ایک حقیقت ایک افسانہ (وہ چلی گئی)تحریر/فرزانہ افضل

لندن کے ایک انگریزی ریستوران میں بھرپور توجہ کے ساتھ کھانا کھاتے ہوۓ میں ایک دم سے چونکی، “ذرا اپنی بائیں جانب دیکھو”۔ میری دوست رمشہ نے مجھے کہنی سے ہلکا سا ٹہوکا دیتے ہوئے میرے کان میں سرگوشی کی۔ میں جو باہر جا کر بھی اکثر خیالوں میں کھو جاتی ہوں، بڑی احتیاط سے نیچرل انداز اپناتے ہوئے اپنی دوست کی ہدایت پر عمل کیا۔ بائیں جانب میز پر ایک سفید فام جوڑا نہایت محبت سے کھا اور پی رہے تھے۔ ” تمہیں معلوم ہے یہ شیمپین کی بوتل ہے کم از کم سو پاؤنڈ کی آتی ہے”۔ رمشہ نے اس فیلڈ میں اپنی اعلیٰ  معلومات کی شیخی بگھاری۔ “ہوں۔۔”  میں بے نیاز قسم کی بندی بغیر زیادہ توجہ دیئے پھر سے کھانے میں مشغول ہو گئی۔ ”

وہ اسے اس لیے اتنی مہنگی شراب پلا رہا ہے اور اس مہنگے ریستوران میں کھانا کھلا رہا ہے کہ وہ اس کی کیئر کرتا ہے اپنی محبت کا اظہار کر رہا ہے۔” رمشہ نے مجھے مرعوب کرنے کی ایک بار پھر کوشش کی۔ ہمارے دیسی کلچر میں محبت اور کیئر کے اظہار کا طریقہ بالکل مختلف ہے۔ عورت اپنے شوہر کیلئے محنت اور دلجمعی سے اچھا کھانا پکانا اور کھلانے کو محبت سمجھتی ہے۔

بچپن سے سنتے چلے آرہے ہیں مرد کے دل تک پہنچنے کا راستہ اس کے معدے سے ہو کر جاتا ہے۔ مگر اس فارمولے پر پورا پورا عمل کرنے کے باوجود بھی بہت سی عورتیں اپنے مردوں کے دِلوں تک نہیں پہنچ پاتیں۔ اس کے ساتھ ساتھ شوہر کے والدین اور گھر کے بقیہ افراد کی خدمت بھی کرتی ہیں تاکہ سب کا دل جیت سکیں۔ جبکہ مرد اپنی محبت کا اظہار اپنی محنت کی کمائی کے ذریعہ کرتا ہے جو وہ بیوی بچوں اور خاندان پر خرچ کرتا ہے ۔ تمام معاشی ذمہ داریاں اٹھاتا ہے۔ مگر اب میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے لوگوں میں آگہی آگئی ہے اور محبت کے انداز بدلنے لگے ہیں۔ لوگ کافی حد تک مغربی ثقافت کو اپنانے لگے ہیں۔ جہاں اپنی بیوی یا گرل فرینڈ کو ڈنر ، شاپنگ اور چھٹیوں پر لے جانا اپنے پیار کے اظہار کے لیے ضروری ہو گیا ہے۔ اس جوڑے کو دیکھ کر یہ سارا موازنہ چند لمحوں میں ہی میرے دماغ کے کمپیوٹر میں آن ہو گیا۔ وہ جوڑا کھانے اور پینے کے دوران طوطا مینا کی طرح خوب پیار محبت میں بھی مصروف تھا۔ کچھ دیر گزرنے کے بعد ہم نے اس گورے کو بے چینی سے اٹھ کر ادھر اُدھر کچھ ڈھونڈتے ہوئے پایا۔ چند لمحوں کے بعد وہ ہمارے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ کیا ہم نے اس کی گرل فرینڈ کو دیکھا ہے وہ کدھر گئی ہے۔۔۔؟رمشہ جو بڑے انہماک سے اس جوڑے پر مسلسل نظر رکھے ہوئے تھی، اور ان کی حرکتوں سے خوب لطف اندوز ہو رہی تھی، اس نے اس آدمی کو جواب دیا،” وہ تو کچھ دیر پہلے کوٹ پہن کر باہر چلی گئی ہے۔” اس وقت شاید وہ آدمی واش روم گیا تھا۔ ایسا سننا تھا کہ اس بیچارے کا رنگ ایکدم سفید پڑ گیا اور اس کے چہرے پر شدید حیرت چھا گئی۔ ” اچھا” کہہ کر وہ بے یقینی کے عالم میں پھر ادھر ادھر دیکھنے لگا کہ شاید وہ نظر آ جائے یا واپس آ جائے۔ پھر اس نے رمشہ سے دوبارہ دریافت کیا، “کیا آپ کو یقین ہے کہ وہ واقعی چلی گئی ہے؟” رمشہ نے پورے وثوق سے بتایا کہ اس نے خود اس لڑکی کو کوٹ پہن کر جاتے ہوئے دیکھا ہے۔ وہ شخص بے انتہا اداس اور مایوس ہوگیا اور بیٹھ کر شائد اسی لڑکی کو ٹیکسٹ کرنے لگا۔ “دیکھو وہ لڑکی کیسے اس بیچارے کے ساتھ کھا پی کر ، انجوائے کر کے نکل گئی-” رمشہ نے صورتحال پر تبصرہ کیا۔ میں نے رمشہ کی آنکھوں میں دیکھا اور کہا،” زندگی میں ایسا ہی تو ہوتا ہے”۔

Advertisements
julia rana solicitors

رمشہ پوری توجہ کے ساتھ زندگی پر میرے فلسفے کا انتظار کرنے لگی۔ میں نے اسے سمجھایا۔ ” اس میں حیرت کی کیا بات ہے، کون کسی کو کب چھوڑ جائے کیا بھروسہ ہے ، لوگ ساتھ چلتے چلتے ایک دم سے راستے میں چھوڑ دیتے ہیں۔ پیار ، محبت اور ساتھ نبھانے کے وعدے اور دعوے کرنے والے اچانک نظریں پھیر لیتے ہیں۔ اور کئی  تو محض فائدہ اٹھانے کے لیے ساتھ ہوتے ہیں جونہی مفادات پورے ہوئے چلتے بنتے ہیں۔ دل ٹوٹتا ہے تو ان کا جو خلوص دل سے محبت کرتے ہیں۔ محبت ہوتی ہی خلوص دل سے ہے ، ورنہ ہوتی ہی نہیں۔ بھروسہ پاش پاش ہوتا ہے ان کا جو بھروسہ کرتے ہیں۔ مطلبی، خود غرض ، موقع پرست لوگ دوست ہوں یا محبوب بنا دوسرے کی پرواہ کیے آگے نکل لیتے ہیں۔ زندگی میں اتنا کچھ سہا اور دیکھا ہے کہ اب کسی بات پر حیرت نہیں ہوتی۔ بس ایک بات ضرور ہے کبھی کسی کو کبھی اپنا فائدہ اٹھانے مت دینا۔ کبھی کسی پر آنکھیں بند کر کے اعتبار مت کرنا کہ اب اعتبار کا دور ہی نہیں رہا۔ آجکل کا پیار محبت زندگی بھر کا بندھن نہیں ہوتا ، آج ہے تو کل نہیں۔ لہذا محبت کے جوش میں ہوش مت گنوانا۔” اب رمشہ میری باتوں سے مرعوب ہو کر تائید میں سر ہلانے لگی تھی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply