مقبوضہ کشمیر میں سوشل میڈیا پر پابندی

مقبوضہ کشمیر میں سوشل میڈیا پر پابندی
طاہر یاسین طاہر
اظہار کے ذرائع پر پابندی خود ایک ایسا عمل ہے جس کے حق میںبھارت کوئی دلیل یا جواز پیش نہیں کر سکتا ،سوائے اس کے کہ وہ اپنا وہی موقف دہرائے کہ ،اس ذریعے،یعنی سوشل میڈیا کے طفیل انتہا پسند منظم ہو کر بھارتی فوج پر حملہ آور ہوتے ہیں اور بھارت سیکیورٹی فورسز کے لیے نقصان کا باعث بنتے ہوئے بھارتی فورسز کے لیے سمائل پیدا کرتے ہیں۔ یہ وہ بیانیہ ہے جسے عالمی برادری کے عدل پسندوں کے نزدیک کبھی بھی نہ پذیرائی مل سکی اور نہ آئندہ ملے گی۔یاد رہے کہ انڈیا کے زیرِ انتظام مقبوضہ کشمیر کی حکومت نے وادی میں فیس بک، ٹوئٹر اور واٹس ایپ سمیت سوشل میڈیا کی 16 ویب سائٹس تک عوامی رسائی روکنے کا اعلان کیا ہے۔دفترِ داخلہ نے ایک حکم نامے میں 1885 میں برطانوی دور کے دوران بنائے گئے انڈین ٹیلی گراف ایکٹ کا حوالہ دے کر کہا ہے کہ حکومت امن عامہ کے مفاد میں یہ اقدام اُٹھا رہی ہے۔
سرکاری اعلان کے مطابق کشمیریوں کو فیس بک، ٹوئٹر، واٹس ایپ، کیو کیو، وی چیٹ، کیوزون، ٹمبلر، گوگل پلس، بائیڈو، سکائپ، ، وائبر، لائن، سنیپ چیٹ، پنٹریسٹ، انسٹا گرام اور ریڈ اٹ تک رسائی نہیں ہوگی۔یہ حکم ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب منگل کو سرینگر میں بھارتی فوج، نیم فوجی اداروں، خفیہ سروسز اور سول انتظامیہ کا ایک اعلیٰ اجلاس منعقد ہوا تھا جس کی صدارت وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کی تھی۔ خیال رہے کہ اس اجلاس میں مقبوضہ وادی میں آئندہ تین ماہ کے لیے سکیورٹی ایجنڈا مرتب کیا گیا تاہم اس کی تفصیل جاری نہیں کی گئی۔ یہ بھی خیال رہے کہ کشمیر کے کشیدہ حالات میں سماجی رابطوں کا واحد ذریعہ سوشل میڈیا ہی تھا اور اس حکومتی پابندی پر عوامی حلقوں میں شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔صحافیوں، تاجروں اور طلبہ نے اس فیصلے کو ‘انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ حکومت ایسا کر کے ‘اعترافِ شکست کر رہی ہے۔
یہ امر واقعی ہے کہ مقبوضہ وادی میں بھارتی فوج درندگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ بالخصوص وانی کی شہادت کے بعد سے آزادی کی تحریک میں نئی جان اور ولولہ آیا ہے،جسے بھارت اپنیریاستی طاقت اور بربریت کے زریعے کچلنا چاہتا ہے۔ مگر حیرت انگیز طور پر بھارتی مظالم میں جوں جوں اضافہ اور ان میں نئے نئے ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔توں توں آزادی کی تحریک میں ایک تازہ ولولہ سامنے آرہا ہے اور تحریک میں تیزی بھی آتی جا رہی ہے۔دنیا بھر کے عدل پسند اور غیر جانبدار تجزیہ کار مقبوضہ وادی میں بھارتی مظالم کا نہ صرف تذکرہ کرتے ہیں بلکہ ان مطالم کی مذمت بھی کرتے ہیں۔ہونا تو یہ چاہیے کہ دنیا کے فیصلہ ساز اور طاقت ور ممالک خطے اور دنیا کو کسی بڑے حادثے سے بچانے کے لیے مسئلہ کشمیر مذاکرات کے زریعے حل کروانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ مگر امریکہ اور یورپ کے فیصلہ ساز ممالک اس حوالے سے اپنا عادلانہ کردار ادا نہیں کر رہے ہیں،جس کے باعث مقبوضہ وادی میں بھارتی فوج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔
سوشل میڈیا ابلاغ اور رابطے کا جدید ترین ذریعہ ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مصر کا تحری سکوائر بھی سوشل میڈیا کی طاقت کا عملی اظہار تھا اور عرب بہار کے پیچھے بھی سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی مہم ہی تھی۔ پاکستان میں پی ٹی آئی نے اپنے ورکرز کو متحرک کرنے اور انھیں باہم مربوط رکھنے کے لیے سوشل میڈیا۔بالخصوص ٹویٹر کا سہرا لیا جو بہت کامیاب رہا۔ اسی طرح نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قریب قریب اپنی ساری مہم ٹویٹر پر ہی چلائی۔یوں یہ سمجھنے میں دقت نہیں کہ سوشل میڈیا کا جدید ابلاغی رحجان میں کیا کردار ہے۔بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ وادی میں سوشل میڈیا پر پابندی اعتراف شکست کے مترادف ہے۔دنیا کی عدل پسند طاقتوں اور بالخصوص انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس حوالے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور مظلوم کشمیریوں کو ان کے اظہار کے ذرائع دلوانے چاہیں، کیونکہ یہ مظلوم کشمیری ایک مدت سے اپنی حریت فکر کو کام مٰں لاتے ہوئے اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply