کاش ہم جانور ہوتے

خبر ہے کہ لیہ کے علاقے چوک اعظم کے نواحی گاؤں چک نمبر 341 میں غربت سے تنگ باپ نے اپنے بچوں کو زہر دے کر خود کشی کر لی، جاں بحق ہونے والے بچوں کی عمریں چھ سے بارہ سال تھیں، جن میں ایک بچہ اور چار بچیاں شامل ہیں۔ اس سفاک باپ کی بربریت پر دماغ کوئی بھی تبصرہ کرنے سے قاصر ہے ۔یار لوگ کہتے ہیں کہ وسیب میں پھیلی غربت اور تنگدستی ان کی قاتل ہے اور حکمرانوں کو اس خون کا حساب دینا ہو گا، اب ان معصوم اور بھولے یاروں کو کون سمجھائے کہ ہمارے حکمران عوامی فلاح کے لئے دن رات ایک کر کے پیسہ پانی کی طرح بہا کر اقدامات کرنے میں لگے ہیں۔ مثال کے طور پر جب گزشتہ گرمیوں میں میاں صاحب نے سکھر ملتان موٹر وے کا افتتاح کیا تھا وزیر اعظم کے آنے سے پانچ دن پہلے ڈھائی سو مزدور لگا کر جنگل کو منگل بنانے کا آغاز ہوا ،وزیر اعظم کے آنے سے دو دن قبل پانچ اضلاع کی پولیس نے علاقے کا گھیراؤ کر لیا اور عام آدمی کا گزرنا ممنوع ٹھہرا، اسی دوران جب پنڈال دلہن کی طرح سجایا جا رہا تھا تب کراچی سے اک سپیشل خیمہ منگوایا گیا ،اسے ٹھنڈا ٹھار رکھنے کے لئے دس ہیوی ائیر کنڈیشنر اور دس جنریٹر لائے گئے ،افتتاح والے دن دو ہزار افراد کے لئے انواع و اقسام کے کھانے تیار کیے گئے، میاں صاحب پچاس کے قریب گاڑیوں کے حصار میں تشریف لائے اور دو گھنٹوں میں سب کچھ بھگتا کر چلتے بنے ۔۔۔۔
بتانے کی بات یہ ہے کہ یہ افتتاح قوم کو دو کروڑ میں پڑا یعنی فی منٹ اک لاکھ پینسٹھ ہزار روپے ،اب آپ بتائیں، ہمارے حکمران عوامی فلاحی منصوبوں کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہا رہے ہیں ۔ چلیں اس کو بھی رہنے دیں اور یہ سنیں۔۔۔۔ بڑے صاحب نے اسلام آباد میں شفٹ ہوتے ہی آرڈر دیا کہ انہیں اس باتھ روم میں ویسا ہی شاور چاہییے جو ان کے لاہور والے گھر میں لگا ہے،درباریوں کی دوڑیں لگ گئیں لاہور والے شاور کی تصویریں منگوائی گئیں اس سے اندازہ نہ ہوا، لائیو معائنہ کیا گیا، مارکیٹیں چھانی گئیں ،مگر اس سائز کا شاور نہ مل سکا، بڑے صاحب کے غصے کے ڈر سے فیکٹری کو آرڈر دیا گیا اور تین دن بعد آرڈر تیار ملنے کے وعدے پر سکون کا سانس لیا ہی تھا کہ بڑے صاحب کی کال آ گئی اور شاور کے متعلق استفسار کیا گیا، جواباً جب انہیں تین دن کا بتایا گیا تو بڑے صاحب کا بی پی شوٹ کر گیا ،گالیوں کی بوچھاڑ کے ساتھ کل تک کا وقت دے کر فون پٹخ دیا گیا۔دوبارہ میراتھن ریس شروع ہو گئی، اب پتا نہیں فیکٹری مالک کی منتیں کی گئیں ،منہ مانگی رقم کا لالچ دیا گیایا دھمکیوں سے کام چلایا گیا مگر بڑے صاحب دوسری صبح جب نہانے کے لئے واش روم پہنچے تو لاہور والے شاور سے بھی بڑا شاور جگ مگ کر رہا تھا۔
ہمارے رحم دل حکمران قیام پاکستان سے ہی ایسے انسانی فلاح کے کاموں پر توانائیاں خرچ کرتے آ رہے ہیں بلکہ ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ ان کی ہمدردی صرف انسانوں پر ہی موقوف نہیں یہ جانوروں تک سے بہت پیار کرتے ہیں 27 اکتوبر 1958 کی رات جب پاکستان کی تاریخ میں پہلا مارشل لا لگنے جا رہا تھا اور پاکستانی عوام کے نصیب پر پہلے ڈکٹیٹر کے شب خون مارنے کی رسمی کارروائی کے لئے ایوان صدر کے ڈرائنگ روم میں جنرل ایوب خان کی ٹیم کے فوجی جوان صدر سکندر مرزا سے زبردستی استعفے پر دستخط کروا رہے تھے ،تب فوجیوں میں گھرے مایوسی کی تصویر بنے سکندر مرزا کی بیوی بیگم ناہید مرزا نے صورتحال بھانپنے کے بعد چیخ کر جو جملہ کہا وہ یہ تھا کہ” ہائے میری بلیوں کا کیا بنے گا”یعنی پاکستانی جمہوریت کے خاتمے آمریت کے آغاز شوہر کے صدرارت چھن جانے سے زیادہ ان کو اپنے جانوروں کا غم کھائے جا رہا تھا۔ سکندر مرزا کے بعد آنے والے پہلے ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کو امریکی صدر کینیڈی کی اہلیہ جیکولین نے اک گھوڑا تحفتاً بھجوایا، جس کا نام بھی” سردار”رکھا گیا، سردار کو روزانہ کی بنیاد پر چار ڈاکٹرز کی ٹیم چیک کرتی تھی اور سردار کی خدمت کے لئے دس خدمتگار ہمہ وقت چوکس رہتے تھے سردار کے انہی دس خدمتگاروں میں لیاقت علی بھی شامل تھا جو وقت پڑنے پر اپنی حاملہ بیوی کے لئے کسی ڈاکٹر کا بندوبست کر سکا نہ اپنی شریک حیات کو ہسپتال لے جا سکا ،وہ بے چاری محلے کی دو عورتوں کے ہاتھوں زچگی کے دوران چل بسی۔
چلیں یہ تو پرانی باتیں ہیں ۔۔۔۔اپنے حال کے قائدین کی جانوروں سے لازوال محبت کی مثالیں سن لیں۔۔ ہمارے وزیر اعظم نواز شریف کے رائیونڈ محل میں کہیں سے اک جنگلی بلا گھس آیا جس نے شاہی موروں کو زخمی کر ڈالا ،اکیس کے قریب افسران کو شو کاز نوٹسز جاری ہوئے جن میں سے تین اہلکار فرض میں غفلت کے مرتکب قرار پائے اور معطل کر دئیے گئے، صرف یہی نہیں صاحب کے سخت آرڈرز کی وجہ سے اشتہاری بلا بھی چند دنوں میں منطقی انجام کو پہنچا دیا گیا۔ برسبیل تذکرہ بتا دوں کہ ان شاہی جانوروں کی حفاظت پر معمور انور اور سیف اللہ نامی دو اہلکاروں نے اک دن باتوں باتوں میں شاہی باغ سے چند امرود توڑ کر کھا لئے ،ان کی چوری کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہو گئی، اگلے دن دونوں اپنے بچوں کی روٹی کے لئے نوکری کی تلاش میں سڑکوں پر جوتیاں چٹخاتے پائے گئے۔
درد کی اک گولی کے لئے سارا دن سرکاری ہسپتالوں میں خوار ہونے والی عوام کو معلوم ہے کہ بلاول کی بلیوں اور طوطوں، عمران خان کے کتوں ،زرداری صاحب کے گھوڑوں اور شریف خاندان کی بھینسوں کے لئے درجنوں خدمتگار رکھے جاتے ہیں ،ان کے لئے ائیر کنڈیشنڈ ماحول ،شاہانہ رہن سہن ،نہلانے اور کھلانے کا وقت مقرر، دیسی کے علاوہ ولایتی ڈبہ بند خوراکوں کا چوبیس گھنٹے بندوبست ہے، یہ ذرا سا سست پڑیں تو ڈاکٹرز کا پورا پینل بیٹھ کر ان کا چیک اپ کرتا ہے۔۔۔۔۔لیہ کے اس افسوسناک حادثے پر اہل علم دوست زبیر اسلم بلوچ نے تبصرہ فرمایا کہ” ہمارے معاشرے میں جانور بڑھتے اور انسان گھٹتے جا رہے ہیں”۔۔۔۔بالکل بجا فرمایا انہوں نے مگر سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ جس دیس میں جانوروں کے اتنے مزے ہوں اور انسان کی مشکلیں دن بدن بڑھتی جا رہی ہوں وہاں کون بے وقوف ہو گا جو اب بھی انسان ہی رہے

Facebook Comments

رضوان گورمانی
رضوان ظفر گورمانی سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی ہیں روزنامہ خبریں سے بطور نامہ نگار منسلک ہیں روزنامہ جہان پاکستان میں ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply