غلامی اور اسلام۔اک جائزہ

غلامی ایک ایسی لعنت ہے جو شروع سے ہی کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی ہے۔چونکہ جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ہے اس لئے غریب کمزور ہمیشہ طاقتور کے پنجئہ ستم واستبداد کا شکار رہا ہے۔ہر مذہب نے کسی نہ کسی شکل میں ان بے کسوں کی اشک شوئی کی مگر اسلام نے جس طرح غلاموں کا مقدمہ لڑا اور انہیں برابر کا شہری بنایا اس کی مثال موجود زمانے میں بھی دستیاب نہیں،کجا یہ کہ آپ چودہ سو سال قبل کے معاشرے میں اس کی مثال ڈھونڈیں جب کمزوروں کو بمشکل ہی انسان سمجھا جاتا تھا۔بانئی اسلام نے اس دور نارسائی میں غلاموں کو انسان اور پھر قابل عزت انسان بنانے میں جو کردار ادا کیا ہے تاریخ اسے کبھی بھلا نہیں پائے گی۔بعد میں آنے والے بادشاہوں نے جو اپنے حرم سراؤں کی رونقیں دوبالا کیں اور لونڈیوں کو ’’ چیک‘‘ کرنے کا جو طریق اختیار کیا اس سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں۔کسی کی مسلمانی کو اسلام پر نہ تھوپیں۔
آپﷺ نے غلاموں کی آزادی کا جو منشور دیا اس کی تھوڑی سی تفصیل پیش خدمت ہے۔
آپﷺ کی ابتدائی تعلیمات میں یہ بات بھی داخل تھی کہ غلاموں کے ساتھ نرمی اور شفقت کا سلوک ہونا چاہیے بلکہ اس بارہ میں تو خصوصیت کے ساتھ ایک قرآنی وحی بھی نازل ہوئی کہ غلام کا آزاد کرنا ایک بہت بڑی نیکی ہے۔ (سورۃ البلد)
آنحضرت ﷺنے صرف غلاموں کی حالت کو بہترہی نہیں بنایا بلکہ آپ نے آئندہ کے لیے غلامی کے ناجائز اور ظالمانہ طریقوں کو منسوخ بھی کر دیا۔ گویا مسئلہ غلامی کے متعلق آنحضرت ﷺ کی لائی ہوئی تعلیم میں اصلاح کا کام دو حصوں میں منقسم تھا۔ایک حاضر الوقت غلاموں کی اصلاح اور ان کی آزادی کا انتظام اور دوسرا آئندہ کے لیے اصولی احکامات۔
حاضر الوقت غلاموں کی اصلاح
’’ اے مسلمانوں! اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی اور احسان کا سلوک کرو اور اپنے دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ۔۔۔ اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے ساتھ۔‘‘ (النساء)
پھرغلاموں کو معاشرے کا باعزت فرد بنانے کے لیے فرمایا:
’’اے مسلمانوں مشرک عورتوں کے ساتھ شادی نہ کرو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں اور ایک مسلمان لونڈی ایک آزاد مشرک عورت سے بہتر ہے خواہ تمہیں مشرک عورت اچھی ہی نظر آئے اور اے مسلمانوں تم مسلمان عورتوں کا مشرک مردوں کے ساتھ نکاح نہ کرو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں اور ایک مسلمان غلام بہتر ہے ایک آزاد مشرک آدمی سے خواہ تمہیں مشرک آزاد آدمی اچھا ہی لگے۔‘‘ (البقرۃ)
غلام تمہارے بھائی ہیں
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں۔ جس کا بھائی اس کے ماتحت ہو (یعنی غلام ہو) تو اسے چاہیے کہ اسے وہی کھانا دے جو وہ خود کھاتا ہے اور اسے ویسا لباس دے جیسا وہ خود پہنتا ہے اور تم اپنے غلاموں کو ایسا کام نہ دیا کرو جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو اور اگر کبھی ایسا کام دو تو پھر اس کام میں خود ان کی مدد کیا کرو۔
(بخاری)
غلاموں سے حسن سلوک کا عملی نمونہ
حضرت عبادہ بن ولید بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم آنحضرت ﷺکے صحابی ابو الیسر سے ملے۔ اس وقت ان کے ساتھ ان کا غلام بھی تھا ہم نے دیکھا کہ ایک دھاری دار چادر اور ایک یمنی چادر انہوں نے لی ہوئی تھی اور ایک دھاری دار چادر اور ایک یمنی چادر ان کے غلام نے لی ہوئی تھی۔ میں نے کہا چچا آپ نے ایسا کیوں نہ کیا کہ اپنے غلام کی دھاری دار چادر خود لے لیتے اور اپنی یمنی چادر اسے دے دیتے تاکہ آپ دونوں کے بدن پر ایک طرح کا جوڑا تو ہوتا۔ کہتے ہیں حضرت ابو الیسر نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا، میرے لیے دعا کی اور کہا بھتیجے میری ان آنکھوں نے دیکھا ہے اور میرے ان کانوں نے سنا ہے اور میرے اس دل نے اسے اپنے اندر جگہ دی ہے رسول اللہﷺ فرماتے تھے کہ اپنے غلام کو وہی کھانا کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو اور وہی لباس پہناؤ جو تم خود پہنتے ہو۔ میں اس بات کو بہت زیادہ پسند کرتا ہوں کہ میں دنیا کے اموال میں سے اپنے غلام کو برابر کا حصہ دے دوں بہ نسبت اس کے کہ قیامت کے دن میرے ثواب میں کوئی کمی آئے۔(مسلم )
حضرت ابو مسعود بدری بیان کرتے ہیں کہ ایک بار کسی وجہ سے میں نے اپنے غلام کو مارا اس وقت میں نے اپنے پیچھے سے آواز سنی ’’دیکھو ابو مسعود یہ کیا کرتے ہو مگر غصہ کی وجہ سے میں نے اس آواز کو نہ پہنچانا اور غلام کو مارتا ہی گیا۔ اتنے میں وہ آواز میرے قریب آگئی اور میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ یہ آواز دیتے ہوئے میری طرف آرہے ہیں۔ آپ کو دیکھ کر میری چھڑی میرے ہاتھ سے گر گئی۔ آپ نے فرمایا ابو مسعود اللہ تم پر اس سے زیادہ قدرت رکھتا ہے جو تمہیں اس غلام پر ہے یہ سن کر میں نے کہا یارسول اللہ میں اللہ کی رضا کے لیے اس غلام کو آزاد کرتا ہوں۔ فرمایا اگر تم ایسا نہ کرتے تو جہنم کی آگ تمہارے منہ کو جھلستی۔
غلاموں کی نجی زندگی میں آزادی
آنحضرت ﷺنے دور جاہلیت کی جن تاریکیوں کو دور کیا ان میں غلامی در غلامی کی ایک صورت یہ تھی کہ غلام اور لونڈیاں اپنی عائلی زندگی میں بھی غلام تھے۔ آنحضرت ﷺنے ان کے اس مقام کو بھی قائم فرمایا۔ روایت آتی ہے کہ ایک غلام آنحضرت ا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ میرے آقا نے اپنی لونڈی کے ساتھ میری شادی کر دی مگر اب وہ چاہتا ہے کہ ہمارے نکاح کو فسخ کر کے ہمیں ایک دوسرے سے جدا کر دے۔ آپ نے لوگوں کو مخاطب ہو کر فرمایا: یہ کیا بات ہے کہ تم لوگ اپنے غلاموں اور لونڈیوں کی شادی کرتے ہو اور پھر خود ہی اپنی مرضی سے ان میں علیحدگی کرانا چاہتے ہو۔ سن لو ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا طلاق دینے کا حق صرف خاوند کو ہے تم اپنے غلاموں کو طلاق پر مجبور نہیں کرسکتے۔
غلاموں کی آزادی کے متعلق تعلیم
حاضر الوقت غلاموں کی آزادی کے متعلق آنحضرت ﷺ کی تعلیم کے دو پہلو ہیں۔
ایک اخلاقی تعلیم اور وعظ و نصیحت
اور دوسرا لازمی احکام۔
اخلاقی تعلیم
آنحضرت ﷺ نے نہ صرف غلاموں کی آزادی کی تعلیم دی بلکہ آزادی سے پہلے غلاموں کی تعلیم و تربیت پر زور دیا، فرمایا: اگر کسی کے پاس لونڈی ہو اور وہ اسے اچھی تعلیم دے اور اس کی اچھی طرح تربیت کرے پھر اسے آزاد کر کے اس کے ساتھ شادی کرے تو ایسا شخص خدا کے حضور دہرے ثواب کا مستحق ہو گا۔
نیز فرمایا:
’’جو کوئی مسلمان غلام آزاد کرے گا اللہ تعالیٰ اسے جہنم سے نجات دے گا۔‘‘
لازمی احکام
غلاموں کی آزادی کے سلسلہ میں دین محمدی اﷺنے ایک بڑا احسن طریق یہ اختیار کیا کہ بعض جرائم کی سزا کے طور پر غلام آزاد کرنے کا حکم دے دیا چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:
’’کوئی شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دے تو اس کی سزا یہ ہے کہ وہ ایک مسلمان غلام آزاد کرے اور مقتول کے وارثوں کو خون بہا (دیت) بھی ادا کرے سوائے اس کے کہ اس کے ورثاء اسے یہ خون بہا خود بخود معاف کر دیں اور ایسے شخص کو اگر کوئی غلام آزاد کرنے کے لیے نہ ملے تو دو ماہ کے لگا تار روزے رکھے۔‘‘ (النساء:)
اور اس طرح کے بہتیرے احکامات ہیں جن کا کفارہ غلام کی آزادی کو بھی ٹھہرایا۔
غلاموں کی آزادی کے دیگر اسباب
حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت ابی بکر ص بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم ا مسلمانوں کو حکم دیتے تھے کہ سورج گرہن کے وقت غلام آزاد کیا کریں۔
حضرت سوید بن مقرن ص روایت کرتے ہیں کہ ہم سات بھائی تھے اور ہمارے پاس صرف ایک غلام تھا۔ ہم میں سے کسی کو کسی بات پر غصہ آیا تو اس نے غلام کو طمانچہ رسید کر دیا۔ رسول اللہ ا کو علم ہوا تو آپ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اس غلام کو آزاد کر دیں۔
اس بات کی مزید وضاحت اور اس امر کا ثبوت ہے کہ اسلام نے غلام کو سزا دینے کو اس کی آزادی کا ذریعہ بیان کیا ہے۔حضرت عمر کی روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنے غلام کو مارے اور پھر آزاد کر دے تو اسے اس کے اس فعل کا کوئی ثواب نہیں ہوگا کیونکہ غلام کا آزاد کیا جانا اسلام میں مالک کے غلام کو مارنے کے فعل کی سزا قرار پا چکا ہے۔
حضرت ابن عمر اور حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا جو شخص کسی غلام کی ملکیت میں دوسروں کے ساتھ حصہ دار ہو اور وہ اپنے حصے میں غلام کو آزاد کر دے تو اس کا یہ فرض ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے مال میں سے دوسرے حصہ داروں کو بھی روپیہ دے کر غلام کو کلیۃً آزاد کرا دے اور اگر اس کے پاس اتنا روپیہ نہ ہوتو پھر بھی غلام کو عملاً آزاد کر دیا جائے گا تاکہ وہ خود اپنی کوشش سے بقیہ رقم پیدا کر کے دوسرے مالک کو دیت ادا کر کے کلی طور پر آزاد ہو جاوے اور اس معاملہ میں غلام کو ہر قسم کی سہولت دی جائے گی۔(بخاری)
غلاموں کی آزادی کا مستقل انتظام
مذکورہ بالا طریقوں کے باوجود غلاموں کے کچھ طبقے ایسے ہوسکتے ہیں جو ان متذکرہ بالا صورتوں میں سے کسی صورت میں نہ آتے ہوں ان کی آزادی کے لیے اسلام نے ایک مستقل انتظام کیا ہے جو مکاتبت کے نام سے موسوم ہے جس میں مالک اس بات کا پابند اور مجبور ہے کہ اگر کوئی غلام اپنے حالات کے لحاظ سے آزادی کی اہلیت کوپورا کر چکا ہو تو وہ اس سے مناسب رقم پیدا کرنے کی شرط کر کے اسے آزاد کر دے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ترجمہ:’’اے مسلمانو! تمہارے غلاموں میں سے جو غلام تم سے مکاتبت کا عہد کرنا چاہیں تمہارا فرض ہے کہ ان سے مکاتبت کا عہد کر کے انہیں آزاد کر دو بشرطیکہ وہ آزادی کے اہل بن چکے ہوں اور ایسی صورت میں تمہارا یہ بھی فرض ہے کہ اس مال میں سے انہیں بھی حصہ دو جو دراصل تو خدا کا ہے مگر خدا نے اس مکاتبت کے نتیجہ میں تمہیں عطا کیا ہے۔‘‘(النور:)
اس بات کی مزید وضاحت اور تائید کے لیے کہ مکاتبت مالک کی مرضی پر منحصر نہیں تھی بلکہ یہ غلام کا وہ حق ہے جو اسلامی حکومت اسے دلاتی ہے اس روایت سے بھی ہوتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے صحابی حضرت انس کا ایک غلام تھا جس کا نام سیرین تھا اس نے حضرت انس کے ساتھ مکاتبت کرنی چاہی مگر حضرت انس نے یہ خیال کر کے کہ میرے پاس بہت روپیہ ہے مجھے مکاتبت کے روپے کی ضرورت نہیں مکاتبت سے انکار کر دیا۔ اس پر سیرین نے حضرت عمر کے پاس شکایت کی۔ حضرت عمر ص نے سیرین کی شکایت سن کر حضرت انس کو حکم دیا کہ وہ مکاتبت کریں۔(بخاری )
مکاتبت میں بھلائی سے مراد پیشہ وغیرہ کی اہلیت ہے یعنی مقصود یہ ہے کہ ایسے غلاموں کے ساتھ مکاتبت ضروری ہو جاتی ہے جو کوئی پیشہ یا کام وغیرہ جانتے ہوں تاکہ وہ آزادی حاصل کرنے کے بعد سوسائٹی پر کسی قسم کے بوجھ کا باعث نہ بنیں۔
آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ تین قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی نصرت کو اپنے اوپر ایک حق کے طور پر قرار دے لیا ہے۔ اول مکاتب غلام جو اپنی مکاتبت کی رقم کی ادائیگی کی فکر میں ہے دوسرا وہ شادی کرنے والا شخص جو اپنی عفت بچانے کی نیت رکھتا ہے اور تیسرا مجاہد فی سبیل اللہ۔(ابن ماجہ )
اسلامی حکومت کا فرض
غلاموں کی آزادی کی تحریک صرف افراد تک محدود نہ تھی بلکہ اسلامی سلطنت کا بھی یہ فرض قرار دیا گیا ہے کہ وہ قومی بیت المال میں سے ایک معتدبہ حصہ غلاموں کو آزاد کرانے میں صرف کرے چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
یعنی زکوٰۃ کے اموال فقراء اور مساکین پر خرچ ہونے چاہئیں اور محکمہ زکوٰۃ کے عاملین پر اور کمزور نو مسلموں اور غلاموں کے آزاد کرنے میں اور مقروضوں کے قرض کی ادائیگی میں۔ (توبہ)
آزاد کردہ غلاموں کوبے یارو مدد گار نہ چھوڑو
غلامی کی آزادی کے اس انتظام میں اس بات کو بھی مدنظر رکھا گیا تھا کہ آزاد ہونے کے بعد بھی آزاد شدہ غلام بالکل بے سہارااور بے یارو مددگار نہ رہیں۔ چنانچہ آنحضرت ا نے ایسا انتظام فرمایا تھا کہ مالک اور آزاد شدہ غلام کے درمیان ایک قسم کا رشتہ اخوت مستقل طور پر قائم رہے آپ کی تعلیم کے مطابق مالک اور آزاد کردہ غلام دونوں ایک دوسرے کے ’’مولیٰ‘‘ یعنی دوست اور مدد گار کہلاتے تھے تاکہ آقا اور غلام دونوں کے دلوں میں یہ احساس رہے کہ ہم ایک دوسرے کے دوست ہیں اور بوقت ضرورت ہم نے ایک دوسرے کے کام آنا ہے۔
غلام اور آقا ایک دوسرے کے وارث
اسلام نے اس رشتہ اخوت کو یہاں تک مضبوط کیا کہ ایک دوسرے کو حق وراثت بھی عطا کیا گیا یعنی اگر غلام بے وارث مرتا تو اس کا ترکہ اس کے آزاد کرانے والے کو جاتا تھا اور اگر مالک بے وارث رہ جاتا تھا تو اس کا ورثہ اس کے آزاد کردہ غلام کو ملتا تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ا نے فرمایا آزاد شدہ غلام (لاوارث مر جائے تو اس) کا ترکہ اسے آزاد کرانے والے کو ملے گا۔(بخاری )
حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ کے عہد میں ایک شخص فوت ہوگیا اور اس کا کوئی وارث نہیں تھا سوائے ایک غلام کے جسے اس نے آزاد کرایا تھا تو نبی ا نے اس شخص کا ترکہ اس غلام کو دے دیا۔
اس حق وراثت کی بنیاد مالی اور اقتصادی خیالات پر مبنی نہیں تھی بلکہ اصل منشاء مالک اور آزاد کردہ غلام کے تعلق کو قائم رکھنا تھا اس لیے رسول اللہ ﷺنے آزادہ کردہ غلام اور آقا کے حق موروث کی خرید و فروخت اور اس کے ہبہ وغیرہ سے منع فرمایا۔
غلاموں کی آزادی کی تعلیم کے عملی نتائج
غلاموں کی آزادی کی اس تعلیم پر آنحضور ﷺ کے تربیت یافتہ صحابہ نے کس طرح عمل کیا ۔ ایک لمبی تفصیل ہے۔
تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ اس زمانہ میں مسلمان نہ صرف اپنے ہاتھ میں آئے ہوئے غلاموں کو کثرت سے آزاد کرتے رہتے تھے بلکہ بعض تو خاص اس نیت اور اس ارادے سے غلام خریدتے بھی تھے کہ انہیں خرید کر آزاد کر دیں اور اس طرح بے شمار غلام مسلمانوں کی مساعی جمیلہ سے غلامی سے نجات پاگئے۔ درج ذیل فہرست جو یقیناًمکمل نہیں اس بات کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔
آنحضرت ﷺنے 63 غلام ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے 67غلام ، حضرت عباس نے 70غلام، حضرت حکیم بن حزام ص نے 100غلام، حضرت عبداللہ بن عمرنے 1000 غلام، حضرت عبدالرحمن بن عوف ص نے 3000 غلام ، حضرت عثمان بن عفّان ص نے 20000 غلام، حضرت ذوا الکلاع الحمیری ص نے 8000 غلام ۔
کل 32300۔
آنحضرت ﷺ کی آخری نصیحت
آخری الفاظ جو آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے سنے گئے اس حال میں کہ آپ پر نزع کی حالت طاری تھی فرمایا ’’ا َلصَّلٰوۃُ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُم ‘‘ ْیعنی اے مسلمانو! میری آخری وصیت تم کو یہ ہے کہ نماز اور غلاموں کے متعلق میری تعلیم کو نہ بھولنا۔

Facebook Comments

راشداحمد
صحرا نشیں فقیر۔ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply