• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • عمیرہ احمد کے ناول والی ہاوس آفیسر ۔۔۔ ڈاکٹر مدیحہ الیاس/قسط2

عمیرہ احمد کے ناول والی ہاوس آفیسر ۔۔۔ ڈاکٹر مدیحہ الیاس/قسط2

مریضوں میں چائے تقسیم کرنے کے بعد اس کی نظر سات بجاتی گھڑی پہ پڑی اور وہ چونک گئی۔ ہائے اللہ! پی جی راؤنڈ پہ آنے والے ہیں اور اس نے ابھی تیار بھی ہونا تھا۔۔ فورا ً ایچ او روم میں گئی۔۔ اور ہلکے نیلے رنگ کی کلیوں والی فراک اور چوڑیدار پاجامہ زیب تن کیا۔نہایت سلیقے سے دوپٹہ سر پہ اٹکایا, ڈارک پنک کلر کی لپ اسٹک لگائی, گالوں پہ شاکنگ پنک بلش آن لگایا، آنکھوں کو اس نے ہاشمی سرمے سے مزین کیا, اور آنکھوں کے lateral کونوں سے قدرے لمبی ڈنڈیاں نکال لیں ۔۔ آئینہ دیکھ کے وہ خود ہی شرما گئی۔۔ وہ حسن اور سادگی کا حسین امتزاج تھی۔
وہ جانتی تھی کہ اس کے بیڈ پی جی ہمیشہ آدھا گھنٹہ دیر سے آتے ہیں اور وہ ان کی اس ادا پہ مرتی تھی۔ ان کے آنے سے پہلے پہلے اسے تمام مریضوں کے وائٹلز, سمپلنگ, ان پٹ آؤٹ پٹ مانیٹرنگ, اور history examination, وغیرہ مکمل کرنا تھا۔۔۔ اور یہ سب اسکے بائیں پاؤں کی چیچی انگلی کا کام تھا۔ ڈی پی این کمپلیٹ کر کے وہ rose garden گئی اور تازہ پھولوں کے گلدستے بنا کے لے آئی اور تمام مریضوں کی ڈولیوں پہ سجا دیئے۔
وہ کچھ سوچتے ہوئے یونہی مسکرائی جا رہی تھی کہ اسے خالص سرسوں کے تیل کی خوشبو آئی۔۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔۔
زبان سے بے اختیار نکلا۔۔ بہارو۔۔ پھول برساؤ ۔۔۔ میرا پی جی آیا ہے۔۔۔
خوشی سے سرشار اس نے گردن گھمائی اور ہمیشہ کی طرح ساکت ہو گئی۔۔۔ ڈارک ییلو کلر کی XL ٹی شرٹ, نیلے چیک کے ڈیزائن والا ٹراؤزر, براؤن کلر کی واش روم چپل جو سائیڈ سے ٹوٹی ہوئی تھی, سرسوں کے تیل سے سٹائل کیے ہوئے بال , بڑھی ہوئی شیو, کالے فریم والا نظر کا چشمہ, 5۔4 فٹ قد پہ کس قدر جچتا تھا , یہ کوئی اس کے دل سے پوچھے۔۔۔
اس پر اوورآل اور دو سو والی سٹیتھو سکوپ سونے پہ سوہاگے کا کام کر رہی تھی ۔۔۔ وہ اسی سحر میں مبتلا تھی کہ پی جی نے دل دہلا دینے والی چھینک ماری اور اس کا طلسم ٹوٹ گیا۔ وہ بھاگتی ہوئی بیڈ ون کی طرف لپکی اور ایک سانس میں پورا پیشنٹ پریزینٹ کر کے داد طلب نگاہوں سے انھیں دیکھنے لگی۔
وہ بے نیازی سے نارمل ای سی جی کو پر تشویش نظروں سے گھور رہا تھا۔ پھر جیب سے پانچ روپے والی بال پوائنٹ نکال کے نوٹس ڈالنے لگا۔ ابھی RS = NVB تک لکھ سکا تھا کہ اسکی بال پوائنٹ جواب دے گئی۔اس ایچ او نے بڑی پھرتی سے اپنا دس ہزار کا پارکر کا پین نکالا اور کھول کے پی جی کی طرف بڑھایا۔۔ جلدی میں نیلی روشنائی کا ایک قطرہ جس کا ڈائیامیٹر 0۔05mm تھا , پی جی کے اوورآل پر گر گیا۔
اس کے پیروں تلے سے گویا زمین سرک گئی ہو۔۔ وہ بے اختیار بولی۔۔ ہائے اللہ۔۔ سوری سر، آئی ایم ایکسٹریملی سوری سر! اور اسکی آنکھوں سے آنسوؤں کی ندی امڈ آئی۔۔ سر آپ اوورآل اتاریں, میں ابھی دھو کے لاتی ہوں۔ اس کے موتی جیسے آنسو دیکھ کے وہ منع نہ کر پایا،وہ اوورآل لے کے واش روم کی طرف بھاگی, Bonus سرف سے رگڑنے کے باوجود داغ نہ گیا، وہ ایک ضدی داغ تھا۔۔ اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی اور فوارہ چوک کی بائیں جانب واقع depilex parlour سے رنگ گورا کرنے والی mod girl bleach cream لے آئی۔
بس پندرہ منٹ میں ہی اوورآل گورا گورا ہو گیا تو اسکی جان میں جان آئی۔۔ اس نے پھونکیں مار مار کے اوورآل سکھایا, defibrillator کے پیڈل سے استری کیا, موتیے کی خوشبو والا مورٹین موسکیٹو کلر سپرے چھڑکا اور بیڈ ون کی جانب بڑھی۔۔ اس کا پی جی ابھی CVS= S1 + S2+0 تک ہی پہنچا تھا۔۔ اسکا دل مطمئن ہو گیا کہ وقت کا ز یادہ ضیاع نہیں ہوا۔۔۔اس نے دو نفل شکرانے کے ادا کیے۔۔ وہ ہمیشہ سے وقت کی قدر دان تھی۔
جاری ہے!

Facebook Comments

ڈاکٹر مدیحہ الیاس
الفاظ کے قیمتی موتیوں سے بنے گہنوں کی نمائش میں پر ستائش جوہرشناس نگاہوں کو خوش آمدید .... ?

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply