سعودی عرب ، جدیدیت کی طرف گامزن۔۔۔انوار احمد

پہلی جنگ عظیم سے قبل خلافت عثمانیہ کی حکمرانی تقریباً سارے کے سارے مشرق وسطی، افریقہ میں کئی ممالک اور مشرقی یورپ کے ایک بڑے حصے پر قائم تھی۔ ایک شاندار ماضی رکھنے کے باوجود وہی ترکی جو سلطنت عثمانیہ کا مرکز تھا کمزور سے کمزور  تر ہوتا چلا گیا جسکی بڑی وجہ ریشہ دوانیاں ، محلاتی سازشیں اور عیاشیاں تھیں ۔ سلطان کے حرم میں سیکڑوں کنیزیں اور دنیا بھر سے لائی گئیں حسین و جمیل خواتیں ہمہ وقت سلطان کی دسترس میں ہوتیں یہی حال دوسرے امراء اور اشرافیہ کا تھا سب کے سب اپنی بساط کے مطابق داد و عیش میں مصروف تھے ۔۔۔۔

وہی ترکی جس سے یورپ کے حکمراں لرزتے تھے اور اسے خراج دیتے تھے یورپ کا ” مرد بیمار Sick man of Europe” کے نام سے پکارا جانے لگا۔

ایسے میں کمال اتا ترک کی قیادت میں ایک تحریک نے جنم لیا جس نے ترکی سے نظام خلافت کو اکھاڑ پھینکا ۔۔۔۔ اور اس طرع تقریباً آٹھ سو سال بعد سلطنت عثمانیہ اپنے انجام کو پہنچی اور ایک جدید ترکی کا ظہور ہوا ۔۔

پہلی عالمی جنگ میں ترکی جرمنی کا حلیف تھا۔ جنگ میں جرمنی اور اسکے حمایتیوں کو شکست ہوئی۔ اور ترکی میں تاج برطانیہ کا اثر رسوخ بڑھنے لگا ۔ یورپ اور برطانیہ نے مشرق وسطی میں اپنا دائرہ کار بڑھانے اور خطہ میں اپنا اپنا حصہ بٹورنے کی کوششیں شروع کردیں ۔

برطانوی یہودیوں کی تنظیم Zionist Federation کا اصرار تھا کہ انہیں فلسطین( جسے وہ Promised land اور اپنا موروثی وطن مانتے تھے ) کے اطراف میں ایک خطہ دیا جائے جہاں دنیا بھر سے یہودی لاکر بسائیں جائیں تاکہ ایک یہودی اسٹیٹ قائم کی جائے جس کے خواب وہ ہمیشہ سے دیکھتے آئے تھے ۔۔۔ حالانکہ ان کو ارجنٹینا میں ایک یہودی مملکت کے قیام  کی پیشکش کی گئی تھی جسے انہوں نے مسترد کردیا اور فلسطین پر ہی بضد رہے جسے وہ اپنی آباء کی سرزمین مانتے تھے ۔

یورپ اور برطانیہ کو مشرق وسطی کی اہمیت اور اس کے ریگزاروں کے نیچے چھپے تیل کے خزانوں کا اندازہ ہوگیا تھا لہذا اس خطہ پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئیے جدوجہد شروع ہوگئی۔ برطانیہ نے بڑی ہوشیاری سے عرب نیشنل ازم کو بڑھاوا دیا اور عربوں کی باہمی کشمکش کو خوب استعمال کیا اس مقصد کے لئیے حجاز کے حکمران حسین بن علی کی خدمات حاصل کی گئیں جس نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کا اعلان کردیا۔ دیگر عرب قبائل نے بھی اس بغاوت میں حسین کا ساتھ دیا ۔

انگریزوں کے ایک ایجنٹ میجر ٹی ایچ لارنس ( جو لارنس آف عربیا) کے طور پر مشہور ہوا نے عرب قبائل کو تربیت دی اور خطے میں ترکوں اور سلطنت عثمانیہ کے خلاف کارروائیاں تیز کردیں۔ ریلوے لائن اکھاڑدی گئیں اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا یہاں تک کہ خلیج عقبہ پر لارنس اور اس کے ہمنوا عرب قبائل نے قبضہ کرلیا۔

تاج برطانیہ کے سیکریٹری آف اسٹیٹ آرتھر بالفور نے ایک یہودی تنظیم کے سربراہ لارڈ ڈوروتھ کو ایک خط لکھا جس میں یہودی ریاست کے قیام کی یقین دہانی کرائی گئی اس منصوبے کی مخالفت حسین بن علی نے کی تو برطانیہ نے انکے متبادل کے طور پر شاہ عبدلعزیز جو آل سعود کے روح رواں تھے سے رابطہ کیا اور انہیں پورے جزیرہ نما عرب پر حکمرانی کا اختیار اس شرط پر دیا گیا وہ نئی یہودی ریاست کی مخالفت نہیں کریں  گے ۔ آل سعود نے حسین بن علی کا خاتمہ کرنے میں تاج برطانیہ کا ساتھ دیا انعام کے طور پر برطانیہ نے عبدالعزیز (شریف مکہ ) کے ایک بیٹے فیصل بن عزیز کو بغداد ،موصل اور بصرہ پر مشتمل ایک نیا ملک عراق کے نام سے بنا کر دیا اور دوسرے بیٹے عبداللہ کو فلسطین اور شام کے علاقہ میں اردن کے نام سے نئی مملکت کا تحفہ دیا ۔ تاکہ نئے ملک ” اسرائیل ” کی راہ میں کوئی مزاحمت نہ ہو اور اس طرع دنیا بھر سے یہودی اس مجوزہ علاقے میں آکر آباد ہونا شروع ہوگئے ۔ یہودی مالدار تھے انہوں نے یہاں آکر مقامی لوگوں سے منہ  مانگی قیمتوں پر زمینیں خریدنا شروع کردیں ۔ عربوں نے خوب مال بنایا اور یہ تاویل پیش کی کہ انہوں نے یہودیوں کو بیوقوف بنادیا کیونکہ انکے مطابق چودھویں صدی کے بعد دنیا کو تو ختم ہی ہوجانا ہے لہذا جتنا ہوسکے ان سے مال بٹور لو ۔ وہ شاید یہودیوں کے اس منصوبے کو سمجھنے ہی سے قاصر تھے ۔۔۔۔۔

بالآخر دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر یورپ اور امریکل کی آشیرباد سے یہودیوں کی ایک نئی ریاست اسرائیل کا باقائدہ قیام عمل میں آیا ۔ ساری دنیا کے مسلمانوں نے اسکے خلاف آواز اٹھائی لیکن بہت دیر ہوچکی تھی اور انکی آوازوں میں بھی دم نہ تھا مزید یہ کہ مسلمانوں کے پاس کوئی باقاعدہ قیادت بھی نہیں تھی جو انکی موثر ترجمانی کر سکتی ۔
ترک عوام سلطنت عثمانیہ کے زوال کی ایک بڑی وجہ عربوں کو سمجھتے تھے اور ان سے کسی حد تک نفرت بھی کرتے تھے لہذا انہوں نے بھی اس آواز میں آواز نہیں ملائی ۔ بلکہ ترکی نے اسرائیل سے جلد ہی سفارتی تعلقات بھی قائم کرلئیے جو ہنوز قائم ہیں ۔۔

آل سعود نجد کے علاقے میں آباد ایک بدو قبیلہ تھا انہی میں سے ایک شدت پسند عالم عبدالوہاب نجدی نے آل سعود کی حمایت اس شرط پر کی کہ اقتدار میں آکر وہ جزیرہ نما عرب پر ایک اسلامی مملکت قائم کرینگے اور بدعت کا خاتمہ کرکے شریعت کا نفاذ کیا جائیگا مزید یہ کہ آل سعود کی حکومت وہابی نظریات اور اقدامات کی کوئی مخالفت نہیں کرینگے جواباً وہ حکومت کو سپورٹ دینگے ۔۔۔ شاہ فیصل کے دور حکومت تک سعودی عرب میں وہابی فلسفہ اور تعلیمات باقی دوسرے تمام شعبوں پر حاوی رہا اور سعودی عرب ایک قدامت پسند معاشرے کے طور پر جانا گیا۔

ستر کی دہائی میں عرب کے ریگزاروں سے تیل دریافت ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہی عرب جو نان شبینہ کے محتاج تھے اچانک امیر ترین ہوگئے ۔Camel to Cadillac کے اس سفر میں انہیں کچھ بھی نہیں کرنا پڑا ۔ امریکن اور برطانوی تیل کمپنیوں نے سعودی عرب اور خلیجی ممالک کو تیل کی دولت سے روشناس کرایا اور انکو راتوں رات امیر کبیر بنادیا ۔ ہر چیز اور ہر نعمت بغیر کسی جدوجہد کے انکے قدموں میں ڈال دی گئیں۔جبکہ دوسری طرف انہوں نے خطہ میں اپنا تسلط جمالیا ۔ تیل اور اس سے منسلک تنصیبات اور اسکے پردے میں فوجی اڈے قائم کرلئیے جس کا عیاشیوں میں ڈوبے ہوئے عربوں کو ادراک ہی نہیں ہوا۔ اس عظیم دولت کو ان جاہل عربوں نے بے دردی سے استعمال کیا اور عیش و عشرت میں Arabian nights کو بھی بہت پیچھے چھوڑ دیا ۔ ۔ یورپ اور امریکہ کے جوے خانے اور نائٹ کلب ان کی پہچان ٹھہرے۔ انہوں نے نہ تو تعلیم پر کچھ خرچ کیا اور نہ ہی متبادل معیشت کی بنیاد ڈالی اور نہ ہی اپنی آنے  والی نسل کو کسی قسم کی آگہی اور تعلیم دی ۔ ہیومن ریسورس کو بھی پنپنے کا موقع نہیں دیا گیا بلکہ عوام کو مذہبی رجعت پسندی کے عمیق غار میں  دھکیل دیا ۔ جدید تعلیم اور بحث مباحثے پر دین کے نام پر قدغن لگا کے عربوں کو ایک تنگ نظر اور متعصب قوم کے پیش کیا جس کے پاس تیل سے ہونے والی دولت اور آسائشیں تو تھیں لیکن سوچنے والا ذہن نہیں تھا انکے رویوں میں رعونت اور اپنے سے کم تر کے لئیے حقارت تھی جسکا کھلا اظہار وہ ان جفاکش مزدوروں پر   کرتے جو روزی روٹی کے چکر میں اپنے ملک اور بیوی بچوں کو چھوڑ کر عرب ممالک کا رخ کرتے ۔ صدیوں سے قائم انکے ذہنوں میں غلام اور کنیزوں کا تصور دولت کے یوں اچانک آجانے سے مزید گہرا ہوگیا اور وہ ہر کسی کی خاص طور سے ایشیائی کی تحقیر کرنا اور ان سے ذلت آمیز سلوک روا رکھنا اپنا حق سمجھتے لیکن وہی عرب کسی بھی گورے کے آگے لیٹ جانے اور انکے تلوے چاٹنے کو باعث افتخار سمجھتے ۔۔۔

عرب اور ایران تنازعہ کے تانے بانے قبل از اسلام سے ملتے ہیں۔ طلوع اسلام کے کچھ عرصے بعد ہی عرب مسلمانوں نے ایران فتح کرلیا اور ہزاروں سال پرانی کسری ایمپائر کا خاتمہ کردیا ۔ لیکن ایرانیوں کے دل سے شہنشاہیت سے عشق اور عرب دشمنی ختم نہ ہوسکی۔ جو مختلف مواقع پر کھل کے سامنے بھی آتی رہی ۔ بنو امیہ اور بنو عباس کے مابین دشمنی سے لیکر چند دہائی پہلے تک کی ایران عراق جنگ بھی شاید اسی دیرینہ مخاصمت کا اظہار ہو ۔

دنیا بدل چکی ہے اور اب کھلی جنگ کے بجائے Cold war اور Proxy war کا زمانہ ہے لہذا عرب اور ایران نے بھی اپنی اپنی جنگ دوسرے مملک میں پراکسی کے طور پر لڑی ۔ افغانستان پر روس کا حملہ ایک Turning point ثابت ہوا ۔ جہاں مذہب کی آڑ میں امریکہ نے اپنے حواریوں کے ساتھ مل کر ” جہادی کلچر” کو فروغ دیا ۔ اس کار خیر میں امریکی ڈالر اور اسلحے کے ساتھ ایک نیا بیانیہ وجود میں آیا ۔ سعودی عرب سے ریال کے علاوہ وہابی اسلام اور تکفیری سوچ بھی درآمد کی گئی ۔ اس “افغان جہاد” کے نتیجے میں امریکہ اور یورپ نے تو اپنے اپنےاہداف حاصل کرلئیے اور دنیا Bipolar سے Unipolar بن گئی جس کا تاج امریکہ کے سر سجا ۔ اس عمل میں پاکستان کی لاجسٹک، عددی ، فکری سپورٹ ، اور دنیا بھر سے درآمد کیے ہوئے دہشت گردوں جو جہادی کے کہلائے گئے کا اہم کردار ہے اسکے علاوہ سعودی عرب کے مفتیوں اور ریال کے ساتھ وہابی فلسفہ ، ابن تیمیہ ، سید قطب اور مولانا مودودی کی سوچ کو خوب گلوریفائی کیا گیا ۔ آج اسی جہادی اور اس سے جڑی متشدد  سوچ نے افغانستان اور پاکستان کو خون میں نہلادیا ۔ Frankenstein کا بھوت جسے ہم ہی نے بیرونی آقاؤں  کے کہنے پر تخلیق کیا تھا ہمارے ہی خون کے پیاسے ہمارے ہی آس پاس اور درمیان ہیں لیکن کسی میں جرات نہیں کہ انکے خلاف کچھ بولے ۔ ہر اٹھنے والی آواز دبا دی جاتی ہے اور ہر سوال کرنے والے کی زندگی کی خیر نہیں ۔۔۔۔

روس کی شکست و ریخت کے بعد افغانستان تو برباد ہوا اور ساتھ ہی پاکستان جو اس “فساد ” میں امریکہ اور سعودی عرب کا ہمنوا تھا بھی بچ نہ سکا ۔ ملک عزیز میں سعودی اشتراک سے مدرسے اور جہادی فیکٹریاں کھل گئیں جن سے نوعمر بچے معمولی تربیت دے کر محاذ پر بھیج دئیے جاتے جو تربیت یافتہ روسیوں کے ہاتھوں گاجر مولی کی طرع کاٹ دئیے جاتے ۔ مذہبی جماعتیں خاص طور سے جماعت اسلامی نے اس کار خیر میں خوب ڈالر بٹورے اور جہادی کلچر کو فروغ دیا۔ افغانستان میں جاں بحق ہونے نوجوانوں کی لاشیں جماعت کے مقامی امیر انکے گھروں کو لے جاتے اور میت کے ورثا کو شہادت کی نوید اور جنت کی بشارت دیتے لیکن کبھی ان جہادی سرغنوں کا کوئی بیٹا یا بھائی شہید نہیں ہوا ۔۔۔۔

آقاؤں  کے حکم پر سعودیوں نے ایران کو کارنر کرنے کی پالیسی اپنائی۔ ایران امریکہ اور اسرائیل کی آنکھوں میں کھٹکتا تھا اسے فکس کرنا ان کے لئیے ضروری تھا اسی طرع ایران بھی سعودی امریکی اتحاد پر نظر رکھے ہوئے تھا اور اسے کسی صورت خطے میں سعودی غلبہ قبول نہیں تھا اسکے پیچھے بھی شاید وہی صدیوں پرانا مسلکی اختلاف ہو ۔

اپنا اپنا حساب چکانے کے لئیے سعودی عرب اور ایران نے اپنی پراکسی وار پاکستان میں لڑی اور اس ملک کو انتہا پسندی اور تشدد کی راہ پر لگا دیا۔ دونوں فرقوں کے افراد نے ایک دوسرے کو کافر قرار دیا۔ مذہب کے نام پے پاکستان کے طول و عرض میں مدرسوں اور ملائیت کا جال بچھادیا گیا ان فیکڑریوں سے دھڑا دھڑ مجاہدین اور خودکش بمبار نکل کر دوسری مذہب اور مسلک کے لوگوں کا قتال کرتے رہے اور ساری دنیا میں جہاد کے نام سے خلفشار پیدا کیا گیا ۔ آج مہذب دنیا کے سامنے ہمارا یہی چہرہ ہے ۔۔۔

وقت کے ساتھ دنیا اور مواصلاتی انقلاب کے بعد اور خاص طور پر افغانستان میں روسی شکست اور اشتراکی فلسفہ کی بربادی کے اثرات دنیا کے ہر حصے میں پڑے اور سودی عرب سے بھی وہابی اسلام کی گرفت کمزور ہوتی گئی یہاں تک کہ آج شہزادہ سلمان اس فلسفے کی یکسر نفی کرتے نظر آتے ہیں اور سعودی عرب کو ایک نئے دور میں لیجارہے ہیں ۔
خبر ہے کہ سعودی شہزادے نے امریکہ میں یہودی تنظیم کے سربراہان سے بھی ملاقاتیں کی ہیں اور انکے ساتھ یک جہتی اور تعاون کی خواہش بھی ظاہر کی ہے ۔ ہوسکتا ہے سعودی اسرائیل سفارتی سطح پر تعلقات بھی جلد بحال ہوجائیں ۔۔۔۔

جدیدیت کی طرف گامزن سعودی عرب کے نئے فرمانروا کچھ زیادہ ہی متحرک ہیں انہوں نے سعودی عرب سے دہائیوں پر پھیلی رجعت اور گھٹن سے نکلنے کا فیصلہ کرلیا ہے انہوں نے سعودی عرب میں کسینو سے لیکر سنیما اور خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دے دی۔ شنید ہے کہ جدہ کے قریب کہیں ایک جدید شہر بھی بسایا جائیگا جہاں یورپ کی طرز پر ہوٹل ۔جوے خانے اور دوسری تمام عیاشیاں دستیاب ہونگی تاکہ سعودیوں کو اپنے ہی ملک میں وہ سب کچھ میسر آجائے جس کے لئیے وہ لاس اینجلس اور مونٹی کارلو کے مہنگے ترین نائٹ کلب جاتے اور کروڑوں ڈالر راتوں رات خرچ کردیتے ہیں۔ شاید شہزادہ سلمان اس طرع باہر خرچ کیے گئے زرمبادلہ کی بچت کرسکیں ۔ شہزادے نے تیل کی گرتی ہوئی قیمت اور اسکے مستقبل کا ادراک کرلیا ہے اسے اندازہ ہوگیا ہے کہ دنیا متبادل توانائی  جلد تلاش کرلے گی اور تیل پر سے انکا انحصار کم سے کم ہوجائیگا جسکے بعد سعودی عرب اور خلیج کے دوسرے ممالک جنکی ساری معیشت کا انحصار تیل سے حاصل کی ہوئی دولت ہے کہیں اونٹوں کے دور میں واپس نہ چلے جائیں ۔

اس ساری تبدیلی سے ہمارا وہ طبقہ جو سعودیوں کی پارسائی کے گن گاتا تھا اور انکے ریال پر عیش کررہا تھا بہت پریشان ہے ۔ کل تک تو سارے مولوی جنہیں سعودی عرب کے فیوض سے نوازا جارہا تھا انکے نزدیک آل سعود ، شیج عبدالوہاب نجدی اور وہابیت بہت اعلی و ارفع تھے اور نام نہاد خادم حرمین شریفین اور ارض مقدس کی تعریف اور توصیف میں زمین کے قلابے ملائے جارہے تھے اب کیا ہوا کہ یکایک وہی لوگ ان ہی سعودیوں کے ڈانڈے یہودیوں سے ملارہے ہیں ۔۔۔ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی!

Advertisements
julia rana solicitors london

یاد رکھیں بادشاہت ، شہنشاہیت،آمریت اور جبر و تشدد کا کوئی مذہب دین یا ایمان نہیں ہوتا اور یہ لوگ دین و مذہب کو صرف اور صرف عوام کو بیوقوف بنانے ،انکی آواز دبانے اور انکا استحصال کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ مذہب انکے نزدیک بہترین ہتھیار ہے ۔ یہی کچھ سولہویں اور سترھویں صدی تک یورپ میں پوپ اور کلیسا نے کیا لیکن جب صنعتی انقلاب کے بعد کلیسا اور پوپ کی بالادستی ختم کی گئی اور انکا کردار محدود کردیا گیا تو یورپ میں ترقی بھی ہوئی اور عوام نے سکھ کا سانس لیا ۔ اب کچھ شاید ایسا ہی ہونے جارہا ہے. شاید اب وہ دن زیادہ دور نظر نہیں جب سعوی عرب سے موروثی بادشاہت کا خاتمہ ہوگا اور عوام کی حکمرانی قائم ہوگی جو ملک کو ایک گھٹن زدہ ماحول نکال کر اسے جمہوریت اور روشنی کی طرف لیجائیں  گے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply