جمہوری اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کی شرعی حیثیت

کسی طبقے کو معاشرے میں کیا حیثیت حاصل ہے اور اس کے شہری وسیاسی حقوق کیا ہیں، اس کے تعین میں مجموعی معاشرتی رویوں کے ساتھ ساتھ آئینی وقانونی تصورات کو بھی بہت اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ مسلم اکثریتی معاشروں میں بسنے والی غیر مسلم آبادی کے متعلق کلاسیکی اسلامی تصور یہ تھا کہ وہ ’’اہل ذمہ’’ ہیں جن کی حیثیت ایسے شہریوں کی ہے جن کی جان ومال اور مذہب کو ازروئے معاہدہ تحفظ حاصل ہے، لیکن وہ شہری وسیاسی حقوق میں اکثریت کے برابر شمار نہیں ہوتی۔ جدید جمہوری ریاستوں میں شہریت کا تصور اس سے بالکل مختلف ہے۔ یہاں شہریوں میں ایسی کوئی تفریق نہیں کی جا سکتی اور نتیجتاً‌ سیاسی وقانونی حقوق میں کسی مذہبی امتیاز کے بغیر تمام شہری یکساں حیثیت رکھتے ہیں۔

اس حوالے سے ہماری سیاسی قیادت کے تصورات تو روز اول سے واضح رہے ہیں، جیسا کہ قائد اعظم اور دیگر سیاسی قائدین کے بیانات وتصریحات سے عیاں ہے۔ البتہ مذہبی سیاسی قائدین اور خاص طور پر مذہبی علماء کو اس تغیر کو سمجھنے اور اسے قبول کرنے میں وقت لگا ہے اور شاید مزید لگے گا۔ دوسرے بہت سے امور کی طرح، اس معاملے میں بھی مولانا مودودی ہمارے ہاں کے شاید پہلے مذہبی مفکر تھے جنھوں نے اجتہادی بصیرت سے کام لیتے ہوئے اس تغیر کو باقاعدہ علمی توجیہ کا موضوع بنایا اور یہ واضح کیا کہ پاکستان میں غیر مسلموں کی حیثیت اہل ذمہ کی نہیں ہے، اس لیے ان پر کلاسیکی فقہی احکام کے مطابق جزیہ وغیرہ عائد نہیں کیا جا سکتا۔ اہم بات یہ ہے کہ مولانا نے صرف حکم بیان کرنے پر اکتفا نہیں کی، بلکہ اصل سوال کو بھی موضوع بنایا ہے، یعنی یہ کہ کلاسیکی فقہ میں بیان کیا جانے والا حکم آج کس بنیاد پر قابل اطلاق نہیں ہے۔ یہ سوال وجواب ’’رسائل ومسائل’’ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ (اس ضمن میں یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ مسئلہ جہاد کی طرح اسلامی ریاست سے متعلق دیگر اہم سوالات کے حوالے سے مولانا کی فکر میں ارتقا پایا جاتا ہے۔ غیر مسلم شہریوں کے قانونی اسٹیٹس سے متعلق بھی مولانا کے زاویہ نظر میں یہ ارتقا موجود ہے، لیکن اس کی تفصیل پھر کبھی)۔

تاہم روایتی مذہبی علماء کے ہاں معاملات کو قدیم فقہی پیرا ڈائم میں ہی دیکھنے کا رجحان غالب رہا ہے اور ان کی تحریروں اور فتاویٰ جات میں انھی قدیم اصطلاحات وتصورات کی روشنی میں صورت حال کو دیکھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر اسراراحمد صاحب مرحوم کے ہاں بھی ’’نظریاتی ریاست’’ کا وہی تصور ملتا ہے جس میں اقلیتیں بہرحال دوسرے درجے کی شہری ہوں گی۔ تحریک طالبان وغیرہ گروہوں کا تصور ریاست بھی یہی ہے۔ بہت سے معاصر اہل علم بھی (مثلاً‌ برادرم ڈاکٹر مشتاق احمد)، جو بنیادی طور پر پاکستانی آئین کو پوائنٹ آف ریفرنس کے طور پر قبول کرتے ہیں، اقلیتوں کے حقوق اور آزادیوں کی عملی تفصیلات کے لیے کلاسیکی فقہ سے ہی رجوع کرتے اور فقہی تصریحات کو جمہوری ریاست کے باشندوں پر منطبق کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس تناظر میں، میرے خیال میں، مفتی منیب الرحمن صاحب کا اپنے حالیہ کالم میں یہ ارشاد ایک اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل ہے کہ ’’ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ ہماری قانونی و سیاسی اصطلاحات اور روز مرّہ محاورے میں لفظِ اقلیت کے استعمال کو ترک کر دیا جائے اور تمام غیر مسلموں کو مساوی درجے کا پاکستانی تسلیم کیا جائے۔’’ یہ جمہوری قومی ریاست کے تصور کا ایک ناگزیر تقاضا ہے اور ایک مستند روایتی عالم دین کے قلم سے یہ بات پڑھ کر امید بندھتی ہے کہ روایتی مذہبی فکر اور معاصر تاریخی سیاق کے مابین فاصلہ کچھ کچھ سمٹ رہا ہے۔ بس مفتی صاحب اور دیگر روایتی اہل علم سے ہماری گزارش یہ ہوگی کہ وہ اپنے موجودہ موقف کو کلاسیکی فقہی موقف کے ساتھ گڈمڈ نہ کریں اور نہ اسے اس کا تسلسل دکھانے کی غیر علمی روش اختیار کریں (جیسا کہ مفتی صاحب کی مذکورہ تحریر میں بھی یہ پہلو صاف نمایاں ہے)۔ انھیں یہ حقیقت واضح طور پر تسلیم کرنی چاہیے کہ ’’دار الاسلام’’ کا روایتی فقہی تصور اور جدید جمہوری مسلم ریاست کا تصور، ہم معنی نہیں ہیں اور دونوں کے درمیان بنیادی فروق پائے جاتے ہیں۔ اس کی روشنی میں انھیں اپنی فقہی واجتہادی بصیرت کو اس سوال کا علمی جواب طے کرنے میں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے کہ علمی وفقہی روایت سے وابستہ ہوتے ہوئے معاصر تغیرات کو قبول کرنے کی گنجائش کیسے پیدا ہوتی ہے۔ یہ ایک علمی قرض ہے جو پاکستان میں ’’جمہوری اسلامی ریاست’’ کو مذہبی جواز فراہم کرنے والے تمام اہل علم کے ذمے ہے اور اسی میں ان ابہامات کا ازالہ بھی پوشیدہ ہے جو تحریک طالبان جیسے گروہوں کی فکری گمراہی کے بہت بڑی حد تک ذمہ دار ہیں۔

Facebook Comments

عمار خان ناصر
مدیر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply