یکم مئی: آنکھیں آہن پوش ہوئیں ،جب خون ِجگر برفاب بنا

یکم مئی 1886، وہ تاریخ ساز دن تھا جب امریکا کے شہر شکاگو کی فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں نے غیر انسانی اوقاتِ کار، حالاتِ کار اور اجرتوں میں اضافے جیسے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے پر امن جدوجہد کا آغاز کیا ۔لیکن شکاگوکے سرمایہ دار حاکموں نے پُر امن اور نہتے مزدوروں کی سفید قمیضوں کو خون سے سرخ کرتے ہوئے یہ ثابت کر دیا کہ محنت کش طبقے کے حقوق غاصب طبقہ کبھی بھی تھالی میں سجا کر پیش نہیں کرے گا ۔یکم مئی کی تحریک کو جبر اور تشدد کے ذریعے دبایا گیا ، اس کے راہنماوں آگست سپائس، البرٹ پارسنز، اڈولف فشرز، جارج اینجلز، لوئس لنگ، مائیکل شواب، سیموئیل فیلڈن اور آسکرنیب کو پھانسی اور طویل قید کی سزائیں سنائی گئیں ۔ لیکن یہ دن دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا۔ شکاگو کے محنت کشوں کی خون آلود قمیضیں جدوجہد کے اس سرخ پرچم میں تبدیل ہو گئیں جو آج دنیا بھر میں ببانگ دہل شکاگو کے ہی ایک شہید مزدور راہنما کی زبان میں یہ اعلان کرتی ہے کہ ” مزدوروں کی آواز بلند ہونے دو ورنہ ان کی تلواریں بلند ہوں گی۔“ سو آج یکم مئی کوئی روایتی دن یا تہوار نہیں بلکہ کرہِ ارض پر بسنے والے کروڑوں محنت کشوں، مظلوموں کا ایسا عالمی اعلان نامہ ہے جو ہر سال ایک نئے عزم اور قوت کے ساتھ محنت کشوں کے طبقاتی دشمنوں کو یہ باور کراتا ہے کہ سرمائے پر محنت کی بالادستی اور غیر مختتم فتح تاریخ کا ایک ایسا ناگزیر امر ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔
یکم مئی کی تحریک کو ئی اچانک پیدا ہوجانے والی تحریک نہیں تھی بلکہ یہ امریکا میں انیسویں صدی کے آغاز سے ہی شروع ہوجانے والی مزدور تحریکوں کا تسلسل تھی۔ 1806میں امریکا کے مزدوروں نے ا وقاتِ کار میں کمی کی تحریک شروع کی جو کافی عرصے تک جاری رہی۔1827میں فلاڈیلیفیاکے مقام پر 15مزدور یونینوں کے اتحاد”مکینکس یونین آف ٹریڈ ایسویسی ایشن“ نے غیر معینہ مدت کی بجائے دس گھنٹے اواقاتِ کار کے لیے احتجاجی تحریک چلائی ۔1861میں امریکی کانوں میں کام کرنے والے محنت کش بھی خود کو منظم کر چکے تھے۔ اس زمانے میں مزدوروں کی بیس انجمنیں قائم ہو چکی تھیں جو اوقاتِ کار میں کمی کے لیے ہم آواز تھیں۔1863میں سگار بنانے والے ،بحری جہازوںکے مزدور اور 1865میں اینٹیں بنانے والے مزدور بھی اس تحریک میں شامل ہو چکے تھے۔20اگست 1866کو امریکا بھر کی مزدور تنظیموں کے نمائندوں نے بالٹی مور میں جمع ہو کر” نیشنل یونین لیبر“ کے نام سے ایک مشترکہ تنظیم بنائی جس نے امریکا بھر میں یومیہ آٹھ گھنٹے کام کرنے کا شیڈول نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ۔اس تحریک کو دبانے کے لیے صنعتکاروں نے انتقامی کارروائیوں کے طور پر جبری برطرفیوں اور تشدد کی روش اختیار کی ،لیکن اس تحریک کو دبایا نہیں جا سکا ۔1870اور 80کی دہائیوں میں امریکا کے مزدوروں نے کئی ایک احتجاجی تحریکیں اور ہڑتالیں کیں جس نے امریکا کی سرمایہ دار حکومتوں کو بوکھلا کر رکھ دیا تھا ۔1873میں شکاگو میں امریکا کی تاریخ میں امریکی حکومت کے خلاف مزدوروں کا سب سے بڑا مظاہرہ ہوا۔ 1875میں مزدور تحریک کے دس سرگرم کارکنوں کو سزائے موت دی گئی لیکن جبر وتشدد کے تمام تر ہتھکنڈوں کے باجود مزدور تحریک آگے بڑھتی رہی۔اکتوبر1884میں ”فیڈریشن آف ٹریڈ یونین“ نے ایک قرار داد منظور کی جس میں کہا گیا کہ اگر یکم مئی 1886تک اوقاتِ کار آٹھ گھنٹے نہ کیے گئے تو مزدور کام بند کر دیں گے۔اس اعلان کے بعد ایک طرف مزدوروں کی جدوجہد میں تیزی آئی تو دوسری جانب حکومت کے جبر تشدد میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ یکم مئی1884تک محنت کشوں کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا جس کے نتیجے میں اس دن سے پورے امریکا میں مزدور وں نے کام روک کراحتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا ۔تین مئی کو شکاگو میں امریکی پولیس نے ہڑتالی مزدوروں پر شدید لاٹھی چارج کیا اور بعد ازاں فائرنگ شروع کر دی جس سے چار محنت کش شہید اور متعدد زخمی ہو گئے ۔ حاکموں کی اس بربریت کے خلاف اگلے روز پورے امریکا میں مزدور سراپا احتجاج تھے ۔ شکاگو کے حے مارکیٹ اسکوئرپر مرکزی جلسے سے مزدور راہنماو¿ں کے خطاب دوران پولیس نے مداخلت کی اور اسے زبردستی ختم کرنے کی کوشش کی ۔اس میں ناکامی پر پولیس نے جلسے پر دستی بم پھینکا جس سے خود ایک پولیس اہلکار ہلاک ہو گیا ۔ اس کے بعد پولیس نے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی ۔ پچاس کے قریب مزدور پولیس فائرنگ سے شہید جبکہ انگنت زخمی ہوگئے۔ اس موقع پر ایک مزدور نے اپنے شہید ساتھی کی سفید قمیض جو خون سے سرخ ہو چکی تھی اسے پرچم کے طور پر فضا میں بلند کیا ۔ تب سے سرخ پرچم محنت کشوں کا عالمی نشان ٹھہرا۔
شکاگو کے سرکردہ مزدور رہنماوں اوگست سپائس، البرٹ پارسنز، اڈولف فشر، جارج اینجل، لوئس لنگ، مائیکل شواب، سیموئیل فیلڈن اور اسکرنیب کو گرفتار کر لیا گیا۔ان میں سے اوگست سپائس، البرٹ پارسنز، اڈولف فشر اور جارج اینجل کو 11نومبر1887کو پھانسی دی گئی جبکہ مائیکل شواب اور سیموئل فلڈن کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا ۔لوئس لنگ کی جیل میں وفات ہو گئی تھی ۔ ان مزدور رہنماوں میں سے 2کا امریکا جبکہ باقی کا برطانیہ، آئرلینڈ اور جرمنی سے تعلق تھا اور یہ انقلابیوں کے انارکسٹ قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ شکاگو کے حاکموں نے اس واقعہ کو محض ” ہے مارکیٹ کے بلوے“ کا نام دینا چاہا مگر یہ دن تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا ۔1889میں پیرس میں منعقدہ محنت کشوں کی انقلابی تنظیم سیکنڈ انٹر نیشنل نے یکم مئی کو مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا اور 1890سے اس دن کو دنیا بھر میںمنانے کا آغاز ہوا ۔ آج دنیا بھرکے مزدور اس تاریخی دن کو لال جھنڈے ہاتھوں میں لیکر نکلتے ہیں اور شکاگو کے شہداءکو خراجِ تحسین و تائید پیش کرتے ہیں۔اس دن نے سرمائے کی بالادستی کے خلاف محنت کی عظمت کی تاریخی جنگ کو ایک نیا موڑ دیا ۔
پچھلے 131سال کی تاریخ دنیا بھر کے محنت کشوں کی لازوال قربانیوں اور فتوحات سے عبارت ہے۔آج کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو سرمایہ داری کے بحران نے محنت کش طبقے کو غربت افلاس بیماری بے روزگاری، جنگ خون اورنا انصافی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ محنت کشوں کی زندگیاں ، ان کے اوقاتِ کار اس سے بھی بد تربنا دیے گئے ہیںجن حالات کے خلاف یکم مئی کے شہداءنے خون سے پرچم سرخ کیا تھا۔
آج ایک طرف سامراجی ممالک دنیا بھر میں محنت کش عوام کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ، منڈیوں کے پھیلاو اور قبضوں کی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ جنگوں میں مصروف ہیں اور عالمی مالیاتی سامراجی اداروں کے ذریعے مسلط کردہ پالیسیوں اور معاہدوں کے ذریعے غلامی کے ایک ایسے نئے چلن کو عام کر دیا گیا ہے جس سے کرہِ ارض پر موجود کوئی سماج اور اس میں بسنے والے انسان محفوظ نہیں ہیں۔ دوسری طرف ہم ایسے ممالک بالخصوص پاکستان کے رجعت پسند صنعتکار حکمرا ن ہیںجو ان کی گماشتے بن کر یہاں کے محنت کش عوام کی زندگیوں سے مسلسل کھلواڑ میں مصروف ہیں۔ ایک جانب IMF، ورلڈ بینک اور دیگر سامراجی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں کے نتیجے میں سرمایہ داروں کی دولت اور منافع میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری جانب ملک کی تقریباََ آدھی آبادی غربت کی سطح سے بھی انتہائی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور کر دی گئی ہے۔ نجکاری اور ڈاو¿ن سائزنگ ان گماشتہ حکمرانوں کے خاص ہتھیار ہیں جن کا منطقی نتیجہ اشیائے خوردونوش ، تعلیم، صحت ، ٹرانسپورٹ ، ایندھن جیسی بنیادی انسانی ضروریات سے محرومی اور ریاستی سبسیڈی کے خاتمے کی شکل میں عوام کی قوت خرید کو مکمل طور پرمفلوج کر دینے کی بھیانک شکل میں سامنے ہے۔بے روزگاری، غربت، بھوک، بیماری اور افراطِ زر میں ہوشربا اضافے کے باعث محنت کشوں کی حقیقی اجرتوں میں100% سے زائد کمی انہی ناعاقبت اندیش اور مزدور دشمن پالیسیو ں کا شاخسانہ ہے۔ ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ تعلیم،پینے کے صاف پانی، بجلی ، گیس اور رہائش کی سہولیات سے محروم ہے ۔غربت اور امارت کی بڑھتی ہوئی خلیج کا اندازہ محنت کشوں کی اجڑے ہوئے دیاروں کا منظر پیش کرتی بستیوں اور بالائی طبقات کی رنگ ونور کی بسی ہوئی دنیاو¿ں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔
عوامی مینڈیٹ کے زعم میں مبتلا وفاقی حکومت ہوںیا سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کی صوبائی حکومتیں ہوںیہ سب محنت کش طبقے کی طویل جدوجہد کے نتیجے میں حاصل شدہ مراعات چھیننے میں ایک دوسرے سے کم نہیں۔ صنعتی و مالیاتی اداروں کی نج کاری کا معاملہ ہو ، جبری برطرفیاں ہوں،کم از کم تنخواہ پر عمل درآمد، سوشل سیکورٹی سمیت سماجی تحفظ سے رجسٹریشن کا معاملہ ہویا اداروں میں یونین سازی کے حق کو تسلیم کرنے کا معاملہ، ان سب کا مزدور دشمن رویہ روزِ روشن کی طرح عیاں نظر آتا ہے۔صنعتی اداروں میں مخدوش صورتحال کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ صرف پانچ فیصد ورکرز کے پاس ہی تقرر نامے ہیں جبکہ 95فیصد اس بنیاد حق سے محروم ہیں جس کے باعث وہ لیبر عدالتوں یا سماجی تحفظ کے اداروںمیں خود کو مزدور ثابت کر کے اپنا قانونی حق حاصل نہیں کر سکتے۔ اسی طرح صرف 2.5فیصد مزدور وں کو یونین سازی کا حق حاصل ہے۔فیکٹریاں اور کارخانے اگر مزدوروں کے لیے ”گیس چیمبر“ بنے ہوئے ہیں تو کھیتوں اور کھلیانوں میں کام کرنے والے کروڑوںہاری بھی ”موت کے کھیتوں“ میں کام کرنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں ۔ خاص طور پر سندھ میں SIRA2013کے تحت زراعت سے وابستہ محنت کشوں پر لیبر لاز کا اطلاق تو ہو گیا ہے اور وہ اپنی یونین سازی بھی کر رہے ہیں مگر سماجی تحفظ سے لیکر دیگر قانونی حقوق کی فراہمی کے سلسلے میں متعلقہ اداروں کی جانب سے تاحال عملی اطلاق کے لیے کسی قسم کے ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے ہیں اور نہ ہی وہ اس سلسلے میں سنجیدہ نظر آتے ہیں۔اسی طرح ملک کی 6کروڑ 20لاکھ کی ورک فورس میں 70فیصد غیر منظم شعبے سے وابستہ ہے اور ان کی ایک بڑی تعداد گھر مزدوروں کی ہے ۔ 1کروڑ20لاکھ گھر مزدوروں میں خواتین محنت کشوں کی تعداد 80فی صدہے۔لیکن پیداواری عمل میں حصہ لینے والے یہ گھر مزدور قانونی طور پر ورکر تسلیم نہ کیے جانے کی وجہ سے اپنے قانونی حقوق سے محروم ہیں۔
آج یکم مئی کا درس یہی ہے کہ مزدور تحریکوں ، احتجاجوں اور مزاحمت کی چنگاریوں کو انقلاب کے ایک ایسے توانا شعلے میں تبدیل کر دیا جائے جو لوٹ کھسوٹ اور جبر پر مبنی اس فرسودہ اور عوام دشمن سرمایہ داری جاگیرداری کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکتے ہوئے ان کے پشت پناہ سامراج اور اس کے مالیاتی اداروں کی حاکمیت کو بھی تاریخ کے اندھیر غاروں میں اٹھا پھینکیں۔ آج کا دن اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ محنت کش اپنے طبقاتی اتحاد اور انقلابی فکرو فلسفے سے لیس ہو کر اور ہر قسم کے نسلی ، لسانی،مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات سے بالاترہو کراپنی انقلابی جماعت کی قیادت ورہنمائی میں آخری معرکہ کااعلان کرے گاجس میں حکمران طبقات اور ان کے طفیلی مذہبی انتہا پسندی ،جاگیر داری ،سرمایہ داری اور غیر جمہوری قوتوںکی شکست نوشتہ دیوار ہے ۔دقیانوسی فرسودہ نظام پر آخری ضرب لگاتے ہوئے لوٹ کھسوٹ اور ایک انسان کے ہاتھوں دوسرے انسان کے استحصال سے پاک مزدور کسان راج کے قیام کے متحد ہو کر جدوجہد کرنے کے سوا محنت کش طبقے کے پاس نجات کی اور کوئی راہ نہیں ہے۔محنت کش طبقے کے عظیم استاد کارل مارکس کے بقول ” محنت کشوں کو اپنی زنجیروں کے سوا کچھ بھی نہیں کھونا اور پانے کے لیے ساری دنیا پڑی ہے۔“

Facebook Comments

مشتاق علی شان
کامریڈ مشتاق علی شان مارکس کی ان تعلیمات کو بھولے نہیں جو آج بھی پسماندہ طبقات کیلیے باعث نجات ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply