قانون توہین رسالت،لبرل اور ہمارا معاشرہ

قانون توہین رسالت،لبرل اور ہمارا معاشرہ
‏ہارون رشید بھٹی
مشال کیس کو بنیاد بنا کر کچھ لبرل حضرات کہتے ہیں کہ توہین رسالت کا غلط استعمال ہورہا ہے ۔سو اسے کالعدم قرار دے دینا چاہیے۔،پہلی بات تو یہ سمجھ لیجئے کہ کسی چیز کا منفی مثبت استعمال وه شخص یا متعلقہ ادارہ کرنے کا مجاز ہے جو اس کا وارث ہو یا جس کی ملکیت میں وه چیز هو-مارواۓ عدالت قتل میں توہین رسالت کے قانون کا غلط استعمال کدھر سے آگیا ؟ یہ تو ایک جذباتی ردعمل تھا جو عوام یا چند ناعاقبت اندیشوں کی طرف سے سامنے آیا،قانون کا استعمال تو تب غلط ہوتا جب کیس عدالت میں جاتا اور عدالتیں تمام شواہد ہوتے ہوۓ بھی ملزم کو یا تو مجرم ثابت کر دیتیں یا بری-
مشال کیس کو جواز بنا کر توہین رسالت کے قانون کو ختم کرنے کی بات کرنے والو ں کی آنکھوں پر وه کونسی پٹی بندھی ہے ،جو ان کو وه ڈاکو نظر نہیں آتے جن کو عوام گھیر کر زندہ جلا دیتی ہے؟ کوئی جوتی چور ،زانی‎‏، اغوا کار ہاتھ لگ جاۓ تو پولیس کے حوالے کرنے کے بجاۓ وہیں سڑک پر فیصلہ کر دیا جاتا ہے-تب کیوں نہیں بولتے کہ مندرجہ بالا جرائم سے وابستہ قوانین کا بھی غلط استعمال ہو رہا ہے انہیں بھی ختم کردو ؟؟؟یہ بھی وہی جذباتی ردعمل ہے محترم،لیکن تمہاری تان صرف توہیں رسالت کے قانون پر آ کر ہی ٹوٹتی ہے-
مانا قوم جذباتی ہے مگر اسے یہ عدم تحفظ اور انصاف کے عمل پر سے بے یقینی کے جواز کس نے فراہم کیے ؟آپ ہی کے سیکورٹی اداروں نے،آپ ہی کی عدالتوں نے‎‏-چوری ڈاکہ زنی ریپ سے لیکر توہین تک کے مجرم سے عوام یکساں سلوک کرتی ہے اگر ان کے ہاتھ لگ جاۓ،امتیازی سلوک تو آپ کے انصاف کا نظام کرتا ہے-
تم ان چند بے شعور لوگوں کے ذاتی یا سیاسی انتقام کو بنیاد بنا کر قانون ختم کرنے کی بات کرتے ہو،لیکن تمہاری آنکھیں ان ہزاروں افراد کو دیکھنے سے کیوں قاصر ہیں جو مشال کے قتل پر احتجاج کر رہے ہیں؟کیا وه ذی شعور نہیں آپ کی نظر میں ؟اب آپ مشال کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچا کر عوام کا یقین انصاف کے نظام پر ہی بحال کردو-جناب انصاف کے عمل کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو یقین ہوکہ ادھر ایک جوتی چور سے لے کر زانی اور ایک منافع خور سے لے کر پانامہ تک کے مجرم کو یہ معزز عدالتیں ایک آنکھ سے دیکھتی ہیں ۔توہین رسالت کے قانون کی آڑ لے کر بغض رسول دکھانا بند کرو-
‏.اور آخری بات ان لوگو کے لئے جو مشال قتل کی حمایت صرف اس بنا پر کر رہے ہیں کہ ملک عزیز کی عدالتوں میں انصاف نہیں ملتا،توہین رسالت خالص شرعی مسئلہ ہے ناکہ دنیاوی،اللہ تعالیٰ تو اتنا رحیم ہےکہ ہم صرف نیکی کا ارادہ کریں تو وه نامہ اعمال میں ثواب لکھ دیتا ہے ۔بھلے بعد میں کسی عذر کی بنا پر ہم اپنے ارادے کو تکمیل تک نا لے جا سکیں مگر گناه تب تک نہیں لکھتا جب تک سرزد نا ہو جائے-اللہ ہم کو ہماری نیتوں سے جانتا ہے وه کسی پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا،آپ توہین کا ملزم پکڑ کر قاضی کے حوالے کر دیں آپ کا کام ختم-روز محشر آپ سرخرو ہوں گے کیونکہ شریعت بھی آپ کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتی-مولانا تقی عثمانی جیسے جید علماء فتویٰ دے چکے ہیں-اب آگے قاضی نے ملزم کو بے گناه ہوتے ہوۓ بھی سزا دی یا مجرم ثابت ہونے پر بھی چھوڑ دیا ،اس کا جواب ده وه ہے آپ نہیں،آپ کو جتنا حکم تھا آپ وه نیک نیتی سے بجا لاۓ-
بروز محشر یہ سوال نہیں ہو گا ہم سے، توہین کے مجرم کو قتل کیوں نہیں کیا ۔البتہ یہ سوال ضرور ہو گااطاعت محمدی میں کتنی سنتیں اپنائیں اور زندہ کیں-
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو،(آمین)

Facebook Comments

ہارون رشید بھٹی
خود اپنی تلاش میں ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply