گہرے گھاؤ۔۔فوزیہ قریشی

نومبر کی وہ وحشت نا ک شام اس کے لا شعور میں کائی کی طرح جم چکی تھی ۔ اسے اپنے ہاتھ لال اور ہرے رنگ کا ایک شاہکار دکھائی دیتے تھے. جیسے کسی آرٹسٹ نے اپنے دل کے رنگین زخم کینوس پر اتار دیئے ہوں۔ جب وہ کھرچ کھرچ کر تھک جاتی تو وارڈ میں موجود سب کرم فرماؤں کو رو رو کر اپنے زخم دکھاتی۔
مینٹل ہسپتال کی یہ عمارت چند کمروں پر مشتمل تھی۔مین دروازے سے کوریڈور تک ایک چھوٹا سا صحن نما احاطہ تھا۔ جسے پھولوں سے سجایا گیا تھا۔ صاف ستھری یہ چھوٹی سی عمارت کتنی ہی دکھی اور بے سہارا عورتوں کا سہارا تھی ۔۔ جس کی دیواروں نے اپنے اندر ان معصوم اور مظلوم عورتوں کی چیخ و پکار کو سمو لیا تھا۔
اسےیہاں آئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا لیکن وہ سب سے گھل مل چکی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ بآسانی اپنے رنگین گہرے گھاؤ سب کو دکھاتی لیکن جب کوئی پوچھتا کہ یہ رنگین کیسے ہوئے تو وہ ایک زور دار قہقہہ لگا کر آگے بڑھ جاتی۔مجھے اس پر بہت ترس آتا تھا۔ میں اکثر اپنی بڑی بہن کو دیکھنے اور ڈاکٹر سے اس کی صورتحال کے بارے میں معلومات حاصل کرنے جاتی تھی۔۔۔تبھی وہ مجھے کبھی کسی مریض کے بیڈ پر دکھائی دیتی تو کبھی کہیں۔ میری بہن بھی حالات کی ستائی، اس حالت کو کب پہنچ گئی، پتا ہی نہیں چلا۔ جب احساس ہوا تو ہمارے ہاتھوں میں کچھ نہیں بچا تھا۔۔۔۔

آج جب میں ڈاکٹر صاحبہ سے بہن کے بارے میں تفصیلی گفتگو میں مشغول تھی کہ یک دم وہ بنا پوچھے اندر آگئی اور مجھے اپنے ہاتھ دکھانے لگی۔۔ “دیکھو دیکھو یہ کیسے رنگ بدل رہے ہیں؟”وہ اپنے نرم و نازک سفید ہاتھ میرے آگے بڑھاتے ہوئے بولی۔
۔مجھے تو ان پر کوئی رنگ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔۔۔ دوسروں کی طرح جب میں نے بھی پوچھا کہ یہ ہاتھ رنگین کیسے ہوئے تو وہ قہقہہ لگا کر کمرے سے نکل گئی۔ اس کے جاتے ہی میں نے ڈاکٹر صاحبہ سے پوچھا کہ ایسا کیا ہوا تھا جو اسے اس حالت تک لے آیا؟۔
ڈاکٹر صاحبہ کچھ یوں گویا ہوئیں “بھئی ہم بھی مزید جاننے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ صرف اتنا جانتے ہیں ماں کی خود کشی کا صدمہ شاید  یہ برداشت نہیں کرسکی۔۔اس کی شادی کو چند ماہ ہی ہوئے تھے کہ اک بھیانک شام اسے یہ خبر ملی۔۔۔۔”
میں نے ڈاکٹر صاحبہ سےاجازت چاہی، “چلیں جب بھی معلومات حاصل ہوں مجھے بھی بتائیے گا ۔۔۔۔”

سارے راستے میں یہی سوچتی رہی آخر کیا وجہ ہوگی؟ جو اس کی ماں نے خود کشی کر لی اور اس موت کا اس کے ہاتھوں کی رنگینی سے کیا تعلق ہو سکتا ہے؟ کیوں اسے اپنے ہاتھ سرخ دکھائی دیتے تھے ؟ نہیں نہیں اس کو اپنے ہاتھ سرخ اورسبز دکھائی دیتے تھے۔۔۔۔ صرف سرخ نہیں ۔۔۔۔گہرا سبز کائی کا رنگ جو اس کے لا شعور کی دیواروں پر کہیں جم چکا تھا۔ کھرچنے پرخونی رنگ اس کائی کے ساتھ ایک عجیب سا امتزاج پیدا کرتا جسے وہ سب کو دکھا تی پھرتی تھی۔۔پھر وہ پوچھنے پر قہقہہ کیوں لگاتی تھی؟ ایسے ڈھیروں سوال مجھے اب بے چین کرنے لگے تھے۔ میں جلد سے جلد سب کچھ جاننا چاہتی تھی ۔ اسی لئے جب میں اگلی بار بہن سے ملنے گئی تو میں نے اس کے رنگین ہاتھوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا۔ جسے اس نے یہ کہ کر ٹھکرا دیا کہ مجھے ان دو رنگوں میں کسی تیسرے رنگ کی آمیزش نہیں چاہیے۔۔۔۔۔۔۔دیکھو دیکھو یہ رنگ اتر ہی نہیں رہے۔۔۔ ایسے میں تیسرا رنگ ۔ نہیں نہیں مجھے نہیں رنگنے ۔ یہ کہ کر وہ وارڈ سے باہر نکل گئی۔۔

وارڈ کا ماحول کافی عجیب سا تھا۔ کہیں کوئی روتی ہوئی عورت، تو کہیں قہقہے لگاتی ، بال نوچتی ہوئی، اپنی ہی دنیا میں مگن آس پاس سے بے خبر۔۔
مجھے اس کی باتوں نے مزید تجسس میں مبتلا کر دیا تھا۔ میں نے ہمت نہ ہاری۔ اب میں ہر دوسرے دن ہسپتال کا چکر لگاتی اور اس کے لئے کچھ نہ کچھ لے جاتی تھی۔ اب میں اس کے پاس بیٹھ کر اس کی ہاتھ دیکھتی اس سے ڈھیروں باتیں کرتی تھی۔ وہ بھی مجھ سے کافی مانوس ہو چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔ میرے آنے کا انتظار کرتی۔
اسی دوران میری بہن مکمل صحت یاب ہو کر ہسپتال سے ڈس چارج ہوگئی۔ جس کی وجہ سے میرا وہاں جانا رک سا گیا تھا۔۔ ایک دن مجھے ڈاکٹرصاحبہ کا فون آیا کہ رابعہ تمہیں بہت یاد کرتی ہے۔ اب وہ کسی کو اپنے ہاتھ نہیں دکھاتی ۔۔ بار بار صرف تمہارا پوچھتی ہےاور اک مخصوص وقت میں دروازے کے سامنے بیٹھ کر گھنٹوں تمہارا انتظار کرتی ہے۔۔ ہو سکے تو ہسپتال کا ایک چکر ضرور لگا لو۔۔

میں کچھ دنوں سے اپنی مصروفیات میں اس قدر کھو سی گئی تھی۔۔
دو دن بعد میں نے اپنی مصروفیت سے کچھ وقت نکالا اور ہسپتال کا رخ کیا۔۔۔۔ مین دروازے کے سامنے وہ کوری ڈور میں بیٹھی گویا کسی کی منتظر تھی۔ مجھ پر نظر پڑتے ہی میری طرف لپکی ۔ اس کی اداس آنکھوں میں چمک اور چہرے پر مسکان تھی۔۔ اس نے دو ہفتے بعد کسی کو اپنے رنگین زخم دکھائے تھے۔ میں اس کے ہاتھوں کو چومتے ہوئے ” واؤ یہ تو اور بھی حسین ہوگئے ہیں”۔
وہ میری طرف عجیب سی نظروں سے دیکھتے ہوئے کچھ یوں گویا ہوئی” پتا نہیں، کیسے ہو گئے؟ کچھ دنوں سے تو یہ رنگ ماند پڑ چکے تھے۔۔۔”

میں پیار سے چمکارتے ہوئے بولی ” آج تو تمہیں بتانا ہی ہوگا پہلی بارکب اورکیوں رنگین ہوئے تھے تمہارے ہاتھ۔۔؟ ”
اس نے میرے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے نفی میں سر ہلایا ۔۔۔میں نے اس کی دکھی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا “اگر تم نہیں بتاؤ گی تو میں آئندہ کبھی نہیں آؤں گی ۔”
وہ جو اتنے دنوں سے میری منتظر تھی، میری اس بات پر میرے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔۔۔۔یوں لگتا تھا جیسے وہ جب سے یہاں آئی تھی۔۔۔۔ شاید آج ہی پہلی بار جی بھر کر روئی تھی ۔ میں نے بھی اسے رونے دیا۔۔۔ یہ سوچ کر کہ اس کےدل کا بوجھ ہلکا ہو جائے تاکہ اس کوکچھ تو سکون ملے۔۔اس نے خود کو یادوں کی بند کتاب کے خستہ پھٹے صفحات پڑھنے پر بدقت آمادہ کرہی لیا۔ مرجھائے ہوئے سوکھے پھول کی طرح مسکی ہوئی بد رنگ مسکان اس کے سوکھے ہونٹوں پر چمکنے لگی۔۔۔۔ان ویران وادیوں میں جہاں کبھی پھول کھلے تھے۔۔۔ اب باد صرصر کی حکمرانی تھی۔۔۔ آرزؤں کا قافلہ عمر رواں کے سائے تلے کن صحراؤں میں بھٹکتا ریا تھا کہ اس کی روح کے پاؤں میں بھی آبلے پڑ گئے تھے۔۔۔ اس نے اپنے اجڑے خوابوں اور ارمانوں کی مہندی کو دل کے لہو میں ڈوبے رنگوں سے اپنی سونی ہتیھلی پر سجا لیا تھا۔۔۔

میں اس کی ہتھیلی پکڑ کر وہیں کوریڈور کے فرش پر بیٹھ گئی۔ فرش کی ہلکے سرمئی رنگ کی ٹائیلز بڑی دلکش دکھائی دیتی تھی۔ اس ہسپتال کا انتطام شہر کے دوسرے ہسپتالوں سے بہتر تھا ۔۔۔صفائی کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ انتظامیہ بھی کافی ہمدرد اور خوش اخلاق تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ میں اپنی بہن کے ڈس چارج ہونے کےباوجود بھی بھلا جھجک کسی اور مریض سے مل سکتی تھی۔۔۔۔۔۔
طوفانی بارش تھمی تو موسم کچھ خوشگوار سا ہوگیا۔ دھنک کے رنگوں نے آسمان پر اک حسین کمان کھینچ ڈالی ۔ وہ اپنے چہرے اور بالوں سے بھیگی بھیگی بوندوں کو صاف کرتے ہوئے بولی۔ “میں اپنے کزن کو بہت پسند کرتی تھی۔ خالہ نے جب رشتہ مانگا تو مجھ سمیت سب گھر والے بہت خوش تھے۔۔۔ میرے تو قدم ہی زمین پر نہ ٹکتے تھے۔ اتنی بڑی خواہش جو پوری ہوگئی تھی میری۔۔
میں اس سےاتنی محبت کرتی تھی کہ مجھے احساس ہی نہیں ہوا  کہ وہ میری بہن کو پسند کرتا ہے۔ بہن بھی اس سے چھیڑ چھاڑ کرتی تو ایسے ہی لگتا، جیسے سالی اپنے بہنوئی کو ستا رہی ہو۔ میں یہ دیکھ کر شرماتی رہتی۔ ان باتوں کا احساس مجھے شادی کے بعد ہونے لگا جب مجھے واجد نے بتایا کہ اس نے یہ شادی خالہ کی زبان کا بھرم رکھنے کے لئے کی تھی اور وہ کسی اور کا چاہتا ہے۔ کون تھی وہ ۔۔۔؟ یہ بتانے کے لئے اس نے مجھے اس قابل ہی نہیں سمجھا تھا۔۔۔۔۔میری ساری خوشیاں عارضی تھیں ۔ شادی کے شروع کے دنوں ہی میں میری امی نے بھی یہ بات محسوس کر لی تھی۔۔۔ لیکن مجھ سے پوچھنے کی ان میں ہمت نہیں تھی۔۔۔

میں ہر وقت اداس رہنے لگی۔ جس پر خالہ نے مجھے میکے جانے کی اجازت دے دی۔ یہ سوچ کر کہ میرا دل بہل جائے اور میری اداسی کچھ کم ہو سکے۔۔واجد خالہ کے سامنے کچھ شو نہ کرتا الٹا مجھے ہی مورود الزام ٹھہراتا کہ میں خود کو یہاں ایڈجسٹ نہیں کر پا رہی ہوں اور بلا وجہ اداس ہوں۔
امی کے گھر آتے ہی واجد بھی خالہ سے اجازت لے کر وہیں امی کے گھر آ گیا اور ہر کام میں ہاتھ بٹاتا ہوا ۔۔۔ سب گھر والوں کو خوش رکھنے کی کوشش کرتا۔ چھوٹی بہنا سے شرارتیں کرتا۔ وہی واجد جو خالہ کے گھرکسی کام میں دلچسپی نہیں لے رہا تھا اور خالہ اس بات کا اکثر طعنہ دیتی تھیں کہ اچھا خاصا تھا شادی کے بعد ایسا ہو گیا ہے۔۔ واجد کا بدلاؤ عجیب تھا۔۔۔ لیکن امی کچھ بجھی بجھی رہنے لگی تھی وہ واجد کے آنے سے خوش کیوں نہیں تھی؟ جو کبھی اس کے آنے پر صدقے واری جاتی تھیں ۔اور تو اور انہوں نے چھوٹی کو بھی سختی سے واجد سے دور رہنے کا حکم دے دیا تھا۔ میں امی کو سمجھاتی امی سالی ہے، ہنسی مذاق ہی تو کرتی ہے بہنوئی سے ، مت منع کریں۔۔۔ امی نے ایسا کیا دیکھ لیا تھا جو وہ چھوٹی پر اتنی سختی کرنے لگی تھیں اور نہ مجھے کچھ بتا رہی تھیں، بس ایک ہی اصرار کئے جا رہی تھیں کہ میں اپنی سسرال واپس چلی جاؤں اور واجد کو یہاں مت لے کر آیا کروں ۔۔۔

میری سمجھ میں ان کی کوئی بات نہیں آرہی تھی کہ آخر امی ایسا کیوں کر رہی ہیں؟ جبکہ خالہ نے خوشی سے مجھے بھیجا تھا اور مجھےیہاں آئے زیادہ دن بھی نہیں گزرے تھے اور واپس جانے پر امی کا اصرار میری سمجھ سے باہر تھا۔امی کے بے حد اصرار پرمیں واپس سسرال آگئی تھی۔ کچھ دن بعد یہ خبر ملی کہ امی نے خود کشی کر لی ہے۔ بڑے بھائی کے بتانے پرصرف اتنا یاد ہے کہ امی کی لاش تہ خانے سے برآمد ہوئی اور اس دن سے چھوٹی بہنا گھر سے غائب ہے۔۔پولیس نے گھر کو تحویل میں لے لیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ سب بتانے کے بعد وہ پھرسے قہقہہ لگاتے ہوئے بولی دیکھو دیکھو میرے ہاتھ پھر سے رنگین ہوگئے۔۔۔
” پل بھر کے لئے مجھے محسوس ہوا جیسے کسی نے زمین، میرے پاؤں تلے سے سرکا دی ہو مزید جاننے کی حسرت کہیں دم توڑ چکی تھی۔ذہن کے کسی گوشے میں بس یہی گھنٹی سی بج رہی تھی۔ ان کہی کی الگ اذیت اور کہی کا عذاب مت پوچھو”۔
ﺁﺳﺎﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﺸﻤﮑﺶِ ﺫﺍﺕ ﮐﺎ ﺳﻔﺮ
ﮨﮯ ﺁﮔﮩﯽ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ، ﻏﻢِ ﺁﮔﮩﯽ ﺑﮩﺖ –

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply