پاک فوج میں مسلکی تقسیم؟ ۔۔۔ نا ممکن

فیس بک پر آج ایرانی آرمی چیف کے بیان کے تناظر میں کی گئی ایک پوسٹ میں عرض کیا تھا کہ پاک فوج میں مسلکی تقسیم کا کوئی وجود نہیں جس پر بعض احباب نے اتفاق نہیں کیا اور اپنی “خواہش کو خبر” بنانے پر مصر رہے۔ لہٰذا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان کو چند ایک حقائق سے روشناس کرا دیا جائے تاکہ مسلک کا چورن بیچنے والے کوئی بہتر کام کر سکیں۔
تو دوستو، سنجیدہ اور باوقار لوگ اپنی نشستوں پر تشریف رکھیں اور مسلکی ہیضے کے شکار متعصب سلفی، دیوبندی اور شیعہ آگے آکر کھڑے ہوجائیں۔
اب آپ میں سے سینئیر لوگ آمر اعظم زیاں الحق ۔۔۔۔ چلیے آپ ضیا الحق کہہ لیجیے۔۔۔۔ کے دور میں وقوع پذیر ہونے والے نمونے کے دو تین واقعات کی تصدیق کیجیے:
ایک، 1984 کی دہائی میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت ایس ایس جی کے دو دستے مستقل طور پر شاہی خاندان کی حفاظت کے لیے سعودی عرب میں تعینات کیے گئے تھے۔
دو، 1982 سے 1988 تک ہر برس 23 مارچ کی فوجی پریڈ میں ایس ایس جی کے چھاتہ بردار فری فال کا مظاہرہ کرتے اور ان کی قیادت ایک بھاری جسم والا بریگیڈئر کرتا جس کی سیاہ یونیفارم پر “یا اللہ” لکھا ہوتا۔ جمپ کے بعد جب یہ کمانڈوز قطار میں کھڑے ہوتے تو جنرل ضیا الحق اس بریگیڈئر کو سینے سے بھی لگاتا اور اس کا ماتھا بھی چومتا۔
تین، 1988 میں طیارہ حادثے میں جب ضیا الحق کی موت واقع ہوئی تو جس فوجی ایمبولینس میں تابوت آرمی ہاؤس سے فیصل مسجد لیجایا گیا، اس کے پچھلے دروازے پر ایک بریگیڈئر تقریبا لٹکا ہوا کھڑا تھا اور اس کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو ٹی وی کیمروں پر صاف دیکھے گئے تھے۔
اب سنیے ذرا، دوسرے اور تیسرے واقعے والا بریگیڈئر ایک ہی ہے یعنی طارق محمود اور پہلے واقعے کے وقت بھی ایس ایس جی کا کمانڈر بھی یہی بریگیڈئر تھا جسے لوگ ٹی ایم کے نام سے بھی جانتے تھے جو جنرل ضیا الحق کا منظور نظر افسر تھا۔ سعودی عرب بھجوائے جانے والے ایس ایس جی دستوں کی تعیناتی میں بھی ٹی ایم کا اہم ترین کردار تھا۔
ضیا الحق کے بارے میں آپ کو معلوم ہے کہ اس کا تعلق دیوبندی مسلک سے تھا البتہ شاید بعض نوجوان یہ نہیں جانتے کہ بریگیڈئر طارق محمود کا پورا نام سید طارق محمود زیدی تھا اور ان کا تعلق اہل تشیع فرقے سے تھا۔ بریگیڈئر ٹی ایم کے کارناموں کی فہرست طویل تو ہے تاہم اس پوسٹ کا موضوع نہیں۔ آپ کی توجہ اس جانب مبذول کرانا مقصود ہے کہ پاک فوج کے اندر سیاسی عزائم سے لے کر رئیل اسٹیٹ اور بینکنگ تک سو خرابیاں ہیں جن پر ہم ہمیشہ تنقید کرتے ہیں لیکن اس کے اندر مسلک اور صوبائیت کا کیڑا پہلے دن ہی ختم کر دیا جاتا ہے۔
بریگیڈئر ٹی ایم کے خالہ زاد بھائی لاہور میں رہائش پذیر ہیں، اچھے شاعر اور اردو کے پروفیسر ہیں۔ ایک بار پاک ٹی ہاؤس میں ان کے ساتھ گفتگو کے دوران میں نے پوچھا، شاہ جی آپ تو ضیائی آمریت کے اس قدر خلاف لکھتے رہے ہیں، لیکن ٹی ایم شہید اسی ضیا کے قریب ترین افسروں شامل تھے۔ اس پر پروفیسر صاحب مسکرائے اور جو جواب دیا، وہ فوج کی ذہنیت سمجھنے کے لیے کافی ہے:
“یہ فوج بڑی ڈاہڈی چیز ہے، اس میں جانے کے بعد بندہ صرف اسی کا ہوجاتا ہے، مذہب، مسلک، زبان، علاقہ، صوبہ ۔۔۔۔ ہر چیز بھول جاتا ہے۔”

Facebook Comments

ژاں سارتر
کسی بھی شخص کے کہے یا لکھے گئے الفاظ ہی اس کا اصل تعارف ہوتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply