ادبی بیٹھک اور لاہوری ناشتہ

اتوار کے روز UMT یونیورسٹی لاہور میں ادبی بیٹھک کا انعقاد ہوا، جس میں پاکستان کے جانے پہچانے صحافی وسعت اللہ خان اور سندھ اکادمی بورڈ کے سابق ڈائریکٹر آغا نور محمد پٹھان دونوں نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔
تقریب کا وقت 9 بجے صبح تھا لیکن اتوار کا دن ہونے کے باعث لوگ اپنے گھروں سے تقریبا 9 بجے ہی نکلے لیکن ہال تک پہنچتے پہنچتے اور ہال بھرتے بھرتے کم و بیش 10 بج ہی گئے،
محفل کے شرکا کے آمد جاری رہی اور اسی دوران عُزل گوئی بھی جاری، جس نے کے ماحول کو کافی حد تک ایک رومانوی رنگ دے دیا۔
10:30 بجے ناشتہ کا اعلان کیا گیا، جو کے حقیقت میں ایک لاہوری ناشتہ تھا بکرے کے پاۓ (حقیقت میں بکرے کے) روغنی نان، حلوہ پوڑی، دو قسم کے۔چنے اور ہلکا ناشتہ پسند کرنے والوں کے لئے توس، جیم، فراہی کے ساتھ ساتھ آملیٹ، مکس اچار اور چٹنیوں کے ساتھ ساتھ، چاۓ اب اتنا کچھ ہونے باوجود یار لوگوں کی تسلی نا ہو تو کیا کہا جاۓ، ایک صاحب نہایت بری طرح کھانے کے بعد جو کے ان کے کاٹن کے سفید سوٹ سے ظاہر ہو رہا تھا بری طرح پاۓ کی ہڈی چباتے ہوے گویا ہوے
یاڑ لسی نیہوں ڑکھی اہناں۔۔۔۔ ہن کھسی چاہ نہں پی سکدا میں۔
یہ تو تھی بات ناشتہ کی اس کے فورا بعد تقریب کا آغاز کیا گیا، پریس کے روح رواں مرزا صاحب نے مہمانوں کا تعارف کروایا اور کمپیئر احمد سہیل نصراللہ نے مہمان خصوصی آغا نور محمد پٹھان صاحب کو ڈائس پر دعوت دی، آغا صاحب جو کے سندھی کلچر اور ادب کی نمائندگی کر رہے تھے انہوں نے سندھی کلچر تاریخ اور ادب پر نہایت مفصل اور تفصیلی گفتگو کی اور کم از کم میرے ذہین میں موجود بعض ابہام دھو ڈالے، اسی طرح اس تقریب میں موجود دوسرے 200 کے قریب شرکا کا ۔بھی یہ ہی حال تھا انہوں نے آغا صاحب کی گفتگو کا بے حد لطف لیا اور سراہا۔
اس موقع پر انہوں نے دل کو موہ لینے والی بات کی کے ہم اپنے ملک میں بولے جانے والی کسی زبان کی بنیادی تعلیم پرائمری و مڈل کی سطح پر تو لیتے نہیں لیکن ماسٹرز لیول پر ہم ان زبانوں میں ایم اے کر لیتے ہیں۔ اور بڑے فخر سے بتاتے ہیں جی کے یم ایم اے اردو یا ایم اے پنجابی ہیں، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہم ایک انتہائی عمدہ کڑھائی والا کرتا تو پہن لیں لیکن شلوار نا پہنیں۔ اُن کی اس بات کو ہال میں موجود سنجیدہ شرکا نے بہت سراہا میرے جیسے کم عقل بات کو دوسری جانب لے جاکر مزہ لیتے رہے اور کچھ یار لوگ اس کو پنجابی اور اردو زبان کے خلاف تعصب سمجھ کر دانت پیستے رہے۔
اس موقعہ پر آغا صاحب نے شاعری کی بات کی عبدالطیف بھٹائی کا ذکر ہوا تو فورا احمد سہیل بھائی نے ایک وقفہ لیتے ہوے ایک شرکا میں سے ایک سندھی بھائی کو کلام بھٹائی کے لیے دعوت دی جنہوں نے کلام سنا کر پوڑی محفل پر سندھی رنگ چڑھا دیا۔
آغا صاحب نے مثالیں دے کر اس بات کو واضح کیا کے سندھی اور پنجابی زبان کتنی پرانی اور کلچر سے کسطرح ہم آہنگ ہیں۔
اس کے بعد صدر محفل وسعت اللہ خان صاحب ڈائس پر آۓ اور ان کے ابتدائی الفاظ یہ تھے۔
اتوار کا دن صبح نو بجے کا وقت 200 سے زائد شرکاء انتہائی پرتکلف ناشتہ ادیب کالم نگار، صحافی اور علم دوست لوگ یہ لاہور ہے
اس کے بعد انہوں نے پوچھا کے وہ پنجابی یا اردو میں بات کریں تو ایک سندھی بھائی نے فورا کہا خان صاحب آپ کی اردو تو ہم سنتے ہی آۓ ہیں آج پنجابی، اور خان صاحب نے نا صرف تقریر بلکہ اس کے بعد سوال و جواب کی نشست میں بھی پنجابی میں ہی بات کی۔
جہاں انہوں نے سندھی اور پنجابی ادب و کلچر پت بات کی وہاں ہی انہوں نے چند خامیوں کا ذکر بھی کیا اور بھرپور تنقید کی جسکو کے آغا صاحب اور تمام شرکا نے سراہا۔
اس موقعہ پر انہوں نے کہا کے اردو کو پاکستان کی سرکاری زبان قرار دیا گیا ہے لیکن ابھی تک اسکو اسکی روح کے مطابق رائج نہیں کیا جا سکا کیونکہ ہماری قومی زبان تو وہ ہے جو کے ہمارے ارباب اختیار بولتے ہیں اور اردو کو تو وہ صرف ایک رابطہ زبان کے طور پر لیتے ہیں اور خود آپس میں انگریزی میں گفتگو کرتے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے کہا کے وہ گرمکھی انداز میں بھی لکھتے ہیں جس پر چند لوگوں نے ان کو کہا کے اپ کو غیر مسلم زبان لکھتے ہوے شرم آنی چاہیے، اب آپ بتائیں کے کون سی زبان یا رسم الخط مسلم ہے اور کونسا غیر مسلم، اسرائیل کی دو قومی زبانیں ہیں ایک ہیبرو اور دوسری عربی اب اگر یہودی عربی بولے تو کیا وہ مسلم زبان بولتا یا لکھتا ہے، اسی طرح اگر تھوڑا پیچھے جائیں تو اسلام آنے سے پہلے مکہ مدینہ میں تمام لوگ یہ ہی زبان بولتے تھے، انہوں نے مزید کہا کے انڈیا میں 25 سے زائد زبانوں کو سرکاری زبان کا اسٹیٹس حاصل ہے۔ تو پاکستان میں صرف اردو کو ہی سرکاری زبان کا درجہ کیوں ہے اس کےساتھ ساتھ انہوں پنجابی زبان کو درپیش مسائل کا نوحہ بھی کہا۔
دونوں مہمانوں کی تقاریر کے بعد سوال و جواب کا سلسہ شروع ہوا اور ہال میں موجود یو ایم ٹی یونیورسٹی کے طالبعلموں نے سوالات شروع کیے اور مفصل و تسلی بخش جوابات پاۓ، پورے ہال میں سے ہونے والے تابڑ توڑ سوالات کے جوابات دونوں مہمانوں نے انتہائی تفصیل کے ساتھ دیے ما سواۓ ایک دو غیر متعلقہ سوالات کے باؤنسر انہوں نے سیٹ بیٹسمینوں کی طرح ڈک کر کے وکٹ کیپر کی جانب جانے دیے۔
مجموعی طور پر اگر دیکھا جاۓ تو مقرر و شرکا کا آپس میں گھلنا ملنا انتہائی محبت و کھلے دل سے تنقید کو سننا دلیل سے بات کرنا اور مکالمہ کی اصل روح اس پروگرام میں نظر آہی جس پر یو ایم ٹی یونیورسٹی و پریس کی انتظامیہ کے ساتھ پروگرام کے کوآرڈینیٹر احمد سہیل نصراللہ بہت بہت مبارکباد کے مستحق ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ میں احمد بھائی کا بےحد شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھے انتظامی امور میں ساتھ ساتھ رکھا اور “مکالمہ ویب سائٹ “کے پلیٹ فارم سے سوشل میڈیا کے دوستوں کو دعوت میرے ذمہ دی، اور میرے دوستوں نے شرکت کر کےمیرا مان بڑھایا، جن دوستوں نے شرکت کی ان میں احمد سلیم فاضل، محسن حدید (حبیب الرحمن)، بلال بھٹی، قمر عباس اعوان، زائد صدیقی حسیب اعجاز صاحب حسنین جمال صاحب اور خانیوال سے اسپیشل رانا تنویر عالمگیر صاحب نے شرکت کی،
ڈاکٹر عاصم اللہ بخش صاحب دانیال احمد (دلیل) اور ظفر مغل صاحب مصروفیت جبکہ مرشدی سید جاوید حیدر صاحب، پیارے جلالی ژاں ساترے صاحب اور خرم مشتاق صاحب باوجود علالت تشریف نا لا سکے، جن کی کمی یقیناً محسوس کی گئی۔

Facebook Comments

حسام دُرانی
A Frozen Flame

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply