھکانے افغانستان کے اندر ہیں اور وہیں سے بھارتی مدد کی بنا پر پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیوں کی مانیٹرنگ بھی کی جاتی ہے۔ اے پی ایس پشاور کا واقعہ ایک مثال کے طور ذکر کیا جاتا ہے کہ اس افسوس ناک واقعے کے کرداروں کا رابطہ افغانستان سے تھا۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان شاہد اللہ شاہد کی اعترافی ویڈیو بھی عالمی سازشوں کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے۔جبکہ حالیہ دنوں چمن بارڈر میں افغان فوجیوں نے پاکستانی علاقے پر گولہ باری کی جس کے جواب میں پاک فورسز نے بھی جوابی کارروائی کی اور افغان فورسز کو نقصان اٹھانا پڑا۔
یہ امر تکلیف دہ ہے کہ اب ایران نے بھی پاکستان کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی دے دی ہے۔ ایران کا دعویٰ ہے کہ گذشتہ دنوں اس کے دس فوجیوں کو پاکستانی علاقوں سے گھات لگا کر فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا۔یاد رہے کہ ایران نے تہران میں تعینات پاکستانی سفیر کو طلب کر کے پاکستانی سرحد کے قریب شدت پسندوں کے حملے میں ایرانی سرحدی محافظوں کی ہلاکت پر احتجاج بھی کیا ہے۔گشت کرنے والے محافظوں پر حملے کی ذمہ داری جیش العدل نامی دہشت گرد گروپ نے قبول کی ہے اور ایرانی حکام کا دعویٰ ہے کہ حملہ آور سرحد پار سے آئے تھے۔ ایرانی خبر رساں ادارے ارنا کے مطابق پاکستانی سفیر کو بتایا گیا تھا کہ ایرانی سرحد سے متصل پاکستانی علاقے سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں اور ایران کو امید ہے کہ پاکستان اس قسم کے حملوں کی روک تھام کے لیے ماضی میں کیے گیے وعدے پورے کرے گا۔
یہ بھی یاد رہے کہ اس وقعے کے بعد ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور وزیر داخلہ سمیت اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کی تھیں،جبکہ ایرانی صدر حسن روحانی نے بھی وزیر اعظم کے نام اپنے پیغام میں احتجاج ریکارڈ کروایا تھا۔ لیکن گذشتہ روز ایرانی مسلح افواج کے سربراہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر پاکستان نے سرحد پار ایرانی علاقے میں حملے کرنے والے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہ کی تو ایران پاکستان میں ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنائے گا۔میجر جنرل محمد باقری کی جانب سے یہ بیان گذشتہ ماہ پاکستان اور ایران کے سرحدی مقام “میرجاوا “میں دس ایرانی سرحدی محافظین کی ہلاکت کے بعد آیا ہے۔جنرل باقری نے کہا کہ “ہم اب اس طرح کی صورتحال برداشت نہیں کریں گے۔روئٹرز نے ایرانی خبر رساں ادارے ارنا کے حوالے سے لکھا ہے کہ میجر جنرل محمد باقری کا مزید کہنا تھا کہ “ہم امید کرتے ہیں کہ پاکستانی حکام سرحد کو کنٹرول کریں گے اور دہشت گردوں کو گرفتار کر کے ان کے ٹھکانوں کو ختم کریں گے۔جنرل باقری نے کہا کہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ایران پاکستان کی سرحد کے اندر بھی کارروائی کر سکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ،اگر دہشت گردوں کے حملے جاری رہے تو ہم ان کی محفوظ پناہ گاہوں اور ٹھکانوں کو نشانہ بنائیں گے چاہے وہ کہیں بھی ہوں۔اس سے قبل ایران کے وزیر دفاع جنرل حسین دہقان بھی کہہ چکے ہیں کہ پاکستان سے ملحقہ سرحد پر ایرانی محافظوں کی ہلاکت پر ایران جوابی کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
در اصل جیش العدل ایک شدت پسند تنظیم ہے جو جند اللہ کے بطن سے نکلی ہے۔یہ امر واقعی ہے اورکوئی بھی ذی فہم اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ دہشت گردی کسی بھی ملک اور خطے کے لیے سود مند نہیں۔ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ملک ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیاں سب سے زیادہ ہیں۔اس وقت مشرق ِوسطیٰ میں بالخصوص فرقہ وارانہ بنیادوں پر آگ بھڑکائی جا رہی ہے۔ ایران جیسے قدیم ملک کو اس عالمی سازش کا ادراک کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف عسکری کارروائی کی دھمکی دینے کے بجائے،اپنے تحفظات سفارتی طریقے سے طے کرنے چاہئیں۔پاکستانی اور ایرانی عوام کے صدیوں پرانے دینی و ثقافتی تعلقات ہیں اور دونوں ملکوں کی سیاسی قیادت کو ان تعلقات کی پاسداری کرتے ہوئے ا نھیں مزید مستحکم و مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے اور اس کی فوج دنیا کی نامور افواج میں سے ایک ہے۔خطےمیں امن کے قیام کے لیے ایران کو پاکستان کا ہم رکاب ہونا چاہیے نہ کہ پاکستان کے اندر کارروائی کرنے کی دھمکی دینی چاہیے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply