فیصلہ اتنا بھی برا نہیں

مجموعی طور پہ فیصلہ برا نہیں۔ معروضی حالات کو دیکھتے ہوئے کہ جسے ہم پولیو کا مریض سمجھ بیٹھے تھے اس نے ٹانگ تو ہلائی۔ اس پولیو کے مرض کو پھیلانے میں ہم سب شریک ہیں، جی ہاں میں کہوں گا کہ ہم سب! یہ اداروں کا پولیو ہے۔ ادارے جب لُولے لنگڑے ہوجاتے ہیں تو اسی طرح رہ جاتے ہیں۔ اصولاً ریاست کے تینوں ستون یعنی عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ ایک دوسرے کے دباؤ سے آزاد اور علیحدہ ہوتے ہیں۔ ریاستی مفاد یا پالیسیوں کی تشکیل کی خاطر جہاں آپسی مشاورت بھی ہوتی ہے وہیں ادارہ جاتی مفاد کی خاطر ایک دوسرے پہ نظر بھی رکھتے ہیں۔ چیک اینڈ بیلنس کا یہ اصول اس نازک توازن اور آزادی کو جنم دیتا ہے جسے جمہوریت کہا جاتا ہے۔ طاقت کے اس توازن کو براقرار رکھنے کے لئے ہر ادارے کو مکمل آئینی تحفظ حاصل ہوتا ہے تاکہ دوسرا ادارہ اس کے اندر مداخلت نہ کرسکے۔ مقننہ یا پارلیمنٹ کو سپریم یا اعلی تر صرف اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ قانون بناتی ہے جس کی تعمیل اور نفاذ سب اداروں کی ذمہ داری ہے لیکن وہ دوسرے ادارے کی ذمہ داری اپنے ہاتھ نہیں لے سکتی۔ اگر ایسا ہوا تو طاقت کے اہرام مصر جنم لینا شروع کردیتے ہیں اور ریاست جمہوریت سے بادشاہت کی طرف سفر کرنے لگتی ہے۔
“طاقت کرپشن کو جنم دیتی ہے اور مکمل طاقت کا ارتکاز بے لگام کرپشن کو جنم دیتا ہے” لارڈ ایکٹن
سو طاقت کی تقسیم کا یہ اصول کسی بھی جمہوری آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہے۔ ہم اس ڈھانچہ کو ہی خراب کربیٹھے ہیں۔ میں بھٹو صاحب کو بہت زیادہ پسند کرتا ہوں لیکن اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں عار نہیں سمجھتا کہ سول انتظامیہ کی آزادی پہ پہلی ضرب انہوں نے لگائی اور اس کو اپاہج کرنے کا عمل ضیا نے مکمل کیا۔ اسی طرح عدلیہ جو ریاست کا دوسرا ستون تھی اس کی آئینی آزادی کو سلب کرنے کی مہین سی شروعات بھٹو نے کی تھیں ضیا نے اس عمل کو باقاعدہ بنا دیا اور نواز شریف نے اپنی پچھلی حکومت میں اس کو مکمل کیا۔
نواز شریف کی پچھلی حکومت آئینی طور پہ آخری آزاد ادارہ یعنی فوج( تکنیکی طور پہ فوج اور سول بیوروکریسی کا نام انتطامیہ ہے) کی آئینی آزادی سلب کرنے میں گزری اور اسی کوشش میں بم کو دولتی ماری گئی۔
کارل مارکس نے کہا تھا کہ دنیا بھر کے مزدورو ایک ہوجاؤ۔ تو ہمارا میثاق جمہوریت عملاً یہ کہتا ہے کہ پاکستان بھر کے سیاستدانو اپنے مفادات کے لئے ایک ہوجاؤ۔
ادارے کو آئینی تحفظ درکار ہوتا جسٹس سجاد علی شاہ کے دور میں عدلیہ پہ جس طرح ہل پھیرا گیا اس کے بعد یہ فیصلہ بھی غنیمت ہے۔ اس جرم میں ہم بھی شریک ہیں۔ کیا یہ ہمی نہ تھے جو اپنی اپنی سیاسی پارٹی کی حمایت کے شوق میں حد سے گزر گئے تھے اور آئین کے توازن کے خراب ہونے پہ ٹھٹکے نہیں، احتجاج نہ کیا؟ بلکہ لڈیاں ڈالتے رہے؟آج کے دور میں عدلیہ یہی کرسکتی تھی بلکہ یہ بھی غنیمت ہے کہ جسے ہم پولیو کا مریض سمجھ بیٹھے تھے اس نے پاؤں تو ہلایا۔ حل یہی ہے کہ ہر ادارہ اپنی اپنی حد میں واپس جائے۔ اس کی شروعات اہل سیاست سے ہوگی کہ وہ انتظامی اختیار کا مزا مالی مفاد کے لئے خود چکھنے کی بجائے خود کو قانون سازی تک محدود کریں۔ آخر مقننہ کا اور کام ہے کیا؟اور تمام اداروں کی آئینی آزادی بشمول مالی آزادی یا ترقی وغیرہ کے بارے میں قانون بنائیں ناکہ صوابدیدی اختیار اپنے ہاتھ میں لیں۔ تب سے ہی سسٹم درست ہونا شروع ہوگا۔ اداروں کی آزادی اور ٹکراؤ میں ہی جمہوریت اور فرد کی آزادی کا راز پوشیدہ ہے۔ ترقی یافتہ معاشرے اسی طرح کرتے ہیں

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply