تھانے کا داخلی راستہ اسی طرح بھیڑ بھاڑ سے بھرا ہوا تھا جیسے ہمیشہ ہوتا تھا۔ لوگ اپنی اپنی فریادیں لیے قطار میں کھڑے تھے، اور ہر چہرے پر امید اور مایوسی کا ایک عجیب امتزاج تھا۔ میں بھی انہی میں شامل تھا، مگر میری حالت دوسروں سے کچھ مختلف تھی۔ میں نہ کسی چوری کی رپورٹ لکھوانے آیا تھا، نہ کسی مقدمے کا حال جاننے۔ میں اپنے آپ کو ڈھونڈنے آیا تھا۔
یہ کئی ہفتوں سے میری روزمرہ کی کہانی تھی۔ صبح ہوتے ہی میں اپنے آپ کو آئینے میں دیکھتا، مگر وہاں کوئی اور چہرہ ہوتا۔ کوئی ایسا چہرہ جو میرا اپنا تو لگتا تھا، مگر اس کی آنکھوں میں وہ چمک نہیں تھی جو کبھی تھی۔ پھر میں تھانے جاتا اور حوالدار سے وہی سوال دہراتا:
“میرا کچھ پتا چلا؟”
حوالدار کا جواب ہمیشہ ایک سا ہوتا، جیسے کسی مشین سے نکلا ہوا جملہ ہو:
“ابھی تک تمہارا کچھ سراغ نہیں ملا، مگر تلاش جاری ہے۔”
آج بھی ایسا ہی ہوا۔ میں نے پوچھا، وہی جواب ملا، اور پھر وہی تسلی۔ “کسی دن تم مل ہی جاؤ گے۔ بے ہوش، زخمی، یا شاید…” وہ آخری جملہ ادھورا چھوڑ دیتا، مگر اس ادھورے جملے کے پیچھے چھپی حقیقت مجھے اچھی طرح معلوم تھی۔
تھانے سے نکل کر میں بازار کی طرف چل پڑا۔ یہ میرا روز کا معمول بن چکا تھا۔ میں وہاں پھولوں کی ایک دکان پر رکتا، چند گلاب کے پھول خریدتا۔ یہ پھول میں نے سوچ رکھا تھا کہ جب میں مل جاؤں گا تو اپنے استقبال کے لیے استعمال کروں گا۔ پھر میں کیمسٹ کی دکان پر جاتا، جہاں سے مرہم پٹی کا سامان خریدتا۔ میں نے اندازہ لگایا تھا کہ جب میں ملوں گا تو زخمی حالت میں ہوں گا، اور مجھے خود ہی اپنے زخموں کی دیکھ بھال کرنی ہوگی۔
—
بازار کے ایک کونے میں مسجد کی دکان تھی، جہاں سفید کفن قرینے سے تہہ کیے رکھے گئے تھے۔ میں وہاں جا کر ایک کفن خرید لیتا۔ یہ کفن اس صورت میں کام آتا اگر میں اپنے آپ کو کسی ندی میں مردہ حالت میں پاتا۔ کفن کے ساتھ ساتھ میں نے چند موم بتیاں بھی خریدیں۔ وہ موم بتیاں میری یاد منانے کے لیے تھیں۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کسی کے مرنے پر موم بتیاں نہیں جلانی چاہئیں۔ میں ان کی بات پر غور کرتا، مگر پھر یہ سوال میرے ذہن میں آتا:
“اگر آنکھ کا تارہ لاپتا ہو جائے تو روشنی کہاں سے لائیں؟ اگر گھر کا چراغ بجھ جائے تو پھر کیا جلائیں؟”
—
گھر واپس آ کر میں اپنے کمرے میں بند ہو جاتا۔ کمرے میں دیواروں پر پرانی تصویریں ٹنگی ہوئی تھیں۔ ان تصویروں میں ایک ہنستا ہوا، زندگی سے بھرپور شخص دکھائی دیتا تھا۔ وہ شخص میں تھا، مگر اب وہ صرف ایک دھندلا عکس بن چکا تھا۔ میں نے کئی بار ان تصویروں سے باتیں کیں۔ وہ شخص، جو کبھی میرا ماضی تھا، مجھے جواب نہیں دیتا تھا، مگر اس کی خاموشی مجھے ہر بار مزید مایوسی میں دھکیل دیتی۔
رات کو جب دنیا سونے کی تیاری کر رہی ہوتی، میں چھت پر جا کر ستاروں کو دیکھتا۔ ستارے مجھے ہمیشہ اپنی روشنی کی یاد دلاتے، وہ روشنی جو کبھی میرے اندر بھی ہوا کرتی تھی۔ مگر اب وہ روشنی کہیں کھو گئی تھی، اور میں اسے ڈھونڈنے کی کوشش میں تھا۔
—
ایک دن، تھانے کے ایک افسر نے مجھے غور سے دیکھا اور کہا،
“تم ہر روز یہاں آتے ہو، اپنی کھوئی ہوئی شناخت کی رپورٹ کرنے۔ مگر کیا تم نے کبھی سوچا کہ شاید تم خود اپنی تلاش میں سب سے بڑی رکاوٹ ہو؟”
اس کے الفاظ مجھے چبھ گئے۔ میں نے جواب میں کچھ نہیں کہا، مگر دل میں ایک بے چینی پیدا ہوئی۔ کیا وہ صحیح کہہ رہا تھا؟ کیا واقعی میں خود اپنی تلاش میں رکاوٹ تھا؟
یہ سوال میرے ذہن میں گونجتا رہا۔ میں نے خود سے کئی بار پوچھا:
“کیا واقعی میں کھو گیا ہوں؟ یا یہ سب محض ایک وہم ہے؟”
—
اس رات، میں نے ایک خواب دیکھا۔ میں ایک وسیع جنگل میں کھڑا تھا، جہاں ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ میں روشنی کی تلاش میں درختوں کے بیچ بھٹک رہا تھا، مگر ہر قدم کے ساتھ اندھیرا مزید گہرا ہو رہا تھا۔ پھر اچانک، ایک روشنی کی کرن نمودار ہوئی۔ وہ روشنی میرے دل سے نکل رہی تھی۔
میں ہڑبڑا کر جاگ گیا۔ پسینے میں شرابور، میں نے اپنے آپ کو آئینے میں دیکھا۔ وہی پرانا چہرہ تھا، مگر اس کی آنکھوں میں ایک نئی چمک تھی۔
—
اگلے دن، میں تھانے نہیں گیا۔ میں بازار نہیں گیا۔ میں نے اپنے کمرے کی تمام تصویریں اتار دیں اور ایک خالی کینوس پر اپنی نئی تصویر بنائی۔ یہ تصویر ایک ایسے شخص کی تھی جو کھویا ہوا تو تھا، مگر اپنی تلاش میں مخلص تھا۔
میں نے خود کو پایا۔
میں جان گیا کہ میں کبھی کھویا نہیں تھا۔
روشنی ہمیشہ میرے اندر تھی۔
میں بس اسے دیکھنے کی ہمت نہیں کر رہا تھا۔ن
۔۔۔۔۔
یا وہی تھی، لوگ وہی تھے، لیکن میں بدل چکا تھا۔ اب مجھے کسی کفن، کسی موم بتی، کسی مرہم کی ضرورت نہیں تھی۔ میں نے اپنے زخموں کو قبول کر لیا تھا، اور انہی زخموں سے روشنی نکل رہی تھی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں