باری کا بخار/ اقتدار جاوید

باری کا بخار چڑھتا ہے تو زور شور سے چڑھتا ہے۔اس باری کے بخار کو لوگ ملیریا کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ ایک متعدی بیماری ہے اور ہر سال اس سے تین سے چار کروڑ لوگ شکار ہوتے ہیں۔ بعینیہ بجٹ بھی باری کا بخار ہے اور بلاناغہ ہر سال چڑھتا ہے اور اس سے ہلاکتوں میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔مصدقہ اطلاعات کے مطابق اسی بجٹ کے شاخسانے یعنی اس کی وجہ سے فنڈز کی مناسب تقسیم نہ ہونے کی وجہ سے بھوک کا بخار چڑھتا ہے اور اس سے دنیا بھر میں سالانہ نوے لاکھ لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
باری کا بخار بھی بجٹ کی طرح غریبوں کو ہی اپنی لپیٹ میں لیتا ہے۔جب باری کا بخار چڑھتا ہے تو خدا بخشے پیپلز پارٹی جاگ جاتی ہے اور طرح طرح کی موشگافیوں سے باری کا بخار ایک اور اپنی ہی وضع قطع کی پارٹی کے سر تھوپنے کی جنگ شروع کر دیتی ہے۔
یہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کی ضد سمجھی جاتی تھیں۔دونوں نے بہت جان مار کر اور ہزار ہا کوشش سے خود کو ایک جیسا کر لیا ہے۔اب کوئی دانائے راز ہی ان دونوں میں فرق تلاش کر سکتا ہے ہماشما کے بس کی بات نہیں۔یہ ایک ہونے کی کہانی نوے کے عشرے میں شروع ہوئی اور اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں تمت بالخیر ہو گئی۔اب لیلیٰ اور مجنوں ایسے ایک ہوئے کہ ایک دوسرے سے الگ کرنا ناممکن ہو گیا۔
ان دونوں پارٹیوں کا میدان جنگ Battle Field پنجاب تھا۔سندھ کی وارث پارٹی نے بمشکل تمام اپنی پارٹی کو انتہائی مہارت سے یوں پنجاب کے وسیع میدانوں سے نکالا کہ کانوں کان کسی کو خبر نہ ہونے دی کہ نیچے سے قالین کس طرح کھینچا جا رہا ہے۔
کسی زمانے میں ایک میثاق جمہوریت ہوا تھا اس میں ہی یہ غیر تحریری طور پر ادھر ہم ادھر تم کا فلسفہ تسلیم کر لیا گیا تھا۔یوں تو ” ادھر ہم ادھر تم” کا نعرہ بھٹو مرحوم کے سر تھوپنے کی کوشش کی گئی تھی اور اسے بزور بازو عام ذہنوں میں شکوک پیدا کر کے منوا بھی لیا گیا۔عباس اطہر نے جیسے اپنی کتاب دن چڑھے دریا چڑھے میں اپنی نظموں کی بنت لایعنی اسلوب پر رکھی تھی وہی اسلوب اس خبر میں بھی اپنایا گیا۔دن چڑھے دریا چڑھے والی کتاب تو لسانی تشکیلات کے ڈھیر میں دفن ہو گئی مگر عباس اطہر اس ایک جھوٹی سرخی کے بدولت امر ہو گئے۔مسئلہ امر ہونے کا تھا اگر ان کے سامنے کوئی واقعتاً مسئلہ درپیش ہوتا تو وہ یوں ادب کے میدان سے کان لپیٹ کر نہ نکلتے جیسے ہماری پارٹی پنجاب سے نکلی ہے۔ہم نے ظفر اقبال کی بابت بھی عرض کیا کہ ظفر اقبال کا تصور ِزبان اتنا سادہ نہیں جتنا سمجھ لیا گیا ہے اور اسے عباس اطہر کی قطار میں نہ کھڑا کیا جائے۔مزید عرض کیا کہ ظفر اقبال نے اپنے دعوے اور افتخار جالب کی تصدیق کے باوجود اردو ادب کو ایک بھی نیا لفظ نہیں دیا۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ظفر اقبال کے تصورِ زبان نے اردو کی نوتشکیلیت کی ہے لسانی تشکیل نہیں۔
اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں ادھر ہم ادھر تم کی فلاسفی بخیر و خوبی انجام پائی۔دعا ہوئی اور ایک پارٹی سندھ اور دوسری پنجاب کی” ونڈ ” پر راضی ہو گئی۔
جب پنجاب کے میدانوں سے پیپلز پارٹی کی فوج جنرل نیازی کی فوج کی طرح مجبور ہو نکل گئی تب پیپلز پارٹی کا کارکن یوسف بے کارواں ہو گیا اور ہم جیسے خواجہ محمد وزیر کا شعر پنجاب کے نام نہاد راہنماؤں کو سناتے
اسی خاطر تو قتل ِعاشقاں سے منع کرتے تھے
اکیلے پھر رہے ہو یوسفِ بے کارواں ہو کر
اس نام نہاد لیڈر شپ نے نہ یہ شعر سمجھا اور نہ اس کے خالق خواجہ محمد وزیر کا کہا مانا۔اصل منصوبہ ساز تو اور کوئی تھا ان نام نہاد لیڈروں کے پاس بغلیں جھانکنے کے سوا کچھ تھا ہی نہیں۔
خواجہ محمد وزیر ناسخ کے شاگرد تھے مگر کسی دربار سے منسلک نہ تھے اور نہ ہی کسی ایسے میثاق کے قائل تھے جس کی بنیاد پر کارکنوں کا سودا کیا جائے۔مگر عوام میں ان کی بیحد عزت تھی اور وہ اسی بیحد عزت پر ہی خوش بھی تھے اور نازاں بھی۔انہوں نے اور بھی بہت کچھ کہہ رکھا ہے جس کی طرف نظر نہیں جاتی
صدائے ماتمِ دل سن کے خوش وہ ہوتے ہیں
نوائے‌ سینہ زنی ہے کہ شادیانۂ عشق
صوبوں کا ٹنٹا ختم ہوا شادیانے بجے اور بتاشے تقسیم ہوئے نذریں بٹ گئیں تو احساس ہوا کہ شہرِ وفاق کا معاملہ بھی ساتھ ہی سدھار لیں۔سکہ اچھالا اور یہ بھی فیصلہ ہو گیا پانچ سارے ہمارے پانچ سال تمہارے۔اس دوران ایک دوسرے کو ٹیک دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔یہ ٹیک کیا ہوتی ہے اس کالم کے آخر میں بیان کی گئی ہے۔
پیپلز پارٹی بہت لمبا سفر کر کے اس مقام تک پہنچی ہے اور سچی بات ہے اس نے بہت محنت کر کے اس مقام تک پہنچنے کا انتظام کیا ہے۔ کہاں چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر اور کہاں چار نہروں کی سیاست قبول کرنے والے اس پارٹی کے بانی مبانی۔کیسے کیسے اس پارٹی کے چہرے ہوا کرتے تھے اب لے دے کے فرحت اللہ بابر رہ گئے جو پیپلز پارٹی کے سربراہ کو فیودور دستوئیفسکی سے ملاتے ہیں اور بغلیں بجاتے ہیں۔
ہمارے دیہاتوں میں ہم غریب لوگوں کے گھر کچی چھت کے ہوتے تھے۔ہر ساون میں چھت بیٹھ جاتی تو ایک لکڑی کا ستون بنایا جاتا۔وہ لکڑی کا ستون چھت کے لیے ایک عارضی ٹیک بن جاتا اور وقت گزاری کا سامان بن جاتا۔اسے ہم “تُل دینا” کہتے تھے۔ یہ لفظ شاید تلنے اور تولنے سے ہی تھا یوں۔تب چھت ایک سال نکال لیتی۔اب پپل پارٹی وہ تل ہی ہے۔اس تل دینے کو ہمارے دل کے نزدیک رہنے والے برادرم افضل چن کے صاحبزادے عزیزم ندیم افضل چن سے بہتر کون جاننے کا دعویٰ کر سکتا ہے

Facebook Comments

اقتدار جاوید
روزنامہ 92 نیوز میں ہفتہ وار کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply