عمران،شہباز مد مقابل۔۔۔ شہزاد سلیم عباسی

بات کچھ بھی ہو،حالات کچھ بھی ہوں،حقائق جیسے بھی ہوں۔۔۔ جنگل میں اگر مسافروں کی بس بھی لٹ جائے تو الزام رائے ونڈ کے محلوں تک پہنچانا عمران خان کا کام ہے۔عام فہم محاورہ ”ہاتھ دھو کے پیچھے پڑنا“ کوئی عمران خان سے سیکھے۔ جسٹس اعجا ز کے گھر پر فائرنگ کے معاملے میں شریفوں پر الزام سراسر زیادتی ہے وہ الگ بات ہے کہ پنجاب کرائے کے قاتلوں اور غریبوں پر ظلم و ستم میں مشہور  ہے۔بلا شبہ عمران خان نے بے ادبی، بد تہذیبی،بداخلاقی اورعریانی کا کلچر پاکستان میں متعارف کرا یالیکن عملاََ مسلم لیگ ن، پی پی پی،اے این پی، ایم کیو ایم اور دوسری لبرم جماعتیں ان کی مقتدی بن گئیں۔مولانا ڈیزل، شوباز شریف، موٹو گینگ، اچکزئی دونمبر، شیخ رشید چیڑاسی اور ملک دشمن جیسے سنگین الزامات لگانے والے عمران خان کو اسلامی واخلاقی روایات کو پس پشت نہیں ڈالنا چاہیے۔یہ کہنا بجاہے کہ عمران خان یوٹرن کے عظیم بادشا ہ ہیں جنہوں نے”یوٹرن ثانی“کے سلطان اعظم اور ایم کیو ایم کے سابق رہنما عامر لیاقت حسین کو بھی برکت کے طور پر ساتھ شامل کر لیااور ان کی  جانب سے لگائے جانے والا گھٹیا الزام (کہ عمران خا ن نے عدت میں شادی کی) بھی معاف کردیا۔ سیاسی، اخلاقی اور کاروباری حوالے سے کرپٹ سیاستدان اور بے شمار اے ٹی ایم مشینیں بھرتی کرنے کے بعد ”صاف چلی شفاف چلی،تحریک انصاف چلی“ کا نعرے لگانے والے عمران خان اپنے چیف منسٹر کے کارناموں سے قطعی ناخوش ہیں۔

عمران خان کے سیاسی اساتذہ میں قاضی حسین احمد، جنرل مشرف اور جنرل شجاع پاشا وغیرہ شامل ہیں۔ قاضی حسین احمد مرحوم نے ابتدا میں عمران خان کو اسٹیج پر بات کرنے کا ڈھنگ سکھایا۔پھر عمران خان نے ملٹر ی سیاسیات کی تعلیم جناب جنرل (ر) پرویز مشرف سے حاصل کی جن کے فیضان ہی کی نظر ہے کہ آج عمران خان باغیانہ، آمرانہ اور قذافیانہ ذہن کیساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ عمران خان نیازی لوگوں کے مسائل پر توجہ دینے کے بجائے بنی گالہ کے درودیوار کو کل کائنات سمجھتے ہیں۔وہ آج کل ایک بار پھر فوج کی حمایت میں باہر نکل آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ نواز شریف اور زرداری ملک دشمن ہیں اور پاکستان کو خدانخواستہ تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور اگر فوج نہیں ہوتی تو آج یہ ملک ایسی حالت میں نہ ہوتا۔ عجیب منطق ہے خان صاحب کی اور پتہ نہیں ایسے بیانات سے وہ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ جنرل ضیا،جنرل یحی، جنرل مشرف کو کھر ی کھری سنانے والے اور اپنی ذاتی شناخت چھپانے والے عمران پتہ نہیں آج فوج کی حمایت کیوں کر رہے ہیں۔نواز شریف، زرداری، شجاعت، مشرف اپنی شناخت لبرلز بتاتے ہیں، سراج الحق اور مولانا فضل الرحمان خود کو اسلامی روشن خیال کہتے ہیں جبکہ مسالک خود کو دینی و اسلامی شناخت سمجھتے ہیں تو پھر عمران خان کھل کر اپنی اصلی شناخت کیوں ظاہر نہیں کرتے؟کیا عمران خان افغانستان جیسا ماحول دیکھنے کے متمنی ہیں؟ یا تیسری قوتوں سے دھرنے کی طرح ہاتھ ملا کرسیاست و جمہوریت پر شب خون مارنا چاہتے ہیں؟۔ اس نہایت ہی حساس موڑ پر پی پی پی،مسلم لیگ ن، ایم ایم اے، ایم کیو ایم، اے این پی، اور دوسری سیاسی قوتوں کو ڈٹ کر جمہوریت کا ساتھ دینا چاہیے نہیں تو ایک بار پھر جسٹس (ر) جاوید اقبال کی بات سچ ہونے کا خطر ہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

2018 کے عام انتخابات میں شہباز شریف کو یقین ہے کہ جاری صورتحال میں ن لیگ کی جیت پکی ہے لیکن حالات نے پلٹا کھایا تو کچھ کہا نہیں جاسکتا۔جیسا کہ عدالتی حکم کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر سانحہ ماڈل ٹاون کی کارروائی اور 15دنوں کے اندر ٹرائل کے مکمل کرنے کا حکم خطرے سے خالی نہیں ہے۔دوسری بڑی پریشانی مریم نواز اور چوہدری نثار کی  ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی ہے۔شہباز شریف مفاہمتی سیاست چاہتے ہیں لیکن چوہدری نثار، خواجہ آصف اور پرویز رشید کی وجہ سے پارٹی خلفشار کا شکا ر ہے جس کا نتیجہ ہم نے بلوچستان سینٹ انتخابات اور جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کی تحریک کی صورت میں دیکھا ہے۔ شہباز شریف کچھ لو کچھ دو کی پالیسی کے ساتھ مستقبل کے منظر نامے پر براجمان ہونا چاہتے ہیں لیکن مرد آہن نواز شریف عددی و نشستی برتری کے ذریعے نااہلی کی تلوار ہٹا کر ایک بار پھر اپنی سیٹ پر متمکن ہونا چاہتے ہیں۔شہباز شریف کے لیے اپنی بقاء کی جنگ اور اپنے خلاف نیب میں درجنوں کیسز خطرے کی گھنٹی ہیں۔ ایک طرف پارٹی کے اندرونی اختلافات تو دوسری طرف نیب اور عدالتی پروانے ۔۔شہباز شریف بری طرح سیاسی اکھاڑے میں پھنس چکے ہیں۔انہیں اب اپنی شناخت کے ساتھ ساتھ پارٹی کی  بقاء کو بھی یقینی بنانا ہے جوکہ شاید  مسلم لیگ ن کے لیے کسی کڑے چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔ اس الیکشن میں سخت سیاسی حریف پی ٹی آئی، چالباز زرداری،جنوبی پنجاب صوبہ محاذ،اسٹیبلشمنٹ اور ایم ایم اے کے ہوتے ہوئے پنجاب سے اکثریت حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ سازگار حالات کی صورت میں مسلم لیگ ن کو سیٹوں کی برتری رہے گی مگر نامساعد حالات میں مسلم لیگ ن کو دھچکا لگنے کا بھی امکان موجود ہے۔ پی ٹی آئی Toughest Political Opponentکے طور پر پنجہ آزمائی کرے گی۔پی پی پی پنجاب سے گم شدہ میراث کی کھوج میں ایڑی چوٹی کا زور لگائے  گی۔(الیکشن لڑنے کی صورت میں) تحریک لبیک پاکستان پورے پنجاب کے ہر حلقے سے ان کے ووٹ توڑے گی اور اسی طرح چند نشستوں پر ایم ایم اے بھی اپنے مردہ گھوڑوں میں جان ڈالنے کی کوشش کرے گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply