لاہور کے سرکاری ہسپتال میں مرنے والی خاتون کا قاتل کون

لاہور کے سرکاری ہسپتال میں مرنے والی خاتون کا قاتل کون
طاہر یاسین طاہر
بارہا ان جملوں کی تکرار کی کہ ہم معاشرتی طور پر احساس سے عاری لوگ ہیں۔نمود و نمائش ہماری اولین ترجیح ہے جبکہ ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرنا ہم خوب جانتے ہیں۔حکومتی ترجمان چیخ چیخ کر ٹی وی چینلز پر بول رہے ہوتے ہیں کہ ملک ترقی کر رہا ہے،مگر دھرنے ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں،کبھی کہا جاتا ہے کہ جتنی ترقی ہمارے دور میں ہوئی اتنی کسی اور دور میں نہیں ہوئی، اخبارات کے صٖفحات ترقی و خوشحالی کی مچالیں لیے ہوتے ہیں۔ حالات مگر اس سب کے بر عکس ہیں اور حکمران اس سب کے ذمہ دار ہیں۔
یاد رہے کہ لاہور کے جناح ہسپتال میں بستر نہ ملنے پر 60 سالہ خاتون ایمرجنسی وارڈ کے ٹھنڈے فرش پر دم توڑ گئیں۔قصور کی رہائشی 60 سالہ زہرہ بی بی کو دل میں اچانک تکلیف اٹھی تو انہیں پہلے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیولوجی لایا گیا جہاں ڈاکٹرز نے معائنے کے بعد کہا کہ انہیں دل کی تکلیف نہیں ہے لہٰذا کسی جنرل فزیشن سے ان کا معائنہ کرایا جائے۔پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیولوجی کے ڈاکٹرز نے مریضہ کو سروسز ہسپتال ریفر کردیا جہاں لے جانے پر انہیں معلوم ہوا کہ یہاں مزید مریضوں کے لیے جگہ دستیاب نہیں ہے۔سروسز ہسپتال کے عملے نے زہرہ بی بی کو جناح ہسپتال ریفر کردیا اور جب وہ ہسپتال پہنچیں تو یہاں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں تھی۔جناح ہسپتال میں بھی مریضہ کے لیے بستر نہ ہونے کی وجہ سے اسے ایمرجنسی وارڈ کے فرش پر ہی لٹادیا گیا۔ٹھنڈ لگنے سے ضعیف خاتون کی طبیعت مزید بگڑ گئی جبکہ اس کی بیٹی ہسپتال کے عملے سے گزارش کرتی رہی کہ انہیں بیڈ پر منتقل کردیا جائے تاہم کسی نے اس کی نہ سنی اور معمر خاتون وہیں دم توڑ گئیں۔اس واقعے کی خبر میڈیا پر چلنے کے بعد پہلے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے نوٹس لیا اور اس کے بعد وزارت صحت نے بھی اس کا نوٹس لے لیا۔
بعد ازاں پنجاب کے وزیر صحت برائے اسپیشلائزڈ ہیلتھ خواجہ سلمان رفیق جو کہ وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے بھائی بھی ہیں، جناح ہسپتال میں صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے پہنچے۔ خواجہ سلمان رفیق نے معاملے کی تحقیقات کے لیے تین رکنی کمیٹی بنانے کا اعلان کیا جس کی سربراہی کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر فیصل مسعود کریں گے۔کمیٹی کے دیگر ارکان میں فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر فخر امام اور ایڈیشنل سیکریٹری راجہ منصور شامل ہیں۔کمیٹی کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ 24 گھنٹوں کے اندر اپنی تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ اعلیٰ حکام کو پیش کرے۔
ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ کوئی دل سوز واقعہ ہوا ہو اور حکومت نے پہلی فرصت میں کمیٹی نہ بنائی ہو۔وزیر اعلیٰ سے لے کر وزیر اعظم تک نے فوری نوٹس نہ لے لیا ہو اور میڈیا پر ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا اعلان نہ کیا ہو۔ مگر تاریخی حقائق اس کے بر عکس ہیں۔ اگرچہ کسی بھی واقعہ کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی کی تشکیل ضروری ہے اور یہ حکومت کی صوابدید بھی ہے مگر ہمارے ہاں یہ طریقہ عوامی غصہ کم کرنے اور واقعات کا رخ موڑنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کیا ہم ماڈل ٹاون واقعے کی انکوائری رپورٹ کو بھول گئےہیں یا کیا اس انکوائری رپورٹ کی روشنی میں ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہوئی؟ کیا کوئٹہ کمیشن رپورٹ کی روشنی میں حکومت نے ذمہ دار افراد اور اداروں کے خلاف کسی کارروائی کا عندیہ دیا؟پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں دل کی غیر معیاری اور آوٹ آف ڈیٹ ادویات استعمال کرانے سے مرنے والے مریضوں ،کے حوالے سے جو کمیٹی بنی تھی اس نے ذمہ داروں کے خؒاف کیا کارروائی کی؟ ماسوائے ایک دو ٹرانسفرز کے کمیٹی اور کیا سفارشات کرے گی یا اگر کمیٹی سخت سزا کی سفارش کرے بھی تو حکومت اس پہ کون سا عمل کرتی ہے؟یہ امر واقعی ہے کہ پورے ملک سمیت پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں کا حال نا گفتہ بہہ ہے۔ سٹاف کی قلت کے ساتھ ساتھ ادویات،ایمبولینسس،جدید آلات اور اس کے ساتھ ساتھ عملے میں احساس کی بھی شدید قلت و کمی پائی جاتی ہے۔حکمران طبقے کو کون سمجھائے کہ ترقی دعووں اور اشتہارات میں نہیں ہوتی بلکہ نظر آتی ہے، ان کے نزدیک مگر ترقی صرف سڑکیں بنانے اور نئی ٹرانسپورٹ کمپنیاں چلانا ہی ترقی ہے۔شائد اسی میںہی حکمران طبقہ کا مفاد ہے۔ممکن ہے مرنے والی کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کو وزیر اعلیٰ خود پہنچ جائیں اور امداد کا اعلان بھی کر دیں، سوال مگر وہی ہے کہ کیا عوام مفادمیں کام کرنے کے لیے حکمرانوں کو غریبوں کی لاشیں ہی درکار ہوتی ہیں۔
یہ بات قابل غور ہے کہ جب تک حکمران اور بالا دست طبقہ اپنا اور اپنے خاندان کا علاج ملک میں نہیں کروائے گا اس وقت تک ہمیں غیر معیاری اور مہنگی ادویات ملتی رہیں گی،سرکاری و پرائیویٹ ہسپتالوں کی حالت خراب ہی رہے گی اور کوئی ڈھنگ کا ڈاکٹر بھی نہیں ملے گا۔خادم اعلیٰ صاحب سے بھی گذارش ہے کہ جناب صرف چھاپے مار کر دو چار بندے معطل کرنے سے بہتری نہیں آتی اس کے لیے پالیسی اور اس پر عمل در آمد کی ضرورت ہوتی ہے۔بے شک تعلیم اور صحت حکمران طبقہ کی ترجیحات میں ہی نہیں۔اس واقعے کی براہ راست ذمہ داری حکومت پنجاب پر عائد ہوتی ہے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply