• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ہائیڈروپونکس۔ زراعت کے سفر میں ایک اہم سنگ میل۔۔۔۔مریم مجید ڈار

ہائیڈروپونکس۔ زراعت کے سفر میں ایک اہم سنگ میل۔۔۔۔مریم مجید ڈار

زراعت کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے اہم ترین سیکٹر ہے چاہے وہ ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر خطے، زراعت ملکی ڈھانچے میں ریڑھ کی ہڈی کی اہمیت رکھتی ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک کے لئے، جہاں صعنتی شعبہ جات ملک کی اقتصادی ترقی کے لیے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں تاحال کامیاب نہیں ہوسکے، زراعت کی اہمیت ثانوی سے درجہ اول پر آ جاتی ہے اور پر کیپٹا آمدن بڑھانے کے لیے اس کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے۔

ہم ہوش سنبھالنے سے یہ سنتے چلے آئے ہیں کہ پاکستان زرعی ملک ہے یعنی خام ملکی پیداوار کا بڑا انحصار زراعت پر ہے ۔ مگر یہ ایک افسوسناک امر ہے کہ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ہمارا شعبہ زراعت مطلوبہ اہداف پورا کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا باوجود اس کے کہ ہمارے ملک میں بہترین نہری نظام، زرخیز زمینیں اور چاروں موسم دستیاب ہیں، زراعت کا شعبہ کبھی بھی طے شدہ ترقی نہ کر سکا۔

“سبز انقلاب” سے جہاں دنیا کے دوسرے ممالک نے اپنی اقتصادیات کو ڈرامائی طور پر بڑھایا اور ترقی کی دوڑ میں ایک اہم کامیابی حاصل کی، وہیں بدقسمتی سے ہمارا ملک ان ممالک کی فہرست میں شامل تھا جہاں سبز انقلاب ناکامی سے دوچار ہوا جس کی سب سے بڑی وجہ زیادہ پیداوار دینے والے ہائبرڈ اور جینیاتی طور پر تیار کیے گئے بیجوں کی عدم دستیابی تھی۔ دوسری بڑی وجہ زرخیز مٹی اور پانی کا غلط اور بے تحاشہ ضیاع اور سائنسی طریقہ کار سے دوری تھی۔

فصلوں کو ادل بدل کر لگانے (crop rotation) کے بجائے ایک ہی طرح کی فصلوں کی بار بار کاشت نے زمینوں کو بنجر اور پیداوار کو کم کرنا شروع کر دیا اور نتیجتا سبز انقلاب آہستہ آہستہ دم توڑ گیا۔
بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ جہاں دوسرے شعبہ جات نے تحقیق و ترقی کی منازل طے کی ہیں ، بہت سے ممالک نے زرعی ترقی و تحقیق کے میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں اور کاشتکاری کے روائیتی طریقوں سے ہٹ کر ایسے نظام متعارف کروائے ہیں جن کی بدولت صحرا میں بھی باغات اگائے جا رہے ہیں ۔جینیاتی طور پر تیار کردہ بیج، جڑی بوٹیوں اور کیڑوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے پودے، زیادہ پیداواری صیلاحیت کی حامل فصلیں اور ایسے طریقہ کار ایجاد کئیے گئے ہیں جو سارا سال پیداوار کی فراہمی کو یقینی بناتے ہیں۔

زراعت کے شعبہ میں سب سے اہم اور قابل ذکر کامیابی “ہائیڈروپونکس” کا نظام یا طریقہ کار ہے ۔
ہائیڈروپونکس یا ہائیڈروکلچر ایک ایسی تکنیک ہے جس میں پودے مٹی کے بجائے ایسے پانی میں اگائے جاتے ہیں جو پودوں کی افزائش اور بڑھوتری کے لیے ضروری غذائی اجزا سے بھرپور ہوتا ہے ۔
یہ تکنیک اس اعتبار سے بے حد اہم ہے کہ اس طریقہ کار کے لیے  زرخیز مٹی کی ضرورت باقی نہیں رہتی اور درحقیقت دنیا کے کچھ سب سے بڑے ہائیڈروپونکس سسٹم یو اے ای کے صحراؤں  میں نصب ہیں اور کامیابی سے چل رہے ہیں۔ پودوں کے بیجوں کو براہ راست ایک ایسے میڈیم میں ڈالا جاتا ہے جہاں وہ اگ آتے ہیں یہ میڈیم ٹھوس یا نیم ٹھوس مٹیریل ہوتے ہیں جو بیجوں کے اگاؤ  کے لیے ضروری خوراک اور نمکیات سے بھرپور ہوتے ہیں۔ اگنے والے پودوں کو بعد ازاں غزائی اجزا سے بھرپور پانی کے چینلز اور کنٹینرز میں منتقل کر دیا جاتا ہے ۔

ہائیڈروپونکس پر سب سے پہلے تحقیقی کام کا آغاز فرانسس بیکن نے 1627 میں کیا تھا اور انکا مقالہ ان کی وفات کے ایک سال بعد شائع بھی ہوا۔
بعد ازاں جون ووڈ ورڈ نے 1966 میں سپرمنٹ نامی پودے پر ہائیڈروکلچرنگ کے تجربات کیے  اور ان کے کام کو ایک جرمن ماہر نباتات Julius Von Sacns نے آگے بڑھایا۔

ہائیڈروپونکس کے فوائد کا احاطہ کرنے سے پہلے آئیے اس کے طریقہ کار کا جائزہ لیتے ہیں۔
عام فہم اور آسان زبان میں ہائیڈروپونکس پودوں کی افزائش کا وہ طریقہ ہے جس کو سوائل لیس کلچر کہتے ہیں یعنی وہ طریقہ جس میں آپ پودے اگانے کے لیے  زمین یا مٹی کے محتاج نہ رہیں۔بنیادی طور پر ہائیڈروکلچرنگ دو طریقوں سے کی جاتی ہے ۔سٹیٹک سولیوشن کلچر(Static solution culture) اور کنٹی نیوس فلو کلچر(Contineus Flow Culture).
سٹیٹک سولیوشن کلچر میں ایک بڑے ٹینک، برتن میں غذائی  اجزا سے بھرپور پانی بھرا جاتا ہے اور پلاسٹک کے ڈھکن میں سوراخ کر کے پودے ایسے ترتیب دئیے جاتے ہیں کہ ان کی جڑیں پانی سے مطلوبہ غذائی  اجزا جزب کرتی رہتی ہیں اور پودے کا بیرونی حصہ پلاسٹک کے کورز پر پرورش پاتا ہے ۔ اس طریقہ کار میں پودوں کی جڑوں کو مطلوبہ مقدار میں آکسیجن کی فراہمی پوری طرح دستیاب نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ طے شدہ شیڈول کے مطابق غذائی آبی محلول کو بدلنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس طریقہ کار میں چونکہ پانی کھڑا رہتا ہے اس لئیے آبی کائی (ایلجی) کے مسئلے کا سامنا بھی رہتا ہے۔

دوسرا اور زیادہ کارگر طریقہ مستقل بہاؤ  کا طریقہ (Contineous Flow Culture) ہے۔
اس طریقے میں غزائی آبی محلول چینلز میں مستقل بہتا رہتا ہے اور پودوں کی جڑیں اپنے مطلوبہ غزائی اجزا بہترین تناسب اور ضرورت کے لحاظ سے جزب کرتی رہتی ہیں۔ یہ طریقہ کار چونکہ خودکار ہوتا ہے ۔ مطلوبہ غذائی اجزا کا محلول ایک رہسورس/ٹینک میں ڈالا جاتا ہے اور موٹروں کی مدد سے انہیں ان نالیوں میں بھیجا جاتا ہے جن پر پودے لگے ہوتے ہیں۔ چونکہ یہ خود کار نظام ہوتا ہے لہذا  پانی کے بہاؤ  کا تناسب ، مناسب اور مطلوبہ درجہ حرارت قابو کرنا اور پانی میں آکسیجن کی ترسیل کو کنٹرول کرنا بے حد آسان ہو جاتا ہے ۔

بڑے پیمانے پر ہائیڈروپونکس تکنکیک سے فائدہ اٹھانے کے لئیے موخرالزکر طریقہ کار اپنایا جاتا ہے۔
دنیا کے دیگر ممالک میں ہائیڈروپونکس کلچرنگ عام ہوتی جا رہی ہے تاہم پاکستان میں اس نوعیت کے چند ہی سسٹم نصب کئے گئے ہیں۔
فرید فارم ہاوس پراجیکٹ فیصل آباد میں اس نوعیت کا ایک ادارہ ہے جہاں ہائی کوالٹی پراڈکٹس ہائیڈروکلچر سے تیار کی جاتی ہیں جن میں ہائیبرڈ ٹماٹر(چیری، سٹرابیری اور بیف) کھیرے اور شملہ مرچ بھی شامل ہیں۔
طاہر رانا نیوکلییر فزکس سائنسدان ہیں جوکینڈا سے ملازمت کو خیرباد کہہ کر فیصل آباد میں ہائیڈروپونکس طریقہ کار سے اگائی گئی سبزیوں کا فارم ہاؤس  چلا رہے ہیں ۔ وہ دنیا کے ان افراد میں شامل ہو چکے ہیں جو ہائیڈروپونکس فارمنگ سے غیر معمولی منافع حاصل کر رہے ہیں۔ انہوں نے فیصل آباد کے مضافات میں ایک چھوٹی سی کمپنی قائم کی کے جو فرید فارم ہاؤس  کے نام سے جانی جاتی ہے اور وہاں وہ ٹماٹروں کی تین پرائم قسموں کے علاوہ کھیرے اور شملہ مرچ بھی بےحد کامیابی سے اگا رہے ہیں۔

رانا زاہد جو کہ فرید فارم ہاوس کے پراجیکٹ ڈائریکٹر ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس طریقہ کار سے کسان 450 ٹن سے 550 ٹن فی ایکڑ پیداوار حاصل کر سکتا ہے جبکہ روائتی طریقہ کار میں پیداوار کا اوسط 1۔5 ٹن فی ایکڑ ہے۔
تاہم یہ طریقہ کار بہت منافع بخش ہونے کے باوجود سستا ہرگز نہیں ہے اور ایک ہائیڈروپونکس سیٹ اپ کا آغاز کرنے کے لئے کم از کم سرمائے کا تخمینہ 1۔5 ملین فی ایکڑ ہے اور سالانہ آمدن تین ملین فی ایکڑ ہوتی ہے

ہائیڈروپونکس کو حکومتی سرپرستی میں چلائے جانے سے اور حکومتی سطح پر کسانوں کو بنیادی سسٹم انسٹال کر کے دئیے جانے یا ان پراجیکٹس کو شروع کرنے کے لئیے آسان شرائط پر قرضہ دینے کی مہم شروع کرنے سے ملک کا زرعی شعبہ ترقی کے راستہ پر اہم پیش رفت کر سکتا ہے۔
بھارت سے مہنگے داموں پیاز، ٹماٹر اور ادرک خریدنے کی محتاجی سے باآسانی چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔ہائیڈروپونکس کو فروغ دینے سے سارا سال بہترین کوالٹی کی سبزیاں حاصل کی جا سکتی ہیں جنہیں ایکسپورٹ کر کے زرمبادلہ میں اضافہ اور زراعت کے شعبہ کی ملکی ترقی کے دھارے میں قابل ذکر اضافے اور حقیقی زرعی انقلاب کی راہیں روشن ہو سکتی ہیں۔ ۔بنجر زمینوں پر ایسے پراجیکٹس لگانے سے سیم وتھور زدہ علاقوں سے بھی پر کیپٹا آمدنی میں نمایاں اضافہ ممکن ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ضرورت اس امر کی ہے کہ کسان کو جدید نظام کاشتکاری سے روشناس کرایا جائے ۔ نئے طریقہ کار اپنانے سے وہ وقت دور نہیں جب پاکستان حقیقی معنوں میں اپنی پہچان ایک زرعی ملک کی حیثیت سے منوائے گا۔

Facebook Comments

مریم مجید
احساس کے موتیوں میں تحریر کا دھاگہ پرو کر مالا بناتی ہوئی ایک معصوم لڑکی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply